اقلیتوں کی فلاح کے لئے یو پی اے حکومت کی اسکیمات پر عمل میں کوتاہیاں - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-05-14

اقلیتوں کی فلاح کے لئے یو پی اے حکومت کی اسکیمات پر عمل میں کوتاہیاں

نئی دہلی
آئی اے این ایس
ایک ایسے وقت یوپی اے حکومت نے اپنے آپ کو قوم کے لئے اپنے "سیکولر ایجنڈہ" کے حصہ کے طور پر اقلیتوں کے چمپئن کی حیثیت سے پیش کیا ہے،خود مرکز کے قائم کردہ ایک کمیٹی نے جس نے اسکیمات کی اثر پذیری کا جائزہ لیا ہے ، کہا ہے کہ اقلیت کی فلاح کے لئے شروع کردہ اسکیمات پر عمل آوری میں کوتاہیاں جاری رہیں اور کئی اسکیمات کے فوائد مستحقین تک نہیں پہنچ پائے ۔ جواہر لال نہرو یونیورسٹی(جے این یو) کے پروفیسر امیتابھ کنڈو کی زیر قیادت قائم کردہ کمیٹی نے اسکیمات کے فوائد کی مناسب تقسیم میں متعدد کوتاہیوں کی نشاندہی کی ہے۔ تاہم اقلیتی فرقوں سے تعلق رکھنے والے طلباء کے لئے اسکالر شپس کی رقم میں اضافہ کے،حکومت کے اقدام کی ستائش بھی کی ہے۔ کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی کہا ہے کہ کافی اسکالر شپس ،منظور نہیں کئے جارہے ہیں اور بعض صورتوں میں "بد عنوانیوں کے سبب یہ رقومات ضائع ہوجارہی ہیں۔" رپورٹ وزیر اقلیتی امور کے رحمن خان کو گزشتہ مارچ ہی میں پیش کردی گئی تھی۔ اس رپورٹ تک رسائی ،آئی اے این ایس نے اب حاصل کی ہے ۔ رپورٹ میں اس امر کی تو ثیق کی گئی ہے کہ اسکیمات کی عمل آوری کے سلسلہ میں یوپی اے حکومت کے خلاف تنقیدیں کی گئی ہیں۔ رپورٹ میں وزیرا عظم کے15نکاتی پروگرام برائے اقلیت پر بطور خاص تنقید کی گئی۔ اس پروگرام کا اعلان 2005میں کیا گیا تھا اور موجودہ ونیز نئی اسکیمات کے ذریعہ معاشی سرگرمیوں اور ملازمتوں کے میدان میں اقلیتوں کے لئے مساویانہ حصہ کو یقینی بنانے و نیز تعلیم کے مواقع میں اضافہ کرنے کی بات کہی گئی تھی ۔ پروفیسر امیتابھ کنڈو کی رپورٹ میں ملٹی سیکٹر دیولپمنٹ پگرام(ایم ایس ڈی پی) کی عمل آوری پر بھی تنقید کی گئی ہے ۔ اس پروگرام کے ذریعہ اقلیتی مرکوز علاقوں میں جہاں کم ترقی ہوئی ہے ترقیاتی پہل شروع کرنے کی بات کہی گئی تھی اور سماجی۔ معاشی انفراسٹرکچر و نیز بینادی سہولتوں کی فراہم کا تیقن بھی دیا گیا تھا۔یہاں یہ تذکرہ بے جا نہ ہوگا کہ بی جے پی کے امید وار وزارت عظمیٰ نریندر مودی نے بھی اپنی انتخابی مہم کے دوران مذکورہ اسکیمات پر مناسب عمل نہ ہونے پر مرکزی حکومت کو ہدف تنقید بنایا تھا ۔ یہاں یہ تذکرہ بھی مناسب ہوگا کہ حکومت نے ملک میں اقلیتی مرکوز90اضلاع پر خصوصی توجہ دیتے ہوئے یہ اسکیمات شروع کی تھی۔ ان اضلاع میں اقلیتوں کی آبادی25فیصد سے زیادہ ہے۔ قبل ازیں سچر کمیٹی نے2006میں اپنی سفارشات میں کہا تھا کہ ملک میں اقلیتی فرقوں کے حالات کو بہتر بنانے کے لئے اقدامات کی ضرورت ہے ۔ کنڈورپورٹ میں اس بات کا نوٹ لیا گیا ہے کہ تعلیمی اداروں سے ، تعلیم ادھوری چھوڑ کر نکلنے والے مسلم نوجوانوں کا تناسب بہت زیادہ ہے ۔ اس طرح روزگار کے میدان میں ان کے مواقع پر اثر پڑا ہے ۔ جہاں تک حفظان صحت کا تعلق ہے ،رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ"سہولتوں تک رسائی کی اصطلاحوں میں مسلمانوں کی حالت،درج فہرست اقوام سے بھی پیچھے ہے"۔ معاشی سرگرمیوں اور روزگار کے میدان میں اقلیتوں کے حصہ پر اظہار خیال کرتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مجموعی اعتبار سے یہ حصہ بہت کم ہے ۔"پبلک ایمپلائنمنٹ پروگرام میں ہندو یا عیسائی گھرانوں کے بالمقابل مسلم گھرانوں کا حصہ یا تناسب بہت کم ہے"۔ مردم شماری کے بموجب ملک کی جملہ آبادی میں مسلمانوں کا تناسب13.4فیصد ہے۔ عیسائیوں کا تناسب2.3فیصد اور سکھوں کا تناسب 1.9فیصد ہے ۔ ہندو آبادی کا تناسب تخمیناً80.5فیصد ہے ۔ جین’بدھسٹوں اور دیگر فرقوں کاتناسب کافی کم بتایا جاتا ہے ۔ روزگار اسکیمات کے تحت اقلیتی فرقوں کے لئے مقر کردہ نشانوں کی"بہت کم تکمیل ہوئی ہے "۔ مسلمانوں کی رقمی قرضہ جات دینے کے تعلق سے کمیٹی نے احساس ظاہر کیا ہے کہ یہ صورتحال بھی اطمینان بخش نہیں رہی۔ کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں رائے دی ہے کہ"گزشتہ کئی برسوں کے دوران قومی اقلیتی ڈیولپمنٹ وفینانس کا رپوریشن نے جو رقم تقسیم کی ہے، اس میں اضافہ تو ہوا ہے لیکن توقع کے مطابق یہ اضافہ نہیں ہوا ۔ تاہم اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں میں احساس مایوسی کی گہرائی کو دیکھتے ہوئے اور مسلمانوں کی آبادی کو مد نظر رکھتے ہوئے رقم میں اضافہ کرنے اور استفادہ کنندگان کی تعداد کو بڑھانے کی فوری ضرورت ہے ۔ موقوفہ جائیدادوں کے انتظام و انصرام پر اظہار خیال کرتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملائیشیا میں قائم" تابونگ حاجی" کے خطوط پر ایک تنظیم قائم کرنے اور اسے"تابع شریعت" بنانے کی ضرورت ہے۔(تابونگ حاجی ،تابع شریعت وینچرس میں سرمایہ کاری کے ذریعہ ملائیشیا کے عازمین حج کو رقومات فراہم کرتی ہے)۔ مسلمانوں کے لئے تحفظات کے مسئلہ پر جس کا وعدہ کانگریس نے اپنے حالیہ ضمنی انتخابی منشور میں کیا تھا ،امیتابھ کنڈو نے کہا کہ"ایسے ثبوت و شواہد کی کوئی کمی نہیں ہے کہ بنیادی ذرائع سے لے کر ثانوی ذرائع تک مسلمان،دیگر پسماندہ طبقات (او بی سی) کے مقابلہ میں زیادہ غریب ہیں اور غیر مسلم او بی سیز مقابلہ میں سماجی سطح پر محرام مراعات ہیں۔ اوبی سی زمرہ میں مسلم او بی سیز کو غیر مساویانہ مسابقت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ کنڈو نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ حکومت ،انتہائی پسماندہ طبقات کے لئے ایک علیحدہ کوٹہ تخلیق کرسکتی ہے جس میں ہندو اور مسلمان دونوں شامل ہوں گے اور یہ کوٹہ کلیتاً سماجی اور معاشی عوامل پر مبنی ہوگا۔

Minority welfare: UPA govt faulted on poor implementation

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں