مودی لہر اچانک نہیں اٹھی - 5 سال تک عوام کی ذہن سازی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-05-24

مودی لہر اچانک نہیں اٹھی - 5 سال تک عوام کی ذہن سازی

عام انتخابات کے چونکا دینے والے نتائج نے جہاں عوام بالخصوص کانگریس کے حامیوں کو بھونچکا کردیا ہے وہیں سلجھے ہوئے ذہن رکھنے والوں کو یہ پیغام بھی دیا ہے کہ یقین محکم اور عمل پیہم کے ذریعہ انسان ہر رکاوٹ کو دور کرتے ہوئے اپنی منزل مقصود تک پہنچ ہی جاتا ہے۔ نریندر مودی کی تاریخی کامیابی اس کا واضح ثبوت ہے ۔ آج ہر طرف بی جے پی کی شاندار کامیابی کو لے کر مختلف آراء کا اظہار کیاجارہا ہے ۔ بعض یہ خیال کررہے ہیں کہ ہندوستان میں سیکولرازم کا خاتمہ اور فسطائی طاقت کو عروج حاصل ہوچکا ہے ۔ عوام کی اکثریت فرقہ پرست ذہنیت کی حامل ہوگئی ہے ۔ جب کہ اگر باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ان انتخابات میں ایسا کچھ بھی نہیں ہوا ۔ نہ ہی سیکولر ازم کا ملک سے خاتمہ ہوا ہے اور نہ ہی عوام کی اکثریت فرقہ پرستی کی حامل ہوئی ہے ۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس مرتبہ بی جے پی نے ہندو توا ایجنڈہ کو یکسر پس پشت ڈال کر ملک و قوم کو درپیش سب سے اہم مسئلہ کو اپنا موضوع بحث بنایا اور وہ تھا حکمراں کانگریس کے دس سالہ دور اقتدار (یوپی اے اول و دوم) میں پیش آئے متعدد اسکامس کے باعث ملک و عوام کو لاحق خطرات اور تباہی کو اجاگر کرنا،ہندوستانی عوام (رائے دہندوں) سے متعلق یہ شہرت عام ہے کہ ہماری عوام کی یاد داشت بہت کمزور ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ پانچ برسوں تک جس منتخب نمائندہ سے دھوکہ کھاتے رہتے ہیں وہ سب کچھ بھول بھال کر دوبارہ اسی قائد کے حق میں اپنا ووٹ استعمال کرتے ہیں ۔ یہ وہ اہم نکتہ تھا جس کو بی جے پی قیادت نے اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دیا ۔ مودی لہر اچانک ہی نہیں اٹھی بلکہ بی جے پی 2009کے عام انتخابات کے بعد سے ہی اپنا لائحہ عمل طے کرلیا۔ یوپی اے اول کے دور اقتدار میں ہوئے مختلف اسکامس کی فہرست تیار کی گئی اور وقتاً فوقتاً2009کے عام انتخابات کے بعد عوام کی ذہن سازی کا مشن شروع کیا ۔ اس طرح عوام کی یادداشت کو مضبوط بنانے کا کام گزشتہ پانچ برسوں کے دوران بہت ہی عمدگی کے ساتھ کیاجاتا رہا ۔ عوام کو بتایا گیا کہ کانگریس کے دور اقتدارمیں ہر سطح پر رشوت خوری ، سیاستدانوں(وزراء) کی بدعنوانیاں ، مہنگائی اور اقرباء پروری کو ناقابل یقین حد تک فروغ حاصل ہوا ۔ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں ہر آئے دن اضافہ ہوتا گیا جس کے باعث اشیائے ضروریہ ی قیمتیں آسمان کو چھونے لگیں ۔ حکومت کے اعلی عہدیداروں (بیورو کریٹس) نت نئی اسکیمات حکومت کے روبروپیش کرتے ، جن سے عوام کے بجائے سیاستدانوں اور خود اعلیٰ عہدیداروں کے لئے بدعنوانی کے ذریعہ لوٹ کھسوٹ کے دروازے کھولے گئے ۔ حالات ایسے ہوگئے تھے کہ ہر سطح کا سرکاری ملازم صرف اپنی ذات کے بارے میں سوچ رہا تھا نہ ہی عوام کی اور نہ ہی ملک کی کوئی فکر تھی ۔ ان تمام امور کو بی جے پی قیادت نے بہت ہی متاثر کن اندازمیں عوام کے روبرو پیش کیا۔ اس طرح عوام کے دلوں میں حکمراں جماعت کے خلاف نفرت اوربیزارگی پنپتی چلی گئی ۔ ہر عام شہری اپنی زندگی کی گاڑی کھینچتے کھینچتے عاجز آچکا تھا ۔ ان ہی عوامل نے رائے دہندوں کو کانگریس کامتبادل تلاش کرنے پر مجبور کردیا اور بی جے پی ان کے لئے سب سے مناسب متبادل نظر آئی ۔ کانگریس قیادت لوٹ کھسوٹ میں مصروف اور بی جے پی قیادت نے بہترین ہوم ورک کیا۔ لوہا گرم ہے ماردو ہتھوڑا ، کے مصداق عوام کے تئیں حکومت سے بیزاری اور بدلتے تیور سے فائدہ اٹھا کر بی جے پی نے حکمراں جماعت پر بھرپور وار کیا۔ کانگریس پرمودی کے پہ در پہ حملے اور رائے دہندوں کا غم و غصہ کانگریس کے لئے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوئی ۔ بنگلور کے نیشنل کالج گراؤنڈس پر ایک پرہجوم جلسہ عام کو خطاب کرتے ہوئے مودی نے ایک اسکام کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ1.76لاکھ کروڑ کا عدد اگر دہلی کی سڑک پر لکھا جائے تو اسکا آخری صفر 10جنپت (سونیا گاندھی کی رہاش گاہ)کے باب الداخلہ پر ہوگا ۔ اسی طرح مظفر نگر فسادات کے بعد راہول کا ایک متنازعہ بیا ن کے’’آئی ایس آئی ‘ایجنٹس کے مظفر نگر فسادات کے متاثرین سے قریبی روابط ہیں‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے مودی نے مطالبہ کیا تھا کہ’’شہزادے! یا تو آپ ان مسلم نوجوانوں کے نام بتائیں جن کے آئی ایس آئی سے تعلقات ہیں یا پھر مسلمانوں کی دل آزاری پر ان سے برسر عام معافی مانگیں‘‘۔ علاوہ ازیں پٹنہ میں ایک ریالی سے خطاب کرتے ہوئے نریندر مودی نے سوال کیا تھا کہ میرے مسلم بھائیو ، یہ بتائیں کہ آپ کس کے خلاف لڑائی لڑنا چاہتے ہیں ۔ ہندوؤں کے یا غربت کے خلاف۔ آئیے ہم سب مل کر غربت کا خاتمہ کرنے متحدہوجائیں۔ کانگریس کے حملوں کا جواب دیتے ہوئے مودی نے امیٹھی میں اپنے خطاب کے دوران واضح کیا تھا کہ ہم بدلہ نہیں چاہتے بلکہ بدلاؤ(تبدیلی) چاہتے اور یہی خواہش عوام کی بھی ہے ۔ اس کے بر خلاف کانگریس نے یا تو بی جے پی کو ایک فرقہ پرست جماعت قرار دینے میں اپنی توانائی صرف کی یا پھر نریندر مودی کو چائے والا اور چوکیدار جیسے القاب سے نوازتے ہوئے خود اپنی ساکھ خراب کرلی ۔ اس طرح انتخابی مہم میں درپیش حقیقی راستے سے کانگریس بھٹک گئی ۔ جس کا راست فائدہ صرف بی جے پی کو پہنچا ۔ ان انتخابی نتائج نے اس بھرم کو بھی توڑ دیا کہ مسلمانوں کا موقف بادشاہ گر ہے اور مسلم رائے دہندوں کی اکثریت نے جس جماعت کی بھی حمایت کی وہ جماعت اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب رہی ۔ جیسا کہ اتر پردیش کے اسمبلی انتخابات میں مسلمانوں نے ملائم سنگھ یادو کی سماج وادی پارٹی کو بھاری اکثریت سے منتخب ہونے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ جب کہ بی جے پی نے حالیہ انتخابات میں مذہنی شناخت کو ہرگز اہمیت نہیں دی۔ مودی نے اپنی انتخابی مہم کے دوران نہ ہی رام مندر کا تذکرہ کیا اور نہ ہی ہندوتوا کا۔ بلکہ صرف ملک اور قوم (جس میں مسلمان و دیگر اقلیتیں بھی شامل ہیں) کی ترقی اور خوشحالی پر پوری توجہ مرکوز کی ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ فرقہ پرست ہندوؤں کے علاوہ سیکولر ذہن کے امن پسند رائے دہندوں نے بھی مودی کو اپنا قومی رہنما مانتے ہوئے ان کے وزیر اعظم بننے کی راہ ہموار کردی ۔ مودی کی اس دور اندیشی اور خود اعتمادی نے بی جے پی کو شاندار کامیابی سے اس طرح ہمکنار کروایا کہ اب مرکز میں تشکیل حکومت کے لئے کسی حلیف جماعت کی تائید بھی اب باقی نہیں رہی ۔ اب دیکھنا ہے کہ مودی اپنے انتخابی منشور کو کس طرح نافذ العمل بناتے ہیں۔

No sudden wave for Modi - 5 years of continuous brainwashing of public

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں