حیدرآباد اگر فرشتوں کا شہر ہوتا تو شاید اس کی کوئی آپ بیتی بھی نہ ہوتی ۔ بھلا جہاں تموج نہ ہو ، ہلچل نہ ہو ، جنھیں پہلے پہل دل کے دھڑکنے کی صدا یاد نہ ہو ان کے کوائف کیا اور ان کی آپ بیتی کیا ۔ صحرا کی خاموشی ، دریا کی روانی ، سمندروں کی گہرائی ، بکھری ہوئی کہکشاں کا حسن ، قوس قزح کے رنگ ، نسیم سحر کی سبک خرامی ، نکہت باد بہاری ، کلی کی خاموشی کا تکلم ، گلوں کی مہک کے ساتھ کانٹے کی کسک، حسن و عشق کا ملن ، رقابت کی جلن، زمانے کا چلن ، قدرت کے ان دیکھے ہاتھوں سے اس پوری کائنات کواگر کہیں پوشیدہ رکھ دیا تھا تو وہ حیدرآباد تھا ۔ خبر نہیں کہ یہ کوئی دیومالائی کہانی ہے یا الف لیلوی داستان ، سنتے ہیں کہ اس شہر پرُفسوں میں کوئی شہزادی ہوا کرتی تھی ۔ نہ ہوئے ، باغ و بہار اور فسانۂ عجائب کے لکھنے والے کہ اس شہزادی کی سراپا نگاری کرتے تو ان گنت رنگ ، راگ ، راگنیاں حصار باندھے ہوتیں ۔ میں ٹھہرا زبان کا پھوہڑ مجھ سے تو نہ زلف کا سنورنا لکھا جائے ہے نہ لٹ کا الجھنا ۔ نہ جوڑے کا کھلنا نہ ریشم کے ڈھیر کا ہالہ کرنا ، جیسے گھٹاؤں کے بیچ یکایک چاند کا روشن ہوجانا ۔ نہ ابروؤں کی کٹیلی کمانوں کا تناؤ نہ ناوک فگنی کا انداز ، نہ کچے دودھ میں گھلے سیندور جیسی رنگت کی تشبیہ ، نہ یاقوتی ہونٹوں کی تراش ، نہ عقیق یمن جیسی سرخیِ لب اور نہ اس کے پروے میں عدن کی موتیوں جیسی لڑیاں کہ کبھی کھل کھلا کر ہنس پڑے تو جھرنوں کا ترنم خاموش ہوجائے کہ راگنی کا بہاو خیال کے نازک پیرہن میں بے چین نہ ہو۔ خوشبو ، رنگ گلاب اور مرمر کے تناسب کی مجھے کب خبر ہے کہ پھول سی بانہوں کا تذکرہ ہو ۔ کچھ یاد سا پڑتا ہے کہ لڑکپن اور جوانی کے جھٹپٹے کے بیچ آخر شب اور صبح کے اجالے کی آمد کے درمیان کسی نے چپکے سے جگادیا تھا ۔ کوئی تھا تو نہیں لیکن ایک ہلکی سی خوشبو جسے ہوا چرا نہ سکی ، وجود میں محسوس ہورہی تھی ۔ دل نے کہا شمیمِ پیرہنِ یار۔
دروغ برگردن راوی حسب روایت ایک شہزادہ جو مالک ہفت اقلیم تھا ، بہادری اور جوانمردی کا جس کے شہرہ چار دانگ عالم میں تھا ۔ شوق شکار میں نکلا ۔ پانی ختم ہوچکا تھا ۔ تلاش میں سرگرداں تھا کہ سامنے جسن مجسم کو دیکھ کر پیاس بھلا بیٹھا ۔ چاہ سامنے ہو تو پیاس یوں ہی مٹ جاتی ہے ۔ کسی کو پانے کی جستجو میں پانی کی حقیقت کیا ہے ۔ شہزادی کو دیکھا ۔ بس دیکھا کیا ، حسن مکمل روبرو ہو تو عشق کو چپ لگ جاتی ہے ۔ حسن کی پلکیں بوجھل بوجھل ہو کر جھک جائیں تو اسی کو نظروں میں سمیٹ لینا کہتے ہیں ۔ وہ مڑی ، بادصبا ادب سے پیچھے پیچھے چلی ۔ جاتے جاتے رکی ، مڑکر پھر سے شہزادے کو مبہوت دیکھ کر ہلکے سے مسکرائی پھر غائب ہوگئی ۔ کوئی کہتا ہے یہ ملن بس لمحے بھر کا تھا ، کوئی کہتا ہے وصل کا تو لمحہ ہی ایک ہوتا ہے اور صدیوں پر بھاری ہوتا ہے ۔ صدیوں تڑپاتا ہے ۔ حسن اور عشق کا ملن ہو اور رقابت کی جلن نہ ہو تو پھر داستان میں کیا رہ جاتا ہے ۔ سنتے ہیں شہزادی کو کسی طلسم کدے میں قید کرکے اس کی آنکھوں میں سوئیاں چبھودی گئی تھیں ۔ امبربیل کے اس گھنے جنگل میں شہزادی کو پانے کی شرط ہی یہ تھی کہ شہزادہ اپنی تلوار سے ساری مزاحمتوں کو ہٹا کر ۔ امبر بیل کے حصار کو کاٹ کر ۔ شہزادی کی آنکھوں کی سوئیاں نکال دے تو شہزادی آزاد ہو کر اس کی بانہوں میں سماجائے گی ۔
شہزادے نے محافظؤں سے بڑی خون ریز جنگ کی ۔ پہرہ داروں کو قتل کیا ۔ خاردار راہوں میں پیر زخمی بھی ہوئے ۔ امر بیلوں کو کاٹ کر راستہ بنانے میں کبھی بازو شل بھی ہوجاتے تھے لیکن پانے کی جستجو کبھی تھکنے نہیں دیتی ۔ جب آخری امبربیل کو کاٹ کر اس نے طلسم کدے کا دروازہ کھولا تو شہزادی کو کھڑی پاکر وہ بے ساختہ اسکی آنکھوں سے سوئیاں نکال پھینکنے کے لئے آگے بڑھا ۔ لیکن سوئیاں تو کب کی زنگ آلود ہوچکی تھیں ۔ شہزادی تو جی سے گذر گئی لیکن کھلی آنکھوں میں انتظار چھوڑ گئی ۔ اس کے بعد شہزادے پر کیا گذری اس بیان اور شرح بیان کی ضرورت کب باقی رہ جاتی ہے ۔
راوی بیان کرتا ہے اس حیدرآبادی شہزادی کا نام "تہذیب" تھا اور شہزادہ "تمدن" تھا ۔ آپ کو شاید یہ خیال گذرے کہ میں میر محبوب علی خاں کے دور سے سن 1948 تک اور 1948 سے 2014 تک کی تاریخ کا تذکرہ کررہا ہوں ۔ میں تو صرف یہ کہہ رہا تھا کہ وہ ابدی نیند ہمارے مقدر میں کہاں ۔ ہم جنھیں رسم وفا یاد نہیں ، ہم جنھیں حرف دعا یاد نہیں ۔
حیدرآباد میں معیار معاشرت الگ الگ تھے ، امیری اور غریبی کا تو چولی دامن کا ساتھ ہے لیکن تہذیب ہر طبقے میں قدر مشترک تھی ۔ محلوں اور محل سراؤں کا تو پوچھنا کیا ۔ حاجب ، خدمتگار ، فراش ، جاروب کش ، حقہ بردار ، سائس ، کوچوان ، چوبدار ، رکاب دار ، عصا بردار ، مالی ، مالن ، کاماٹی ، کاماٹن ، ماما ، مغلانی ، اصیل کنیز ، لونڈی ، باندی ، جسولیناں ، قلماقنیاں ، خاکروب ، حقہ بردار ، سقہ ، جسے بہشتی بھی کہا جاتا تھا ، تو ہمہ وقتی دیوڑھیوں کے ملازم تھے ۔ شرفاء کے گھر اتنے ملازم نہ سہی لیکن طرز بود و باش میں سلیقہ وہی تھا ۔ اور تو اور غریب بھی کسی سے پیچھے نہ تھے ۔ وہاں دالان ، پیش دالان اور بچھے ہوئے تخت ، قالین کا فرش ، سفید دو گھوڑے کی بوسکی کی ملائم چاندنی ، پختہ چھت ، چھت سے آویزاں فانوس اور فرشی جھاڑ تو یہاں لال مٹی کے لیپے ہوئے دالان میں شطرنجی اور چہلواری کی چاندنی کا فرش ، دیوار سے گاؤ تکیہ اور پاندان تو تمام طبقوں میں مشترک تھے ۔ امراء اور رئیسوں کی بیگمات کے وقار اور مرتبہ کا اندازہ صرف ان کے پاندان سے لگایا جاتا تھا ۔ امراء کے گھروں میں ڈہائی سیری کریم نگر کی مھین جالی کے دو منزلہ پاندان ، بالائی منزل میں مھین تراشی ہوئی چھالیہ کی پرتیں ، کچھ مشک ، کچھ زعفران اور کچھ عنبر میں بسائی ہوئی سونے اور چاندی کے ورق میں لپٹی ہوئی ۔ الائچی ، لونگ ، جوز ، جوتری ، زغفران ، سونف ، تراشا ہوا کھوپرا ، حسب ذوق زردہ و قوام ، بریلی کا کتھا اور کانپوری کتھے کی بڑی اور پپڑی اور چونا خالص عرق گلاب میں بجھایا ہوا اور مھیں ململ سے چھانا ہوا ۔ پان بنانے کے انداز میں بھی ایک خاص سلیقہ ہوا کرتا تھا ۔ زانو پر بچھی ہوئی سرخ صافی ، خاصدان سے کلی دار پان کو چن کر پہلے باریک قینچی سے یوں تراش لیا جاتا تھا کہ کنارے یکساں ہو جائیں یہی تراش تو بیگم صاحبہ کی خاص ہنرمندی تھی جو ان کی مہارت کا ثبوت تھی ۔ پھر پان کی نس علحدہ کرلی جاتی اور پان پر پان جوڑ کر حسب موسم سلائی سے چونا لگایا جاتا تھا کہ جاڑوں میں زعفران اور گرما میں گلاب یا کیوڑے میں کھلی کلی کا چونا ہو ۔ بعض گھرانوں میں خشک کتھا اور بعض میں شیر بادام میں پکایا ہوا کتھا استعمال ہوتا تھا ۔ چھالیہ ، چکنی ، سپاری ، نرملی ، جوز ، جوتری ، الائچی اور جو پسندیدہ ہو تو گلقند کے اضافہ بعد گلوری کو موڑ کر چاندی لپٹا لونگ ٹانک دیا جاتا تھا اور اس پر حسب مراتب چاندی یا سونے کا ورق لپیٹ کر چاندی کی طشتری میں سرخ مخمل اور اسپر گلوری رکھ کر پیش کی جاتی تھح۔ قبول کرنے والال سروقد اٹھ کر تعظیم بجا لاتا اور پان قبول کرکے سلام کے عوض ڈھیروں دعاؤں کی سوغات بھی پاتا تھا ۔ ادھر اگالدان ابھی استعمال ہوا ہی تھا کہ کنیز نے فوراً اگالدان بدل دیا ۔ اگالدان بھی پاندان ہی کی طرح مرصع ہوا کرتے تھے ۔ سقوط حیدرآباد کے بعد جب پڑوسی درآئے تو وہ اگالدان کے استعمال سے ناآشنا تھے ۔ دفاتر معتمدی جسے آج سکریٹریٹ کہا جاتا ہے ۔ عدالت العالیہ جیسے ہائیکورٹ کہتے ہیں وہاں ہر اجلاس پر اگالدان ہوا کرتے تھے ۔ ایسے میں نئے عہدیداروں نے اگالدانوں کا بطور گلدان استعمال کیا ۔ عدالت میں چونکہ جج کی کرسی اونچی ہوا کرتی تھی اس لئے اس کے پہلو میں اگالدان بھی اونچے تھے ۔ یہی اگالدان بعض عہدیداروں کے دیوان خانوں میں استقبالیہ گلدان کی صورت خوب سجائے گئے ۔
پان اور پاندان حیدرآبادی تہذیب کا ایک اہم باب ہے ۔ کوئی مہمان جب گھر آئے تو اسکی تواضع استقبالیہ پان اور عطر سے کی جاتی تھی ۔ حسب موقع تواضع کے بعد بوقت رخصت بھی پان پیش کیا جاتا اور ساتھ میں عطر کی سوغات بھی دی جاتی تھی ۔ بیگم صاحبہ کے دو منزلہ پاندان کی بالائی کشتی کے نیچے ایک اور منزل ہوا کرتی تھی جس کے مختلف خانوں میں چاندی کے مختلف سکے اور ایک خانہ میں چھوٹی اشرفیاں بھی ہوا کرتی تھیں ۔ ان کے درمیان بیگم صاحبہ اپنی پسندیدہ انگشتریاں بھی رکھ چھوڑا کرتیں کہ دن ، تاریخ یا لباس کی مناسبت سے بدل سکیں ۔ عزیز رشتے داروں میں کوئی مہمان آتا اور لڑکیاں بالیاں بیگم صاحبہ کے سلام کو حاضر ہوتیں تو سلام ، آداب ، تسلیم ، بندگی کے عوض دعاؤں کی سوغات تو ہوتی ہی تھی ۔ لیکن مٹھی بھر سکے نکال کر مغلانی کو آواز بھی دیدیا کرتی تھیں اور ساتھ ہی یہ بھی کہ لو ان بچوں کا صدقہ ہے ۔ فقیروں ناداروں میں خیرات کروادینا ۔
نواب وقار الامراء ، خورشید جاہ ، آسمان جاہ کی بیگمات کے پاندان کا تو تذکرہ کیا ہے ۔ لیکن جب چوکڑے اور بگھیاں نہ ہوا کرتی تھیں بلکہ سواریوں میں پالکی کا استعمال ہوتا تھا اس دور کبھی بیگم صاحبہ خاندان میں کہیں مہمان تشریف لے جایا کرتیں تو ایک پالکی میں خود بدولت اور دوسری پالکی میں کنیز بیگم صاحبہ کا پاندان لئے ساتھ ہوتی تھیں ۔ دونوں پالکیوں کا احترام کیا جاتا تھا کہ پاندان بھی تو بیگم صاحبہ کا تھا ۔ کسی بیگم کے مرتبے کا اندازہ ان کے پاندان کے خرچ سے کیا جاتا تھا ۔ جتنے بڑے رئیس کی بیگم ہوں اتنا ہی ان کے پاندان کا خرچ بھی ہوا کرتا تھا ۔
شام کے خاصہ کے بعد بیگم صاحبہ کے ہاتھ کا پان نہ ہوا تو سمجھ لیجئے کہ صاحب کی زندگی میں کوئی کمی ہوگئی ۔ بھلے ہی زندگی میں سر پر ڈوپٹے کا فیروزی آنچل ڈالے ، کھلتے ہوئے شہابی رنگ ، ناز وادا سے اٹھلا کر روبرو بیٹھے کتنی ہی نازک انگلیوں نے پان پیش کئے ہوں گے اور انعام بھی پائے ہوں گے لیکن باہر کی موج اور ہے بیگم کی نوج اور ۔ کبھی یوں بھی ہوا کہ سہ پہر کے بعد بیگم صاحبہ غسل فرما کر حمام سے برآمد ہوا کرتیں۔ بانس کی ٹوکری کے نیچے انگاروں پر عود و اگر کے دھوئیں سے بالوں کو خشک کرکے اپنی الماری سے "باسی دلہن" عطر کا پھایہ انگوٹھی کے نیچے دبائے پان بنا کر چاندی کی مرصع ڈبیہ میں کنیز کے ذریعہ مردانہ میں نواب صاحب تک پان بھجوادیا کرتی تھیں تو منہ چڑھی کنیز واپس آکر نواب صاحب کی کھینچ کر رکی ہوئی سانس اور ہونٹوں پہ ہلکے سے تبسم کا تذکرہ بیگم صاحبہ سے الفاظ میں تھوڑی ادا کرتی تھی بس زیرلب تبسم ہوا کرتا تھا ۔ تب بیگم صاحبہ مغلانی کو آواز دے کر کہتی تھیں "اے بوا انگیٹھی کا انتظام کرو ، بہت دن ہوگئے نواب صاحب نے میرے ہاتھ کے سفید قورمہ کی فرمائش کی تھی" ۔ مغلانی بھی کئی برساتیں دیکھ چکی ہوتی تھی ۔ مسکراکر "جی ابھی" کہہ کر سارا انتظام فوراً کردیا کرتی تھی ۔ مزاج شناس اور تبسم شناسی میں یہی تو ربط باہم ہے ۔
دور گذر گئے زمانے گذر گئے اس دور میں بیٹے جوان تو کجا شادی شدہ بھی ہوجاتے بلکہ کئی بچوں کے باپ بھی ہوجاتے تو مجال نہ تھی کہ بزرگوں کے آگے پان کھائے منہ لال کئے چلے آئیں ۔ یہ تو سب ہم عمر اور ہم مرتبہ لوگوں کے درمیان کے شوق تھے ۔ دادا کے آگے پوتے جوان ہوجاتے لیکن بیٹا باپ سے نظریں ملا کر بات نہیں کیا کرتا تھا بلکہ ماں باپ کے آگے ہمیشہ نظریں جھکی ہوتی تھیں ۔
ہر سواری پر پردہ عام تھا ۔ پاندان عام تھے ۔ بزرگوں کا احترام عام تھا ۔ وسیع اور عریض صحن عام تھے ۔ دالان ، پیش دالان ، دیوان خانوں کی تہذیب منفرد تھی ۔
آج معلوم نہیں خدا کی زمین تنگ پڑگئی ہے یا ہمہ منزل عمارتوں کی بلندی پر پہنچ کر انسان خدا بلند کہلانا چاہتا ہے ۔ صرف عمارتیں بلند ہوتی جارہی ہیں ۔ انسان کے قد کا مجھے پتہ نہیں ۔ لیکن سنتا ہوں کہ آج کل ماں باپ کی گھروں میں جگہ نہیں ۔ ماں کسی بیٹے کے گھر ہوتی ہے تو باپ کسی بیٹے کے گھر ۔ جس بیٹے کے گھر ماں ہوتی ہے وہاں ملازمہ برخواست کردی جاتی ہے ۔ جس بیٹے کے گھر باپ ہوتا ہے وہاں بچوں کو اسکول لے جانے والا اور بازار سے سودا سلف لانے والا نوکر نکال دیا جاتا ہے ۔ آج کے دور کی تہذیب یہی ہے ۔ آج اسی کو تمدن کہتے ہیں۔ پادری چرچ کو بلارہا ہے ۔ مبلغ دعوت تبلیغ دے رہا ہے ۔ ناصح نصیحتوں میں مصروف ہے ۔ ہمارے تو اب دعا کیلئے ہاتھ بھی نہیں اٹھتے ۔
ہم جنھیں رسم وفا یاد نہیں
ہم جنھیں حرف دعا یاد نہیں
***
afarruq[@]gmail.com
18-8-450/4, SILVER OAK, EDI BAZAR,NEAR SRAVANI HOSPITAL, HYDERABAD- 500023
Mob.: +919848080612
afarruq[@]gmail.com
18-8-450/4, SILVER OAK, EDI BAZAR,NEAR SRAVANI HOSPITAL, HYDERABAD- 500023
Mob.: +919848080612
علامہ اعجاز فرخ |
The culture & memories of Hyderabad Deccan. Article: Aijaz Farruq
صاحب کو لفظوں کو برتنے کا ھنر حاصل ھے ایسا لگتا ھے کہ الفاظ علامہ محترم کے آگے ھاتھ باندھ کر کھڑے ھوتے ھیں اور انہیں برتنے کی استدعا کرتے ہیں ۔۔
جواب دیںحذف کریںمضمون کے آخری پیراگراف ہر حساس دل والے کی آنکھ نم ھوجاتی ھے۔۔ اللہ ایسے والدین کو صبر دے ۔۔۔آمین ' تعمیر ' میں مزید چار چاند لگ گئے علامہ کے مضامین کی اشاعت کا سلسلہ جاری رکھئیے ۔۔۔۔۔
آپ نے بالکل درست کہا۔
حذف کریںمیں خود برسوں سے علامہ کو پڑھ رہا ہوں۔ یقیناً ایسا لگتا ہے کہ ۔۔۔ الفاظ علامہ محترم کے آگے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوتے ہیں اور انہیں برتنے کی استدعا کرتے ہیں ۔۔