ہیوی ویٹ موسیقار - استاد بڑے غلام علی خان - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-04-17

ہیوی ویٹ موسیقار - استاد بڑے غلام علی خان

ustad-Bade-Ghulam-Ali-Khan
استاد بڑے غلام علی خان کئی اعتبار سے ہیوی ویٹ موسیقار تھے.
کلاسیکی موسیقی کے میدان میں وہ اپنے فن کے لحاظ سے ایک ایسے تناور چھتارا درخت کی طرح چھائے ہوئے تھے جس کے سامنے اس وقت کے موسیقاربونے نظر آتے تھے جسمانی طور پر بھی استاد بے حد لحیم شحیم تھے ہیوی ویٹ پہلوان کی مانند. مجھے فخر ہے کہ 1961 میں دلی میں استاد سے ملاقات کا موقع ملا.اس سال. انہیں ہندوستان کا اعلی اعزاز پدم بھوشن دیا گیا تھا اوروہ موسیقی کی ایک محفل میں مدعو تھے . واقعی وہ اپنے فن اور بڑی بڑی مونچھوں کے ساتھ اپنی بھاری بھرکم شخصیت سے محفل پر چھائے ہوئے تھے . اس محفل میں مجھے سب سے عجیب اور غیر معمولی بات یہ لگی کہ استاد بڑے غلام علی خان نے نہایت مختصر الاپ کے ساتھ بے حد مختصر راگ پیش کئے جو بے حد پسند ؤے ؤے . اس محفل کے اختتام پر جب ان سے گفتگو کا موقع ملا تومیں نے سب سے پہلے یہی سوال کیا کہ انہوں نے اتنے مختصر راگوں کا کیوں انتخاب کیا .ان کا کہنا تھا کہ کلاسیکی موسیقی کی دلکشی اسی میں ہے کہ اسے طول دینے اور سننے والوں کو بور کرنے والے لمبے لمبے الاپ اور راگوں کی جگہ راگوں کو جامع انداز سے پیش کیا جائے کیونکہ وہ زمانہ ختم ہؤگیا جب بادشاہوں راجہ مہاراجوں اور نوابوں کے دربار تھے اور لوگوں کے پاس وقت ہی وقت تھا کہ وہ گھنٹوں بیٹھے موسیقاروں کو سنتے تھے اور موسیقار بھی ان کی تفریحِ طبع کے لئے تانوں کو دہراتے رہتے تھے ۔ ان کا کہنا تھا کہ اب ہم ان لوگوں کے لئے گاتے ہیں جن کے پاس وقت بہت کم ہے اسی لئے ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے راگوں میں ولمبت مختصر کر دیا ہے ۔ تاکہ طویل راگوں میں ان کی اصل خوبصورتی نہ دب جائے .یہی وجہ ہے کہ استاد انقلابی موسیقار مانے جاتے ہیں کہ انہوں نے بدلتے ہوئے حالات کے مطابق موسیقی کی کئی سمتیں متعین کیں 'اسے کئی صنفوں اور ادأیگی کے نئے اندازوں سے مالا مال کیا اور کلاسیکی موسیقی کو اشرافیت کے بند محلات سے نکال کر عوام تک پہنچایا .
استاد بڑے غلام علی خان 1902 میں پاکستان کے شہر قصور کے ایک ممتاز موسیقار گھرانے میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے اپنے والد استاد علی بخش اور بعد میں اپنے چچا استاد کالے خان پٹیالہ والے سے کلاسیکی موسیقی کی تربیت حاصل کی۔ اسی مناسبت سے ان کا نام پٹیالہ گھرانے سے منسوب ہے بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ انہی کے نام سے موسیقی کی دنیا میں پٹیالہ گھرانہ مشہور ہے جس طرح استاد عبد الکریم خان کے نام سے کیرانہ گھرانہ اور استاد علاؤالدین خان سے جے پور اترولی گھرانہ مشہور ہے۔
بڑے غلام علی کلاسیکی گائیکی کے افق پر نمودار ہونے سے پہلے ماہر سارنگی نواز تھے اور ان کا کہنا تھا کہ سارنگی نے انہیں کلاسیکی گائیکی میں دریا ایسی روانی اور مشکل سے مشکل تانوں پر قدرت بخشی ہے کیونکہ موسیقی کا کوئی آلہ انسانی آواز سے اتنا قریب نہیں جتنی کہ سارنگی۔
انہوں نے منظر عام پر پہلی بار اپنے فنِ موسیقی کا مظاہرہ سن انیس سو بیس میں تاریخی دلی دربار میں کیا جو برطانیہ کے شہزادہ ویلز کی ہندوستان آمد پر منعقد ہوا تھا۔ اس کے بعد وہ سن انیس سو انتالیس میں کلکتہ کی آل انڈیا میوزک کانفرنس میں بے حد مقبول ہوئے اور سن انیس سو چوالیس میں بمبئی کی وکرمادتیہ سنگیت پریشد میں ان کے فن کے مظاہرہ کے بعد پورے ہندوستان میں ان کا ڈنکا بج گیا۔
نہایت سریلی آواز کے ساتھ انہیں پیچیدہ تانوں کے اتار چڑھاؤ پر اس قدر قدرت حاصل تھی کہ وہ اپنے دل کی گہرائیوں کے جذبات کو اپنی گائیکی میں ایسی بالیدگی بخشتے تھے کہ سننے والے سرور سے جھوم جھوم اٹھتے تھے۔ استاد بڑے غلام علی خان کا کہنا تھا کہ بہت سے لوگوں کا یہ خیال ہے کہ کلاسیکی موسیقی میں قوتِ اظہار نہیں بلکہ یہ محض فن کاری سے عبارت ہے وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ہماری موسیقی کی اصل روح جذبہ اور احساس ہے اور اس میں اتنی قوت ہے کہ اس کی بدولت انسان کے جذبات کی لطافت و نزہت کو نہایت خوبصورتی سے پیش کیا جا سکتا ہے۔
استاد بڑے غلام علی خان صاحب بھجن بھی خاص جذبہ کے ساتھ گاتے تھے اور میں دلی میں موسیقی کے جن شوقین سے ملا سب کا یہ کہنا تھا کہ بھجن میں ان کا کؤی ہم سر نہیں ہے .. میں نے استاد سے پوچھا کہ انہیں بھجن کا کیسے شوق ہوا؟ کہنے لگے کہ جب میں اکیس سال کا تھا تو میں ایک طوایف زارا بائی کے ساتھ بنارس گیا تھا . اس زمانہ میں میں سارنگی بجاتا تھا . بنارس میں جب میں نے بھجن سنے تو اس کے جادو نے مجھ پربے حد اثر کیا . میں نے اپنے چچا استاد کالے خان سے ان کے کچھ سر سیکھے تھے میں نے ان سروں پر بھجن گائے جو لوگوں کو بہت پسند آئے.
میں نے استاد بڑے غلام علی خان صاحب سے پوچھا کہ آپ 1957میں لاہور سے ہندوستان آئے اور پھر یہیں کے ہو کر رہے. وجہ کیا؟
کہنے لگے کہ میں تقسیم سے پہلے بمبئی میں تھا . تقسیم کے بعد میں پاکستان منتقل ہو گیا تھا لیکن وہاں میرا دل نہیں لگا اور میں واپس ہندوستان چلا آیا. اس زمانہ میں مرارجی دیسائی بمبئی کے وزیر اعلی تھے وہ میرے بھجن بے حد پسند کرتے تھے اور یہ بھجن سن کر جھوم جھوم اٹتھے تھے . انہوں نے ہی مجھے ہندوستان میں روک لیا اورمجھے بمبئی کے نہایت قیمتی علاقہ مالابار ہل میں سمندر کے کنارے ایک خوبصورت بنگلہ رہنے کے لیے دیا. میرے فن کی ہندوستان میں اتنی زبردست قدر ہوئی کہ میں نے اپنے خاندان والوں کو پاکستان میں چھوڑ کر ہندوستان کو اپنا وطن بنا لیا. پھر بولے کہ دیکھیے مجھے ہندوستا ن کا اتنا بڑا اعزاز پدم بھوشن دیا گیا ہے .

میں نے استاد سے پوچھا کہ آپ نے فلموں کے لیے بہت کم گانے گائے ہیں. وہ کیوں؟ ان کا کہنا تھا کہ فلموں کی موسیقی کا انداز انہیں نہیں بھایا اور ہمیشہ میں نے اس سے اجتناب کیا لیکن پچھلے سال (1960) میں کے آصف نے مجھے بہت مجبور کیا کہ میں ان کی فلم مغل اعظم میں گانے گاؤں. نوشاد میوزک ڈایرکٹر تھے انہوں نے مجھے دو گانے دئے جو میں نے سوہنی اور راج شری کے راگوں پر گائے. جو بہت مقبول ہوئے. کہنے لگے کہ پتہ ہے کہ مجھے ایک گانے پر کتنا معاوضہ ملا ؟ میں نے کہا کہ یہی پانچ سو روپے فی گانا ملا ہوگا کیونکہ لتا منگیشکر اور محمد رفیع کو اتنا ہی معاوضہ ملتا ہے .استاد نے بڑے زور کا قہقہہ لگایا اور بولے نہیں جی میں نے 25 ہزار روپے فی گانا معاوضہ مانگا تھا جو کہ آصف نے خوشی خوشی دیا.

میں نے استاد سے پوچھا کہ آپ قصور کے پٹیالہ گھرانے کی روایت میں پلے بڑھے ہیں لیکن اس کی پوری چھاپ آپ کی گلوکاری پر نہیں. کہنے لگے بڑے استاد نکلے . استادوں کے بھی استاد. میں نے دراصل پٹیالہ گھرانے کی گائکی میں دھرپد میں بہرامی خانی انگ بھی شامل کیا ہے اور گوالیار کا " بہلاوا" بھی یوں میری گلوکاری میں مختلف رنگ رچ گئے ہیں جو لوگوں کو بہت پسند ہیں. غالباً اسی بنا پر استاد بڑے غلام علی خان ہندوستان کے موسیقی کے پرستاروں میں بطور " سب رنگ استاد" مشہور ہیں.
ہندوستانی کلاسیکی موسیقی کو ان کی سب سے بڑی دین ٹھمری میں ان کی گائیکی کا نیا انداز ہے ۔ ٹھمری کی صنف نے نواب واجد علی شاہ کے دربار میں جنم لیا تھا ان کے بعد ٹھمری دو صنفوں میں بٹ گئی ایک بنارس کا پوربی انگ دوسرا لکھنو کا پچھمی انگ ۔ استاد بڑے غلام علی خان نے ٹھمری کو ایک نیا انگ دیا جو پنجابی انگ کہلاتا ہے جس میں لوک گیتوں کا رنگ غالب ہے۔ ان کی ٹھمریوں میں 'آئے نہ بالم کیا کروں سجنی' ، ' کنکر مار گیا بمنا کا چھورا' اور 'یاد پیا کی آئے' بہت مقبول ہیں۔ انہوں نے سب رنگ کے فرضی نام سے بہت سے راگ مرتب کئے اور بھجن لکھے جو بے حد مقبول ہوئے۔
استاد بڑے غلام علی خان اپنے تن و توش سے موسیقار سے زیادہ پہلوان لگتے تھے اور بڑے خوش خوراک تھے ۔ ان کے دوست انہیں موسیقی کے استاد کے ساتھ کھانے کا بھی استاد کہتے تھے ۔
سن 1962 میں استاد بڑے غلام علی خان اپنے ایک پرانے مداح نواب زہیر یار جنگ کے کہنے پر حیدر آباد دکن میں بشیر باغ محل منتقل ہو گئے جہاں وہ اپریل سن 1968 میں اپنے انتقال (25/ اپریل 1968) تک مقیم رہے۔

Ustad Bade Ghulam Ali Khan, a heavy weight Hindustani classical vocalist

1 تبصرہ:

  1. بہت شکریہ اس شیئرنگ کا میں نے ان کا ذکر اپنے بڑوں سے بہت سن رکھے ہے اللہ مغفرت فرمائے انکی ۔
    بڑے غلام علی خان کو میر مومن کے قبرستان میں مدفن کیا گیا ۔ آپ کے جیسا کائیک کوئی ہے ہی نہیں ۔

    جواب دیںحذف کریں