تاثرات دکن - مولانا عبدالماجد دریابادی - قسط-1 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-04-01

تاثرات دکن - مولانا عبدالماجد دریابادی - قسط-1



یہ کتاب برصغیر ہند و پاک کے ایک معروف صاحبِ طرز ادیب ، انشا پرداز ، عالم ، فلسفی ، صحافی اور نقاد مولانا عبدالماجد دریاآبادی کی تحریر کردہ ہے جن کا جنوری 1977ء میں انتقال ہو چکا ہے۔
اس مختصر روئیداد میں "حیدرآباد مرحوم و مغفور" (سابق مملکت اسلامیہ آصفیہ دکن) کی تہذیب و ثقافت کی نظر افروز جھلکیاں ہیں ، قائد ملت بہادر یار جنگ کے علاوہ دکن کے بعض مرحوم مشاہیر اور زندہ علمی و ادبی شخصیتوں کی دلکش تصویریں ہیں اور حیدرآباد کے دینی ، اسلامی ، علمی و ادبی اداروں کا دلچسپ تذکرہ ہے!
ان نوجوانوں کے لیے ، جنہوں نے حیدرآباد کے متعلق صرف سنا ہے ، دیکھا نہیں اور ان کے لیے بھی ، جنہوں نے حیدرآباد کو دیکھا تو ہے ، پھر بھی بار بار دیکھنے کی تمنا رکھتے ہیں ، مولانا کی یہ روئیداد تصور کے پردۂ سیمیں پر گویا حیدرآباد کی چلتی پھرتی ، حسین و رنگین فلم ہے۔
یہ مختصر کتاب 1977ء میں بہادر یار جنگ اکادمی (کراچی) سے شائع ہوئی تھی۔
تعمیر نیوز بیورو (ٹی۔این۔بی) کی جانب سے پہلی بار اس کتاب کو یونیکوڈ میں نیٹ پر (قسط وار) پیش کیا جا رہا ہے۔ انٹرنیٹ اردو کمیونیٹی کی مقبول عام نوجوان شخصیت اور کتبِ آثار کے شیدائی جناب راشد اشرف کے ہم شکرگزار ہیں کہ انہی کی تلاش اور اسکیننگ کی مہربانی کے نتیجے میں یہ کتاب اسکربڈ [scribd.com] پر بھی پی۔ڈی۔ایف شکل میں منظر عام پر نمودار ہوئی ہے۔



اس کتاب کے جملہ حقوق بحق بہادر یار جنگ اکادمی محفوظ ہیں۔

اشاعت : یوم حیدرآباد دکن ، 17/ ستمبر 1977ء
تعداد اشاعت : ایک ہزار
کتابت : محفوظ علی
طباعت : انجمن پریس کراچی
قیمت : پانچ روپیہ
ملنے کا پتہ : بہادر یار جنگ اکادمی ، سراج الدولہ روڈ۔ بہادر آباد۔ کراچی - 5


مولانا عبدالماجد دریاآبادی مرحوم برصغیر ہند کی گنی چنی نامور ہستیوں میں سے تھے۔ ماہر نفسیات ، فلسفی ، صحافی ، نقاد ، مبصر ، عالم ، مترجم اور مفسر قرآن !
کئی بلند پایہ عملی و ادبی کتابوں کے مصنف ، اپنے رنگ کے منفرد انشاء پرداز اور صاحب طرز ادیب!! ہفتہ وار "سچ" ، پھر اس کے نقش ثانی "صدق (لکھنؤ" کے ذریعہ وہ ایک عرصہ دراز تک تہذیب جدید کی لائی ہوئی گمراہیوں کے خلاف قلمی جہاد کرتے رہے۔ جنوری 1977ء میں انہوں نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
سلطنت اسلامیہ آصفیہ حیدرآباد دکن سے مولانائے محترم کو تعلقِ خصوصی رہا۔ (اور برصغیر ہند کی کس نامور مسلم ہستی کو نہیں رہا ہے؟)۔ وہ 1917ء میں بحیثیت رکن دارالترجمہ جامعۂ عثمانیہ حیدرآباد دکن تشریف لائے اور تقریباً ایک سال قیام کیا۔
یہیں انہوں نے فلسفہ و منطق کی بعض انگریزی کتابوں کا اردو میں ترجمہ کیا۔ یہ گویا مملکت دکن سے تعلقات کی ابتدا تھی ، اس کے بعد وہ اپنے وطن دریاباد ضلع بارہ بنکی (یو۔ پی) لوٹ گئے ، لیکن حیدرآباد کے نقوش ان کے دل سے محو نہیں ہوئے بلکہ جوں جوں زمانہ گزرتا گیا یہ نقوش گہرے ہوتے گئے۔
مملکتِ آصفیہ سے ان کی وابستگی کی بنیادی وجوہ دو تھیں۔ ایک تو اس سلطنت کی اسلامی نوعیت اور دوسری قائدِ ملت بہادر یار جنگ کی مومنانہ شخصیت۔ ان کی نگاہ میں مملکت حیدرآباد "مسلمانانِ برصغیر کے جاہ و جلال کی آخری یادگار تھی" اور بہادر یار جنگ "مولانا محمد علی جوہر" کے حقیقی جانشین بلکہ نقش ثانی" (1)

دکن میں جب تک مسلمانوں کی حکومت رہی ، مولانا دریاآبادی کو اس کی فلاح و بہبود سے بڑی دلچسپی تھی۔ ہفتہ وار "صدق" کے ذریعہ وہ اپنے مفید مشوروں سے نوازتے رہے اور صدق بھی حیدرآباد میں ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا رہا۔ سقوطِ حیدرآباد کے المیہ کا مولانا کے دل پر جو اثر ہوا اس کا اظہار بھی انہوں نے وقتاً فوقتاً صدق میں کیا ، تاہم اس المیہ کے بعد بھی مسلمانان حیدرآباد اور حیدرآباد کی مسلم ثقافت سے ان کی دلچسپی برقرار رہی۔
اس حادثہ کے تقریباً پندرہ سال بعد اکتوبر 1963ء میں مولانا نے اپنے ایک قریبی عزیز ناظر یار جنگ رکن عدالت عالیہ حیدرآباد (جج حیدرآباد ہائی کورٹ) کی دعوت پر حیدرآباد کا سفر کیا۔ 17 ، 18 دن (19/ ستمبر تا 2/ اکتوبر 1963ء) وہاں قیام کیا اور دریاآباد لوٹ کر اپنے اس سفر اور قیام سے متعلق روئیداد کو صدق کے آٹھ نمبروں (3/ جنوری 1964 تا 21/ فروری 1964) میں شائع کیا۔

یہ روئیداد کیا ہے؟ اس میں "حیدرآباد مرحوم و مغفور" (سابق مملکت اسلامیہ آصفیہ دکن) کی تہذیب و ثقافت کی نظر افروز جھلکیاں ہیں ، قائد ملت بہادر یار جنگ کے علاوہ دکن کے بعض مرحوم مشاہیر اور زندہ علمی و ادبی شخصیتوں کی دلکش تصویریں ہیں اور حیدرآباد کے دینی ، اسلامی ، علمی و ادبی اداروں کا دلچسپ تذکرہ ہے!
ان نوجوانوں کے لیے ، جنہوں نے حیدرآباد کے متعلق صرف سنا ہے ، دیکھا نہیں اور ان کے لیے بھی ، جنہوں نے حیدرآباد کو دیکھا تو ہے ، پھر بھی بار بار دیکھنے کی تمنا رکھتے ہیں ، مولانا کی یہ روئیداد تصور کے پردۂ سیمیں پر گویا حیدرآباد کی چلتی پھرتی ، حسین و رنگین فلم ہے۔
مولانا کے اس سفرنامہ کو میں نے "تاثراتِ دکن" کے عنوان سے ، معہ ضروری حواشی کے ، کتابی صورت میں مرتب کیا ہے۔
جناب محمد وحید الدین خان بوزئی معتمد اکادمی قابل مبارکباد ہیں کہ ان کے ذہن میں اس کی اشاعت کا خیال پیدا ہوا اور انہیں کے حسن اہتمام سے یہ کتاب شائع کی جا رہی ہے۔

(1)
"بہادر یار جنگ مشاہیر کی نظر میں" مرتبہ بہادر یار جنگ اکیڈمی مطبوعہ کراچی ، جون 1976ء ، ص:34
مولانا عبدالماجد دریاآبادی کو مولانا محمد علی جوہر کی ذات گرامی سے عشق تھا ، جس کا اظہار ان کی کتاب "محمد علی : ذاتی ڈائری کے چند اوراق" سے ہوتا ہے۔
(مرتب)

کراچی
یکم ستمبر 1977ء

محمد احمد خان
میر مجلس بہادر یار جنگ اکادمی

Book: Taassurraat-e-Deccan. By: Maulana Abdul Majid Dariyabadi. Ep.:01

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں