الیکشن کمیشن نے اسی دہرے پیمانے کا ثبوت امیت شاہ اور اعظم خاں کے معاملے میں دیا ہے۔ جب کہ الیکشن کمیشن سے امیت شاہ کی تقریر کو انتہائی اشتعال انگیز قرار دیتے ہوئے اتر پردیش کے چیف سکریٹری کو مکتوب ایک خط میں کہا تھا ،" اتر پردیش کی حکومت کے وزیر اعظم خان اور بی جے پی کے لیڈر امیت شاہ اپنے انتخابی مہم کے دوران انتہائی اشتعال انگیز تقریر کر رہے ہیں۔ کمیشن نے اس معاملے کو سنجیدہ اور تشویش ناک پایا ہے ۔ ان کے ایسے بیانات باہمی رنجش ، نفرت اور مختلف مذہبی فرقوں میں شک و شبہ کی صورت حال پیدا کر رہے ہیں ۔"کمیشن نے اعظم خان کے بارے میں ریاستی حکومت کے ڈھیلے رویہ پر بھی تنقید کی تھی۔ کمیشن نے اپنے خط میں لکھا کہ کمیشن نے امیت شاہ کو سات اپریل اور اعظم خان کو نو اپریل کو نوٹس جاری کیا تھا۔ ان نوٹسوں کے باوجود اعظم خان ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے قابل اعتراض اور اشتعال انگیز تقریرکر رہے ہیں ۔ الیکشن کمیشن نے کہا ، " کمیشن نے پایا کہ ریاست کی انتظامیہ نے پوری تیاری سے ان دونوں رہنماؤں کے خلاف جہاں ضروری تھا ایف آئی آر درج نہیں کیا ۔ خاص طور پر ایسا لگتا ہے کہ اعظم خان کے خلاف ابھی تک کوئی ایف آئی آر درج نہیں کی گئی ہے۔ کمیشن کا خیال ہے کہ ریاستی حکومت ان کے خلاف کوئی بھی کارروائی کرنے میں نرم رویے سے کام لے رہی ہے۔ کمیشن نے یہ بھی کہا کہ ان تمام عوامی جلسوں ، ریلیوں ، جلوس اور روڈ شو جس میں یہ دونوں لیڈر حصہ لے رہے ہوں ان کو انتظامی اجازت نہیں دی جائے ۔ یہ تاکید بھی کی گئی کہ ان کی ایسی تمام سرگرمیوں کو جس سے امن و قانون میں خلل پڑسکتی ہے ، ان کو روکنے کے لئے پولیس مختلف دفعات کے تحت کارروائی کو یقینی بنائے ۔ریاستی حکومت نے امیت شاہ کے خلاف تعزیرات ہند کی دفعہ 153 اے ( مذہب کی بنیاد پر مختلف فرقوں میں دشمنی کو فروغ دینا ) اور عوامی نمائندگی ایکٹ کی دفعہ 125 ( انتخابات کے سلسلہ میں مختلف طبقوں میں دشمنی پھیلانا ) کے تحت دو ایف آئی آر درج کرائی تھی۔اگر ہم ایسے معاملات میں قانون کے التزام پر نگاہ ڈالیں تو ہمیں لگتا ہے کہ وہاں پر اس معاملے میں بالکل واضح ہے۔ مثلا دفعہ 153 اے کے تحت کسی بھی دو فرقوں میں مذہب کی بنیاد پر دشمنی کو فروغ دینا ایک مجرمانہ معاملہ ہے۔ اگر ہم ایمنسٹی انٹرنیشنل کی طرف سے 16 ستمبر 2002 کو جاری بیان کو غور سے دیکھیں تو ہمیں پتہ چلے گا کہ ہندوستان کی تعزیرات ہند کی دفعہ 153 کے تحت فساد پھیلانے کی نیت سے دئے گئے اشتعال انگیز بیان کے لئے کریمنل کیس چلایا جا سکتا ہے، اسی طرح سا لمیت اور یکجہتی کو خطرے میں ڈالنے والے بیانات پر (دفعہ 153 بی) یا کسی دوسرے شخص کے مذہبی جذبات کو بھڑکانے کے لئے جان بوجھ کر دیے گئے بیان (دفعہ 29 بی) پر کارروائی کی جا سکتی ہے۔ دفعہ 505 (1)، بی اور سی کے تحت عوامی طور پر نقص امن کے لئے کارروائی کی جا سکتی ہے تو مختلف طبقوں کے اندر دشمنی، نفرت یاامتیاز کرنے والے بیانات پر دفعہ 505/2 کے تحت کارروائی کی جا سکتی ہے۔اس کے باوجود الیکشن کمیشن کسی بھی بھگوا لیڈر کے خلاف کارروائی کرنے میں روز اول سے ہی ناکام رہا ہے۔
سماج وادی پارٹی نے الیکشن کمیشن پر الزام لگایا کہ وہ بی جے پی کے لئے کام کر رہا ہے۔ الیکشن کمیشن کے رویہ سے یہ الزام نہ رہ کر حقیقت کا روپ لے لیا۔ کانگریس نے کہا کہ شاہ اور ایس پی لیڈر اعظم خاں کے بیانات یکساں طور پر فرقہ وارانہ ہیں کارروائی بھی یکساں ہونی چاہئے۔الیکشن کمیشن نے دونوں رہنماؤں کے نفرت تقاریر، مذہبی جذبات بھڑکانے کی وجہ سے ان کے انتخابی مہم کرنے پر روک لگا دی تھی۔ ایس پی اور کانگریس نے جمعہ کو الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کی مخالفت کی، جس میں اس نے بی جے پی جنرل سکریٹری امیت شاہ کی تشہیر ی مہم چلانے اور عوامی ریلیاں کرنے پر لگی پابندی ہٹا لی۔ اعظم خاں نے کہا کہ کمیشن نے ان کے جواب پر غور نہیں کیا۔ اعظم نے کہا، کہ انہوں نے میرے جواب پر غور نہیں کیا اور میرے خلاف بہت سخت فیصلہ کیا۔کانگریس کے ترجمان ابھیشیک منو سنگھوی نے کہا کہ اعظم خان اور امیت شاہ نے جو کہا ہے، دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ امیت شاہ کے خلاف سپریم کورٹ کے حکم پر سی بی آئی تحقیقات کر رہی ہے۔ سی بی آئی نے اپنی چارج شیٹ میں امیت شاہ پر کئی سنگین الزامات عائد کیے ہیں۔ سی بی آئی کی چارج شیٹ کے مطابق امیت شاہ پر قتل، تاوان، اغوا اور مجرمانہ سازش رچنے کے الزام ہیں۔ سپریم کورٹ امیت شاہ پر گجرات میں داخل ہونے پر پابندی بھی لگاچکی ہے۔جب کہ اعظم خاں کے خلاف اس طرح کا کوئی الزام نہیں ہے۔ اس کے باوجود الیکشن کمیشن کاامتیاز برتنا بہت کچھ اشار کر رہا ہے۔
اس سلسلے میں وزارت داخلہ کی طرف سے 1997 میں" مذہبی خیرسگالی" کو فروغ دینے کے لئے جاری ہدایات پر غور کریں تو ہمیں صاف نظر آتا ہے کہ فرقہ وارانہ کشیدگی کے معاملے میں وہ ریاستی مشینری کی ذمہ داری کو طے کرتا ہے۔ ہدایات نمبر 15 کہتا ہے کہ" ایسی واردات واقعات کو دوبارہ اور فوری طور پر روکنے کے لئے ضلع انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ مناسب قدم اٹھائے"۔ اس ضمن میں اگر ہم ہندوستان کی حکومت کی طرف سے سال 1979 میں منظور شدہ شہری اور سیاسی حقوق کے لئے پیش کیئے جانے والے بین الاقوامی معاہدے کو دیکھیں تو وہاں بھی حکومت نے اس بات کے لئے اپنے آپ کو پابند عہد کیا ہے کہ وہ" تعصب، باہمی امتیاز یا تشدد کو فروغ دینے والی اندھی قوم پرستی ، نسلی اور مذہبی منافرت پھیلانے والے اقدامات" پر قانون کے تحت پابندی عائد کریں گے۔لیکن یہ تمام قوانین اور عہد بندی وعدے وعید سے آگے نہیں بڑھ سکے۔ اکبرالدین اویسی کے معاملے میں کارروائی کرکے انہیں فوراً جیل بھیج دیا گیا تھالیکن پروین توگڑیا کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی تھی۔ شیو سینا اور مہاراشٹر نونرمان سینا آئے دن مسلمانوں اور بہار اور یوپی والوں کے خلاف نسلی تعصب کی بات کرتی رہتی ہے لیکن آج تک ان کے کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ راجستھان کی وزیر اعلی وسندھراراجے نے عمران مسعود کے مبینہ بیان پر دھمکی دیتے ہوئے کہا تھاکہ الیکشن کے بعد پتہ چلے گا کہ کون کٹے گا اور کس کو کاٹا جائے گا۔ اس بیان کے خلاف الیکشن کمیشن میں شکایت بھی کی گئی تھی لیکن الیکشن کمیشن نے ان کے خلاف اب تک کوئی کارروائی نہیں کی۔
قدرتی طور پر سوال یہ اٹھتا ہے کہ قانون کے اتنے سارے پرالتزامات کے باوجود یہاں تک کہ سپریم کورٹ کی طرف سے اس معاملے میں جاری ہدایات کے باوجود آخر نفرت پھیلانے والے بیان پر کارروائی کیوں نہیں کی جاری ہیں؟ اگر ان لوگوں کے خلاف کارروائی کی جاتی تو نہ تو امیت شاہ پیداہوتے اور نہ ہی ورون گاندھی۔ اسی کے ساتھ بی جے پی کے لیڈروں کی یہ بدتمیزی اس بات کااشارہ ہے کہ میڈیا نے ان کے لئے جو لہر پیدا کی ہے وہ صرف مصنوعی ہے اور اس غبارے سے ہوا نکل رہی ہے۔ ہندوستان کے عوام اور بالخصوص مسلمان ہمیشہ کی طرح سیکولرزم کی لاج بچائی ہے اس الیکشن میں بھی وہ سیکولرزم کے اعلی اقدار کی حفاظت کے لئے آگے آگئے ہیں۔ بہار کے سابق وزیر گری را ج سنگھ اور اجستھان کی وزیر اعلی وسندھرا راجے کے بیانات کا گہرائی سے جائز لیں تو یہ بات سمجھ میںآتی ہے کہ یہ لوگ مایوس ہیں اور مایوسی کے عالم میں وہ اس طرح کے دل آزار بیانات دے رے ہیں جس کی پوزیشن مستحکم ہوتی ہے وہ اس طرح کے اشتعال انگیز کا سہارا کبھی نہیں لیتے۔ بی جے پی نے اس بار اپنا ایجنڈہ ترقی کو بنایا تھا لیکن وہ الیکشن کی تاریخ قریب آتے آتے اس میں رام مندر اور دفعہ 370اور یکساں سول کوڈ کو شامل کرلیا۔ویسے بی جے پی کی تاریخ رہی ہے وہ کبھی بھی ایک خاص موضوع پر انتخاب نہیں لڑی ہے اور وقت اور حالات کے ساتھ اس نے نہ صرف اس نے اپنے نظریہ کو تبدیل کیا ہے بلکہ موضوع اور موقف بھی تبدیل کیا ہے۔اب اس کی ساری توجہ اشتعال انگیزی اور بدتمیزی تک محدود ہوگئی ہے۔
***
abidanwaruni[@]gmail.com
موبائل : 9810372335
ڈی۔64، فلیٹ نمبر۔ 10 ،ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔ 25
abidanwaruni[@]gmail.com
موبائل : 9810372335
ڈی۔64، فلیٹ نمبر۔ 10 ،ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔ 25
عابد انور |
Favouring Amit Shah, the double standard of EC. Article: Abid Anwar
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں