علی ظہیر - شخص اور شاعر - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-05-04

علی ظہیر - شخص اور شاعر

book-on-ali-zaheer
کتاب : علی ظہیر شخص اور شاعر
مصنف : ناہیدہ سلطانہ
مبصر : ڈاکٹرمحمد عبدالعزیز سہیل
جنوبی ہند میں اردوادب کے فروغ و ارتقاء اور میعاری ادب و جدیدد رحجانات کے فروغ اور تحقیق کے بلند معیار کی برقراری کیلئے جامعات کی سطح پر بہترین کام انجام دیا جارہا ہے خصوصاََ حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں ادب کے مختلف النوع موضوعات پر بہت ہی اچھا تحقیقی کام انجام دیا جارہا ہے۔وہاں کے ریسرچ اسکالر اپنے اساتذہ کی نگرانی میں تحقیق کے مراحل محنت شاخہ سے طئے کررہے ہیں۔بعد تحقیق کے ان تحقیقی مقالات کو کتابی شکل میں اردو حلقوں میں متعارف کروارہے ہیں۔ حالیہ عرصے میں شعبہ اردو کے ریسرچ اسکالرس کی جو کتابیں شائع ہوکر مقبول ہوئیں ان میں"ہندو ستان کی یونیورسٹیوں میں اردو تحقیق کی صورتحال'شاہانہ مریم،ناصر کاظمی کی شاعری میں پیکر تراشی" سمیہ تمکین،اردو میں منی افسانہ" آمنہ آفرین وغیر ہ شامل ہیں۔ شعبہ اردو کی ایک فعال ریسرچ اسکالر ناہیدہ سلطانہ بھی ہیں جو شعر و شاعری 'مقالہ نگاری اور سمیناروں کی نظامت کا اچھا ذوق رکھتی ہیں۔ اور بہت کم عرصے میں شعبہ کے اساتذہ سے داد پائی ہے۔ انہوں نے اپنے ایم فل کے مقالے کو بعد ترمیم و اضافہ "علی ظہیرشخص اور شاعر" کے نام سے شائع کروایا ہے۔ناہیدہ سلطانہ نے یہ مقالہ حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی میں ڈاکٹر عرشیہ جبین کی نگرانی میں مکمل کیا ہے۔اور اس کو کتابی شکل میں اردو حلقوں میں پیش کیاگیاہے۔ ناہیدہ سلطانہ حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی ریسرچ اسکالر ہیں۔وہ " حیدرآباد میں اردوشاعری 1960ء کے بعد " عنوان پر ڈاکٹرعرشیہ جبین کی نگرانی میں تحقیقی کام انجام دے رہی ہیں۔مصنفہ نے اپنی اس تصنیف کو اپنے واالدین محمد عبدالجبار صاحب مرحوم اور والدہ ممتاز بیگم صاحب کے نام کیاہے۔
اس کتاب کا پہلا مضمون " حرف چند " کے عنوان سے ڈاکٹر عرشیہ جبین نے رقم کیا ہے جس میں انہوں علی ظہیر کی شخصیت پر طائرانہ نگاہ ڈالی ہے اور مصنفہ سے متعلق اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے۔" علی ظہیر شخصیت اور شاعر سے متعلق ان کی یہ تصنیف ان کے اسی محنت شاخہ کا ثمر ہے ۔انہوں نے اس تحقیقی مرحلے میں بڑی محنت کی ہے"۔زیر نظر کتاب کا پیش لفظ پروفیسر بیگ احساس نے رقم کیا ہے۔انہوں کتاب کے ہر باب پر تٖفصیلی طور پر روشنی ڈالی ہے اور اپنے نقطہ نظر کا اظہار کیا۔اور علی ظہیر سے متعلق اپنی رائے کو اسطرح بیان کیا ہے۔
"میری ذاتی رائے یہ ہے کہ علی ظہیر کاسب سے اچھا شعری مجموعہ " انگلیوں سے خون" ہے۔یہی مجموعہ ان کی شناخت کا وسیلہ بنا۔ ہمارے عہدکے دو بڑے نقاد گوپی چندنارنگ اور شمس الرحمن فاروقی اس سے متاثر ہوئے۔مغنی صاحب نے انہیں شعر وحکمت کی مجلس اددارت میں شامل کیا"۔ص11
اپنے اس پیش لفظ میں پروفیسر بیگ احسا س نے ناہیدہ سلطانہ کی خود اعتمادی کی بھرپور ستائش کی ہے۔
پیش لفظ کے بعد ہدیہ تبریک کے عنوان سے پروفیسر مظفر شہہ میری نے مصنفہ کے اوصاف سعیدہ سے متعلق لکھا ہے۔"ناہیدہ ہمارے ان معددے چند ریسرچ اسکالر وں میں ایک ہے جنھیں محنت کاشوق ہے اور جنھیں کچھ کردکھانے کی تمنا بے چین رکھتی ہے۔۔۔انہیں اداکاری کے جوہر دکھانے کا ہنر بھی آتا ہے اور سمیناروں میں اپنا نقطہ نظر پیش کرنے کا سلیقہ بھی ان ہی اوصاف نے انھیں آج یہ رتبہ عطا کیا ہے۔"ص13
زیر نظر اس کتاب میں'کچھ اس کتاب کے بارے میں'ڈاکٹر اسلم فاروقی کا تعارفی مضمون بھی شامل ہے جس میں انہوں نے یونیورسٹی آف حیدرآباد اور ناہیدہ سلطانہ کی صلاحیتوں کی ستائش کی ہے اور کتاب پر اپنی رائے اسطرح درج کی۔'اس کتاب سے قاری کو علی ظہیر کے فن کی گہرائیوں اور فکری جولانیوں سے واقفیت ملتی ہے۔'
کتاب کے تعارف کے عنوان سے ڈاکٹر محسن جلگانوی نے چند الفاظ رقم کئے ہیں۔۔ مصنفہ نے اپنی بات کے عنوان سے پیش لفظ لکھا ہے اور اپنے موضوع کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے اس کتاب کا اجمالی تعارف پیش کیا ہے ۔
زیر نظر کتاب پانچ ابواب پر مشتمل ہے جس کو ذیلی عنوانات میں تقسیم کیا گیا ہے۔پہلا باب حیدرآباد کے عصر حاضر کے چند نامور شعراء کا تعارف،دوسرا باب آباء واجداد،سوانحی حالات،شخصیت،تیسرا باب شاعری کا تجزیاتی مطالعہ،موضوعات،اسلوب و تکنیک،چوتھا باب ادبی خدمات،مضامین کا تجزیاتی مطالعہ آخری باب اختتامیہ پرمشتمل ہیں ۔
پہلے باب " حیدرآباد کے عصر حاضر کے چند نامور شعراء کا تعارف"میں مصنفہ نے عصر حاضرکی نمائندگی کرنے والے شعراء کا مختصر تعارف کو پیش کیا ہے جن شعراء کو انہوں نے اپنی تحقیق کیلئے منتخب کیا ہے ان میں مغنی تبسم،راشد آزار،مضطر مجاز،مصحف اقبال توصیفی،روف خلش۔غیاث متین۔اعتماد صدیقی،حسن فرخ،محسن جلگانوی،روف خیر، شفیق فاطمہ شعریٰ،فاطمہ تاج شامل ہیں یہاں مصنفہ نے ایک اہم نام شاذتمکنت کا چھوڑدیا ہے۔
کتاب کا دوسرا باب ، علی ظہیر کے آباء وجداد،سوانحی حالات،شخصیت کا احاطہ کرتا ہے۔مصنفہ نے علی ظہیر کے آباء و اجداد کے تعلق کو ایران سے قرار دیا ہے۔اور انکی سوانحی حالات کو تفصیل سے بیان کیا ہے اورعلی ظہیرکے ادبی سفر کی ابتداء سے متعلق لکھا ہے"ان کے ادبی سفر کی ابتداء تقریباََ 1959ء سے ہوئی ہے جب ان کی عمر ابھی 13برس رہی ہوگی ۔اس وقت وہ نویں جماعت میں زیر تعلیم تھے۔اپنے اسکول کے میدان میں جب انہوں نے بچوں کو کھیلتے دیکھا تو ایک نظم لکھی تھی۔جس کاعنوان "منظرہے۔"ص14
زیر نظر کتاب کا تیسرا باب علی ظہیر کی شاعری کا تجزیاتی مطالعہ 'اس باب میں مصنفہ نے علی ظہیر کی غزلوں کا تجزیہ کیا اور اپنی رائے اور تجزیہ کو بڑی عمدگی کے ساتھ بیان کیا ہے اور ان کے فکر کے بارے میں لکھاہے"علی ظہیر جدیدیت سے متاثر ہیں۔ان کے یہاں مذہبی نقطہ نظر یعنی وجودیت کا فلسفہ ملتا ہے،اس کے علاوہ انکی شاعری میں ملحدانہ نقطہ نظر کے عناصر بھی نظرآتے ہیں۔ان کی شاعری کی خصوصیت میں نئے موضوعات ،عصری مسائل،جدید تشبیہات واستعارات ،انوکھی علامتیں و غیرہ"۔ص92
فاضل مصنفہ نے شاعری کی ساخت سے متعلق علی ظہیر کی شاعری کو تین فارمس میں تقسیم کیاہے۔1۔میتھmyth 2۔رزمیہepic 3۔دعائیہ
اس کتاب کے باب چہارم ۔علی ظہیر کی دیگر ادبی خدمات، میں افسانے اور مضامیں کا تجزیاتی مطالعہ پیش کیا ہے اور افسانہ سے متعلق لکھا ہے۔
"علی ظہیر اردو کے عصر حاضر کے ایک اہم شاعر کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں اب تک شاعری کے علاوہ افسانے کی صنف کی طرف بھی توجہ کی ہے لیکن انہوں نے صرف ایک ہی افسانہ تصنیف کیا ہے "الکا" کے عنوان سے لکھا گیا یہ افسانہ ابھی زیر طبع ہے"ص
باب پنجم جو کہ اس کتاب کا آخری باب ہے۔ مصنفہ نے اس میں اختتامیہ طور پر علی ظہیر سے متعلق اپنے نقطہ نظر کااظہار کیا ہے ساتھ ہی علی ظہیر کی شخصیت اور فن پر مختلف نقاد،شعراء وادیب حضرات کی رائے کے حوالے سے اپنی بات کو مدلل طور پر پیش کیا ہے۔
بہرحال ناہیدہ سلطانہ نے علی ظہیر کی شخصیت کے نمایاں پہلوؤں کو اجاگر کرنے میں اپنے اس تحقیقی کام میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی جس میں وہ کامیاب رہیں۔ان کی یہ کوشش لائق ستائش ہے۔میں انکی اس پہلی تصنیف کی اشاعت پر مبارکباد پیش کرتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ وہ مستقبل میں ایک کامیاب قلمکار کی حیثیت سے اپنے آپ کو اردو دنیا میں متعارف کروائینگی۔
خوش نما دید زیب ٹائٹل مجلد192 صفحات پر مشتمل اس تحقیقی کتاب کی قیمت 250 روپئے رکھی گئی ہیں جو کہ ایجوکیشنل پبلکیشن ہاوس دہلی سے شائع ہوئی ہے۔ جس کو حیدرآباد میں ہدی بک ہاوس پرانی حویلی سے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔

***
ڈاکٹر محمد عبدالعزیز سہیل
مکان نمبر:4-2-75 ، مجید منزل لطیف بازار، نظام آباد 503001 (اے پی )۔
maazeezsohel[@]gmail.com
موبائل : 9299655396
ایم اے عزیز سہیل

A Review on book 'Ali Zaheer, Shakhs aur Shayer' by Nahida Sultana. Reviewer: Dr. M.A.A.Sohail

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں