مودی کی حلف برداری میں شرکت کرنے نواز شریف کا فیصلہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-05-25

مودی کی حلف برداری میں شرکت کرنے نواز شریف کا فیصلہ

اسلام آباد؍نئی دہلی
پی ٹی آئی
پاکستانی وزیرا عظم نواز شریف نے 3دن کے تجسس کو ختم کرتے ہوئے آج فیصلہ کیا ہے کہ پیر کو نامزد وزیر اعظم نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت کریں گے ۔ جس کے ایک دن بعد دونوں قائدین باہمی ملاقات کریں گے ۔ مودی نے تین دن پہلے انہیں شرکت کی دعوت دی تھی ۔ تقریب حلف برداری پیر کومنعقد ہوگی ۔ پاکستان کی طرف سے دعوت نامہ قبول کئے جانے کے بعد حلر برداری کی تقریب کے لئے سیکوریٹی اور بھی سخت کردی گئی ہے ۔ یہ تقریب راشٹر پتی بھون کے صحن میں26مئی کو شام منعقد کی جائے گی ۔ ذرائع کے مطابق اس دورہ میں حلف برداری کی تقریب کے بعد دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم کے درمیان باہمی ملاقات بھی ہوگی ۔ پاکستانی وزیر اعظم کے دفتر کے جوائنٹ سکریٹری محی الدین وانی نے بتایا کہ نواز شریف اور نریندر مودی کے درمیان علیحدہ ملاقات بھی ہوگی۔ نواز شریف بعد ازاں صدر جمہوریہ پرنب مکرجی سے بھی ملیں گے ۔ نواز شریف پیر کو نئی دہلی پہونچیں گے جن کے ہمراہ ان کے مشیر برائے قومی سلامتی اور خارجی امور سرتاج عزیز اسپیشل اسسٹنٹ طارق فاطمی اور معتمد خارجہ عزیز چودھری و دیگر شامل رہیں گے ۔ وزیرا عظم کے دفتر سے جاری کردہ اعلان کے بعد یہ تجسس ختم ہوگیا ہے کہ نواز شریف ہندوستان کا دورہ کرتے ہوئے بی جے پی جیسی کٹر جماعت کی حکومت سازی کی تقریب میں شرکت کریں گے یا نہیں ۔ یہ تبدیلی اس وقت آئی جب وزیر اعظم کے بھائی اور پنجاب کے چیف منسٹر شہباز شریف نے فوج کے سربراہ راحیل شریف سے ملاقات کی اور نصف گھنٹہ کی بات چیت کے دوران انہیں ہندوستان کے دورے کی اہمیت سے واقف کرایا۔ اسلام آباد میں ہندوستان سے موصولہ پروگرام کے مطابق27مئی کو صبح نواز شریف کی مودی سے ملاقات ہوگی ۔اسی دن دوپہر نواز شریف پاکستان واپس ہوجائیں گے ۔ واضح رہے کہ ممبئی پر2008ء میں26نومبرکے حملے کے بعد سے ہند۔ پاک تعلقات کشیدہ چلے آرہے ہیں۔ ہندوستان کا الزام ہے کہ اس حملے میں پاکستان سے سرگرم جنگجوؤں کا ہاتھ تھا۔ نواز شریف نے پچھلے سال اقتدار میں آنے کے بعد عہد کیا تھا کہ وہ ہندوستان کے ساتھ تعلقات بحال کریں گے لیکن داخلی محاذ پر خاص طور پر فوج کی طرف سے دباؤ کی وجہ سے ان کا موقف سخت رہا ہے ۔ نریندر مودی نے غیر معمولی جذبہ خیر سگالی سے کام لیتے ہوئے گزشتہ چہار شنبہ کونواز شریف اور دیگر سارک سربراہوں کو اپنی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کی دعوت دی تھی ۔ بھوٹان کے وزیر اعظم ٹی شرنگ ٹوبگے ، نیپال کے وزیر اعظم سشل کوئرالا ، مالدیپ کے صدر عبداللہ یامین عبدالقیوم ، سری لنکا کے صدر مہنداراج پکسے اور افغانستان کے صدر حامد کرزئی اس تقریب میں شرکت کررہے ہیں ۔ بنگلہ دیش کی وزیرا عظم شیخ حسینہ کیونکہ اس موقع پر اس روز جاپان میں ہوں گی اس لئے انہوں نے معذوری ظاہر کردی ہے ۔ تقریب میں ان کی نمائندگی بنگلہ دیشی پارلیمنٹ کی اسپیکر شریں شرمین چودھری کریں گی ۔ پاکستانی وزیراعظم کے اس دورے سے دونوں ملکوں کے درمیان امن مذاکرات کے حوالے سے احسن رابطہ کی راہ پھر سے ہموار ہوسکتی ہے ۔ انتخابی مہم کے دوران نریندرمودی نے پاکستان کے خلاف اپنا لہجہ سخت رکھا تھا جس کی وجہ سے اندیشہ پیدا ہوگیا تھا کہ دونوں ہمسایوں کے درمیان کشیدگی سے بھرے کسی عہد کی شروعات نہ ہوجائے ۔ نریندر مودی نے بہر حال اس اندیشے کو غلط ثابت کردیا۔ قبل ازیں2012ء میں اس وقت پاکستانی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے نئی دہلی میں اس وقت کے وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا سے ملاقات کی تھی ۔ پچھلے سال نیو یارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر ڈاکٹر منموہن سنگھ اور نواز شریف کی ملاقات بھی خوش آئند رہی ۔ رخصت پذیر وزیر اعظم منموہن سنگھ کو پاکستانی لیڈروں کی طرف سے پچھلے دس برسوں میں کئی مرتبہ پاکستان کے دورے کی دعوت دی گئی لیکن عملاً اس کی نوبت نہ آسکی ۔ سری لنکا کے صدر کو اس تقریب میں مدعو کرنے کا فیصلہ بھی ٹمل پارٹیوں کو پسند نہیں آیا۔دریں اثناء پی ٹی آئی کی ایک علیحدہ اطلاع کے بموجب بی جے پی نے آج نریندر مودی کی بحیثیت وزیرا عظم حلف برداری تقریب میں شرکت کرنے نواز شریف کے فیصلہ پر مسرت کا اظہار کیا جب کہ کانگریس نے نئی حکومت سے کہا کہ وہ دہشت گردی ، 26/11حملوں میں مقدمہ کی سست رفتار اور داؤد ابراہیم کی حوالگی جیسے مسائل وزیر اعظم پاکستان کے ساتھ اٹھائے ۔ بی جے پی ترجمان پرکاش جاودیکر نے یہاں کہا کہ یہ ایک پرمسرت اطلاع ہے کہ وزیر اعظم پاکستان نے نریندر مودی کی دعوت قبول کرلی ہے ، یہ نئے تعلقات کی ابتداء ہے اور یہ ایک اچھی خبر ہے انہو ں نے کہا کہ پاکستان ، چین، نیپال ،بھوٹان، سری لنکا اور میانمار ہندوستا ن کے پڑوسی ملک ہیں اور پڑوسیوں کو تبدیل نہیں کیاجاسکتا ۔ تاہم کانگریس نے اس وقعہ پر محتاط رد عمل ظاہر کیا ۔ سابق مرکزی وزیر منیش تیواری نے اس بات کی یاددہانی کرائی کہ بی جے پی اتنے عرصہ سے کہتی رہے ہے کہ دہشت گردی اور بات چیت ساتھ ساتھ جاری نہیں رہ سکتے ۔ انہوں نے اس توقع کا اظہار کیا کہ عہدہ کاجائزہ لینے کے بعد بی جے پی حکومت26/11حملوں کے مقدمہ میں سست پیش رفت کا مسئلہ اٹھائے گی ۔ جو انہیں ستاتارہا ہے ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ حافظ سعید جیسے افراد کامسئلہ بھی اٹھایا جانا چاہئے ۔ تیواری نے کہا کہ وہ (بی جے پی) وقفہ وقفہ سے داؤد ابراہیم کی تحویل کامسئلہ اٹھاتی رہی ہے جنہیں مبینہ طور پر پاکستانی حکومت نے پناہ دی ہے۔ اسی لئے ہمیں امید ہے کہ بی جے پی اپنے اس موقف پر قائم رہے گی جو اس نے گزشتہ دس سال کے دوران اختیار کیا ہے اور جب پاکستانی وزیرا عظم ہندوستان آئیں گے تو ان کے ساتھ یہ مسائل اٹھائے گی ۔

Sharif fights off stiff Oppn, will attend Modi's swearing-in

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں