کانپور میں جلسہ حالات حاضرہ - مولانا فضل الرحیم مجددی کا خطاب - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-04-25

کانپور میں جلسہ حالات حاضرہ - مولانا فضل الرحیم مجددی کا خطاب

kanpur-political-meeting
فسطائی طاقتیں ترقی کا چولا پہن کرہندوستان کے اقتدار پر قبضہ کرنے پر آمادہ۔ا س کا مقصد مسلمانوں کو غلام بنانا۔ مولانا فضل الرحیم مجددی

موجودہ حالات میں جب کہ فسطائی طاقتیں ہندوستان کے اقتدار پر قبضہ کرنے کی کوشش میں مصروف ہے ایسی صورت میں ہمارا فریضہ ہے کہ ہم نہ صر ف عوام کی رہنمائی کریں بلکہ عوام کو گمراہ ہونے بھی بچائیں۔ ا ن خیالا ت کا اظہار کل رات ضلع اناؤ میں منعقدہ ایک کانفرنس میں مولانا فضل الرحیم مجددی نے کیا۔
انہوں نے کہاکہ ایک منصوبہ بند سازش کے تحت میڈیا ،دیگر ذرائع ابلاغ اور کچھ سیاسی پارٹیوں کے توسط سے مختلف قسم کے پروپیگنڈے کئے جارہے ہیں اور معاشرے میں ایسی انتشارکی فضا قائم کی جارہی ہے جس سے عوام اور خصوصاً مسلمان الجھ کر ر ہ جائیں اور کسی فیصلے پر نہ پہنچ پائیں۔ انہوں نے کہاکہ میڈیا عوام میں سب سے زیادہ انتشار پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ اس کا فا ئدہ ایک خاص پارٹی کو مل سکے۔
انہوں نے کہا کہ فسطائی طاقتوں نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے لئے ترقی کا مکھوٹا پہن لیا ہے اور ملک کو یہ دکھانے کی کی کوشش کررہی ہے کہ اگر وہ برسراقتدار آگئی تو ملک کے تمام مسائل یک لخت حل ہوجائیں گے۔ غریبی ، جہالت ، تعلیم اوربے روزگاری کے مسائل چٹکیوں میں حل ہوجائیں گے ۔
انہوں نے کہاکہ جس پارٹی کا فرقہ پرستی، اقلیت دشمنی اور مسلمانوں کو ہر سطح پر غلام بنانا شیوہ رہا ہو وہ آج ترقی کی بات کیوں کر رہی ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس پارٹی کا کبھی بھی انتخاب میں ترقی موضوع نہیں رہا بلکہ ہر انتخابات میں اپنا موضوع بدلتی رہی ہے اور اگر آج ترقی کی بات کر رہی ہے تو ضرور اس کے پس پشت کوئی ایسی بات ہے جسے وہ پنہاں رکھ کراقتدار کی سیڑھیاں چڑھنا چاہتی ہے۔
مولانا فضل الرحیم مجددی نے کہاکہ ملک کی آزادی کے بعد یہ پہلا ایسا انتخاب ہے جس نے مجھے خانقاہی نظام سے نکل کر آپ کے سامنے آنے پر مجبور کردیا۔ یہ ایسی صورت حال ملک کے سامنے پہلی بار آئی ہے جس نے تمام اہل فکر کو سوچنے پر مجبور کردیا کہ اگر یہ طاقتیں برسراقتدار آگئیں توملک کے لئے سب سے برا دن ہوگا او ر ہندوستان کی سالمیت اور وحدت کو خطرہ لاحق ہوجائے گا۔
انہوں نے کہا کہ ترقی پسند اتحاد (یو پی اے) حکومت کے تعلق سے عوام کو گمرا کیا جارہا ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کے لئے کوئی کام نہیں کیا جب کہ رپورٹ بتاتی ہے کہ گزشتہ دس برسوں کے دوران مسلمانوں کے لئے جو ،منصوبے اور اسکیمیں بنائی گئی اور اس پر عمل درآمد کرایا گیا وہ گزشتہ پچاس برسوں میں نہیں ہوا تھا۔ انہو نے سچر کمیٹی کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ یہ ایسی رپورٹ ہے جس میں مسلمانوں کے تمام امراض کی تشخیص کی گئی ہے اور ہمیشہ اس کمیٹی کی رپورٹ مسلمانوں کی فلاح بہبود او ر ان کی ترقی کے لئے معاون ثابت ہوگی۔
انہو نے کہاکہ ہندوستان میں آج تک کوئی کمیٹی یا کمیشن کی رپورٹ نہیں ہے جس پر اتنی جلد عمل کیا گیا۔ انہوں نے مثال پیش کرتے ہوئے کہاکہ منڈل کمیشن کی سفارشات کے نفاذ میں بھی دس سال کا عرصہ لگا تھا۔ اس کے علاوہ ان گنت ایسی کمیٹی اور کمیشن کی رپورٹ جو سرد خانے پڑی ہے ۔لیکن سچر کمیٹی کی رپورٹ پیش ہوتے اس پر عمل درآمد شروع کردیا گیا۔ایکشن ٹیکن رپورٹ کے لئے رنگناتھ مشرا کمیشن کی قائم کیا۔
انہوں نے کہا کہ یو پی اے حکومت پر سب سے بڑا الزام یہ ہے کہ اس نے سچر کمیٹی کی سفارشات پر عمل درآمد نہیں کرائی۔ انہوں نے اس کی وضاحت کی کہ نفاذ کی ذمہ داری ریاستی حکومت کی ہوتی ہے۔مرکز اسکیم کے تحت ریاستوں کو مسلمانوں کے فنڈ بھیجتی ہے لیکن بہت سی ریاستیں اس پر عمل نہیں کرتی ہیں اور وہ رقم واپس مرکز کے پاس آجاتی ہے۔سچر کمیٹی تمام سفارشات پر عمل کی گئی ہے۔ رپورٹ اس کی شاہد ہے۔
مولانا فضل الرحیم مجدد ی نے کہاکہ سچر کمیٹی کی رپورٹ کی خصوصیت یہ ہے کہ ا ب اس کے بعد کسی کمیٹی قائم کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ اس کمیٹی نے ایسی بنیادقائم کردی ہے جس کے سہارے مسلمان اپنی تعلیمی. معاشی، سیاسی اور روزگار کے حقوق حاصل کرتے رہیں گے۔ اس ساری چیزوں کی گنجائش موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں اس کمیٹی نے مسلمانوں کے د و اہم مسائل تعلیم اور روزگار پر توجہ مرکوز کی ہے ۔ یہ دومسائل حل ہوگئے تو مسلمانوں کے سارے مسائل اپنے آپ حل ہوجائیں گے۔
انہوں نے کہاکہ اس کمیٹی کی سفارشات کے تحت گزشتہ پانچ برسوں میں ساڑھے پانچ ہزار کروڑ رپے زائد مسلم طلبا کو اسکالر شپ دی گئی ہے ۔ کہیں کہیں نفاذ کی عدم تکمیل کی رپورٹیں بھی موصول ہورہی ہیں لیکن اس کے لئے مسلمانوں کو آگے آنا ہوگا اور مقامی سطح پر ایسے افسران کے خلاف احتجاج کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہاکہ یو پی اے حکومت نے مسلمانوں کی تعلیم اور روزگار کے مسائل کو 15نکاتی پروگرام میں شامل کیا ہے ۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو اس کے تعلق سے جو اسکیمیں اور پروگرام بنائے جائیں گے اس میں پندرہ فیصد مسلمانوں کا حصہ ہوگا۔
انہوں نے کہاکہ پہلے پندرہ نکاتی پروگرام کا دائرہ بہت چھوٹاتھا لیکن اب 12ویں منصوبہ میں بہت ساری وزارتوں کواس میں شامل کیا گیا ہے۔اگر 12 ویں منصوبہ پر عمل کیا گیا تو مسلمانوں کے تعلمیے معاشی اور مسائل ہوسکتے ہیں۔ اس لئے موجودہ حکومت کا برقرار رہنا بہت ضروری ہے۔ انہوں نے ہندستان کے سیکولر عوام اور خصوصاً مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ فرقہ پرست طاقتوں کو شکست دینے کے لئے ایسی پارٹی کو منتخب کریں جومرکز میں اس کا مقابلہ کرسکے۔
دریں اثنا آج یہا صبح ایک دانشوروں کی میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحیم مجدد ی نے کہاکہ جان بوجھ کر ایسے حالات پیدا کئے جارہے ہیں تاکہ عوام صحیح مسا ئل اور معلومات تک نہیں پہنچ سکیں۔ انہوں نے کہاکہ ملک و ملت کے لئے نہ صرف صحیح سوچ پیدا کرنے کی ضرورت ہے بلکہ انہیں صحیح فیصلہ پر آمادہ بھی کریں۔
انہوں نے کہا کہ ہندوستان کی آزادی کی تحریک سوا سو سال کی ہے اور اس طرح تما م طبقوں نے ملک کی آزادی کی تحریک میں بھرپور حصہ لیا مگر ایک ایسی طاقت تھی جس نے اس تحریک میں حصہ لینے کے بجائے انگریز وں کا ساتھ دیا۔ انہیں معلوم تھا کہ آج نہ کل ہندوستان آزاد ہوجائے گا اور انہوں نے ہندوستان کے اقتدار پر قبضہ کرنے لئے اپنا لائحہ عمل تیار کرنا شروع کردیا۔ انہوں نے کہاکہ آزادی کے بعد مہاتما گاندھی کا قتل ٹوپی پہن کر اس لئے کیا تھا کہ مسلمانوں کے خلاف فساد پھوٹ پڑے گا اور اس طرح اقتدار ہتھیانے کا موقع مل جائے لیکن اس وقت ان کا راز افشا ہوگیا اور ناکامی ہاتھ آئی۔
مولانا مجددی نے کہاکہ کہ دوسرا پڑاؤ بابری مسجد کی شہادت تھا اور اس کے سہارے اقتدار پر قابض ہونا چاہتے تھے لیکن اس میں ناکامی ہاتھ لگی۔ اب اس نے ترقی کا چولا پہن کر اقتدار پر قبضہ کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ یہ جمہوریت کی آڑ میں فاشزم کا کھیل کھیلنا چاہ رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آر ایس ایس ہندوستانی عوام پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے تین طرح کے کام کئے ۔ پہلا ششو مندر اور سیوا بھارتی کے تحت ملک کے کونے کونے میں اسکول قائم کئے اور اس میں مسلمانوں کے تئیں نفرت پیدا کرنے والے مفاد شامل کیا۔ دوسرا نصاب میں تحریف کرکے مسلمانوں کے کارناموں سیاہ کارناموں میں تبدیل اور مسلمانوں کو حملہ آور، ظالم جابر اور مندر توڑنے والا قرار دیا تیسرا کام یہ کیا کہ انتظامیہ میں مضبوط پکڑ بنانے کے لئے اپنے افراد کو داخل کیا اور سول سروس میں بڑے پیمانے اپنے لوگوں کو شامل کیا ۔ یہ وہ لوگ تھے جو مسلمانوں کے خلاف نفرت پیدا کرنے والی نصابی کتاب پڑھ کر آئے تھے۔اب تک سیکولر عوام اس کا راستہ روکا ہے ۔ ہمیں بھی اس کے لے آگے آنا ہوگا۔ اس لئے اس سلسلے میں آ پ کو غور کرنا ہے۔ ابھی آپ کے پاس وقت ہے اور فیصلہ کرنے کی طاقت بھی۔

--

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں