حیدرآباد میں فرقہ وارانہ فساد - 3 ہلاک - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-05-15

حیدرآباد میں فرقہ وارانہ فساد - 3 ہلاک

communal-riots-kishanbagh hyderabad
ایس۔این۔بی (سید عظیم الدین مقبول) کی رپورٹ کے بموجب راجندر نگر پولیس حدود میں واقع کشن باغ کے سکھ چھاؤنی علاقہ میں فرقہ وارانہ پرتشدد واقعات کے دوران پولیس فائرنگ کے نتیجہ میں تین افراد کی ہلاکت کے بعد کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔ جب کہ ان واقعات میں تقریباً 12 افراد زخمی ہوگئے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ بدھ 14/مئی کی علی الصبح پرانے شہر کے بہادر پورہ سکھ چھاؤنی علاقہ میں مذہبی پرچم کو نذر آتش کرنے کے واقعہ کے بعد یہ تشدد پھوٹ پڑا ۔
ذرائع کے مطابق سکھ طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد نے مسلم اقلیتی طبقے کے 2 نوجوانوں پر اس واقعہ کے لئے ذمہ دار ہونے کے شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے حملہ کیا جس کے بعد اس علاقہ میں صورتحال کشیدہ ہو گئی ۔
صورتحال میں مزید ابتری اس وقت ہوئی جب مذکورہ فرقہ کے افراد نے مسلم اقلیتی طبقے کے مکانات کو نشانہ بنایا اور انہیں نذر آتش کیا۔ کمشنر پولیس سائبر آبادسی وی آنند نے اس واقعہ کی اطلاع کے ساتھ ہی دیگر پولیس عہدیداروں کے ہمراہ مقام واردات پر پہنچ کر صورتحال کا جائزہ لیا اور زائد پولیس فورسس بشمول نیم فوجی دستوں کو طلب کرلیا تاکہ صورتحال پر قابو پایاجاسکے ۔
قبل ازیں 3 نوجوان اس وقت پولیس فارئنگ کی زد میں آ گئے جب پولیس کی جانب سے ہجوم پر قابو پانے کے لئے فائرنگ کی گئی ۔ پولیس کو فائرنگ اس وقت کرنی پڑی جب ایک ہجوم کشن باغ کے قریب دس خانگی گاڑیوں کو نذر آتش کر رہا تھا ۔ پولیس کی ایک گاڑی اور ویڈیو کیمرے کو بھی حملہ آوروں نے اپنا نشانہ بنایا ۔ صورتحال پر قابو پانے میں پولیس کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔
جوائنٹ کمشنر پولیس گنگا دھر جو پولیس ٹیم کی قیادت کر رہے تھے شرپسند عناصر کی سنگ باری کا نشانہ بنے ۔ پولیس ذرائع کے مطابق ابتداء میں پولیس نے آنسو گیس شل برسائے لیکن جب حالات پر قابو پانے میں پولیس ناکام رہی تب اس نے فائرنگ کی جس کے نتیجہ میں تین افراد ہلاک ہو گئے ۔ دوپہر تک پولیس کے مطابق صورتحال قابو میں آچکی تھی اور پولیس نے متاثرہ علاقوں میں پٹرولنگ میں شدت پیدا کر دی تھی ۔ اس تشدد کے دوران دو پولیس ملازمین زخمی ہوگئے ۔
پولیس کے مطابق بعض افراد کو جو ان پر تشدد واقعات کے لئے ذمہ دار سمجھے جاتے ہیں حراست میں لے لیا گیا ہے ۔ حیدرآباد سٹی پولیس بھی متحرک ہوگئی ہے اورپرانا شہر کے حساس علاقوں میں مسلح پولیس پیکٹس کو تعینات کیا گیا ہے تاکہ مذکورہ واقعات کے اثرات دیگر علاقوں پر مرتب نہ ہوں۔
دریں اثناء کمشنر سائبر آباد نے بتایا کہ راجندر نگر پولیس حدود میں صورتحال پر قابو پانے کے لئے کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے ۔ جس کا نفاذ صبح دس بجے سے عمل میں لایا گیا ہے اور یہ تاحکم ثانی برقرار رہے گا۔
اسی دوران کمشنر پولیس حیدرآباد انوراگ شرما نے کہا کہ گورنر ای ایس ایل نرسمہن بذات خود صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں اور انہوں نے پولیس کے حکام کو اس بات کی ہدایت دی کہ وہ مذکورہ واقعات کے اثرات شہر کے دوسرے علاقوں پرمرتب نہ ہونے دیں اور اس سلسلہ میں درکار اقدامات کو یقینی بنایا جائے۔
واقعہ کی اطلاع کے ساتھ ہی مجلسی قائدین احمد پاشاہ قادری کے علاوہ تلگو دیشم ، کانگریس کے قائدین ایس اے قیصر اور ایس اے اطہر کے علاوہ ایم بی ٹی کے قائد خان احمد خاں نے مقام واقعہ پہنچ کر حالات کا جائزہ لیا اور اس واقعہ کے خلاف سخت احتجاج کیا ۔
بعد ازاں ان قائدین نے پولیس کے جانبدارانہ رویہ کی مذمت کی اور کہا کہ پولس کی موجودگی میں مٹھی بھر شرپسند عناصر نے نہ صرف غریب مسلمانوں کو اپنی بربریت کا نشانہ بنایا بلکہ یہاں سے گزرنے والے افراد کو بھی اپنا نشانہ بنایا۔
قائدین نے کہا کہ 2004 میں بھی شرپسند عناصر نے مذہبی پرچم کو نذر آتش کرنے کے نام پر تشدد برپا کیا تھا۔ کشن باغ میں پیش آئے اس واقعہ کے بعد اس سے متصل علاقوں میں سنسنی پیدا ہوگئی اور عوام میں خوف و تشویش کی لہر دوڑ گئی ۔ جب کہ پرانا شہر کے مختلف علاقہ آناً فاناً میں بند ہوگئے ۔ تاریخی چار مینار، مدینہ بلڈنگ پتھر گٹی، شاہ علی بنڈہ، چوک، حسینی علم جہاں عام طور پر گہما گہمی کا ماحول رہتا ہے ، سناٹا دیکھا گیا اور دیگر تجارتی مراکز بھی بند دیکھے گئے ۔
خبر رساں ادارے آئی این این کے مطابق راجندر نگر پولیس حدود میں واقع کشن باغ سکھ چھاؤنی علاقہ میں اشرار نے جو ہتھیاروں سے لیس تھے اقلیتی فرقہ کے مکانات اور دکانات کو اپنا نشانہ بنایا۔ اس کے علاوہ بعض مکانات اور دکانات کو نذر آتش بھی کیا گیا ۔ اس علاقہ کے بعض مکینوں ںے بتایا کہ اشرار نے پولیس کی نگرانی میں اقلیتی فرقوں کے افراد کو نشانہ بنایا۔ زخمی افراد کو شہر کے مختلف دواخانوں میں شریک کیا گیا ہے ۔

اعتماد نیوز کے بموجب چہارشنبہ کی صبح یہ افواہ پھیل گئی کہ سکھ چھاؤنی میں کسی نے سکھوں کے مذہبی پرچم نشان صاحب کو جلا دیا ہے۔ اسی کے ساتھ سکھوں کی مسلح ٹولیاں کشن باغ ، عرش محل ، سکھ چھاؤنی اور آس پاس کے علاقوں میں دندناتے ہوئے پھرنے لگیں۔ ان ٹولیوں نے پولیس کی موجودگی میں مسلمانوں اور ان کے گھروں پر حملے کیے۔ کئی گھروں اور گاڑیوں کو آگ لگا دی گئی اور دکانوں کو لوٹ لیا گیا۔ حملوں کے بعد دونوں فرقوں کے ارکان کے درمیان سنگباری کا تبادلہ بھی ہوا۔ گڑبڑ کے دوران اچانک بی ایس ایف متاثرہ مقامات پر پہنچی اور مسلمانوں کے ہجوم پر اس نے بلا اشتعال فائرنگ شروع کر ڈالی۔ فائرنگ کے وقت فائرنگ کے اصولوں کو بھی بارڈر سیکوریٹی فورس نے نظرانداز کر دیا اور سینہ اور جسم کے اوپری حصہ پر گولیاں برسائیں۔
صدر مجلس اتحاد المسلمین بیرسٹر اسد الدین اویسی نے کشن باغ سکھ چھاؤنی میں پیش آئے واقعات پر شدید ردعمل اور برہمی کا اظہار کرتے ہوئے پولیس فائرنگ اور جھنڈے کو مبینہ نذر آتش کرنے کے واقعہ کی ہائی کورٹ کے برسرخدمت جج کے ذریعے عدالتی تحقیقات کروانے کا مطالبہ کیا ہے۔ اور بی ایس ایف کے ان جوانوں کے خلاف بھی سخت کاروائی کرتے ہوئے گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا جنہوں نے تشدد کے واقعات کے دس منٹ کے اندر ہی اندھا دھند فائرنگ کرتے ہوئے 3 افراد کی جانیں لے لیں اور کئی افراد کو زخمی کر دیا جبکہ وہاں فائرنگ کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی ، ہلکی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے حالات کو قابو میں کیا جا سکتا تھا۔

communal-riots-kishanbagh-3killed
سیاست نیوز کے بموجب کشن باغ کے عرش محل علاقہ میں آج سکھ پرچم کو مبینہ طور پر نذر آتش کئے جانے کے نام پر پیدا شدہ تشدد کے نتیجہ میں بے قصور مسلمانوں کا نہ صرف زبردست جانی و مالی نقصان ہوا بلکہ کئی خاندان بری طرح متاثر ہوئے۔ تین اموات سے ایک ماں کی گود اجڑ گئی، ایک خاندان بے سہارا ہوگیا اور ایک لڑکی کا گھر آباد ہونے سے رہ گیا۔ ایک نئی نویلی دلہن بیوہ ہوگئی۔ عرش محل پولیس فائرنگ میں ہلاک فرید کی تین ماہ قبل شادی ہوئی تھی اور گھر کا ذمہ دار لڑکا تھا۔ فرید پیشہ ڈرائیور تھا اور کال سنٹر کی گاڑی چلاتا تھا، اس کی بیوی حاملہ جو اپنے مائیکے گلبرگہ گئی ہوئی تھی۔
فرقہ وارانہ فسادات سے نمٹنے کیلئے ریاپڈ ایکشن فورس موجود ہے جو بغیر مہلک ہتھیار کے فسادات کو قابو کرنے میں ماہر ہے ۔ پھر بھی سائبرآباد کے ایک سینئر پولیس عہدیدار کی ہدایت پر بی ایس ایف عملہ نے انساز رائفلز کا استعمال کرتے ہوئے اندھادھند گولیاں چلائیں جس میں شجاع الدین خطیب عرف توفیق ، محمد فرید اور محمد واجد علی عرف ولی جاں بحق ہوگئے ۔
بی ایس ایف جو ہندوستان کا ایک نیم فوجی دستہ ہے جسے اکثر ملک کے سرحدی علاقوں میں تعینات کیا جاتا ہے اور انہیں جدید ٹکنالوجی والی (INSAS) انساز رائفلز فراہم کی جاتی ہیں ۔ انساز رائفلز کو نیم فوجی دستوں نے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ہوئی 1999 ء کی کارگل جنگ میں استعمال کیا تھا ۔ اس رائفل کی گنجائش کے ذریعہ ایک منٹ میں 600 گولیوں کے راؤنڈس چلائے جا سکتے ہیں جبکہ اس کی حد 500 میٹر بتائی جاتی ہے ۔
پولیس فائرنگ کے دو مہلوکین کی جامع مسجد عرش محل میں آج بعد مغرب نماز جنازہ ادا کی گئی۔ بعد ازاںمتصلہ قبرستان میں تدفین عمل میں آئی۔ مقامی افراد اور دیگر سوگواروں کی بہت ہی کم تعداد موجود تھی لیکن پولیس کی کثیر تعداد اطراف و اکناف کے سارے علاقہ کا پہرہ دے رہی تھی۔ مقامی افراد نے اس پر حیرت کا اظہار کیا اور کہا کہ گنگا جمنی تہذیب کے اس شہر میں یہ بد نما داغ رونما ہوا ہے جہاں ایک طرف پولیس نے اشرار کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے تو دوسری طرف جنازہ کی تدفین کیلئے پہونچنے والوں کا محاصرہ کیا جارہا ہے۔ مہلوکین کے مکانات کو بھی پولیس اور دیگر سیکورٹی فورسیس کے محاصرہ میں لیا جاچکا ہے۔ سائبرآباد پولیس کمشنر سی وی آنند نے تدفین کی نگرانی کی۔ جوائنٹ کمشنر گنگادھر علاقہ میں کیمپ کئے ہوئے تھے۔ اے پی ایس پی کی خصوصی بٹالین علاقہ میں چوکس تھیں جبکہ پولیس ملازمین ویڈیو گرافی میں مصروف تھی اور قبرستان کے راستہ پر آنسو گیس برسانے والی گاڑی تعینات تھی۔

Sikh Muslim riots in Kishan Bagh Hyderabad, Three killed in police firing curfew imposed

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں