مسٹر وزیر اعظم ! فحاشی کا یہ طوفان کب تھمے گا؟ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-04-06

مسٹر وزیر اعظم ! فحاشی کا یہ طوفان کب تھمے گا؟

خوش آئند بات یہ ہے کہ ان دنوں ملک میں انٹرنیٹ پر فحش ویب سائٹس کی ترسیل پر روک لگانے کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے ، اور یہ مہم اب فیصلہ کن مر حلے میں داخل ہو چکی ہے نیز سپریم کورٹ کا رخ بھی اس معاملے میں سخت تر ہو گیا ہے ، سپریم کورٹ نے یکم اپریل2014 کو جاری اپنے ایک حکم نامے میں فحش ویب سائٹس پر پابندی لگانے کا مطالبہ کرنے والی مفاد عامہ کی ایک عرضی کی سماعت کرتے ہوئے مرکزی سرکار کو نوٹس جاری کیا ہے۔ عرضی گزار ایڈوکیٹ کمل واسوانی نے عدالت سے فحش ویب سائٹس پر مکمل پابندی لگانے مطالبہ کرتے ہوئے فحش ویب سائٹس کو سماج میں بڑھتے جرائم کی بنیادی وجہ قرار دیا ہے اور اسے خواتین اور بچوں کے ساتھ پیش آ نے والے جرائم کے واقعات کی جڑ بتایا ہے۔ جسٹس بی ایس چوہان اور جسٹس جے چیلامیشور کی بنچ نے معاملے کی شنوائی کرتے ہوئے اس پورے معاملے پر مرکز سے جواب طلب کیا ہے۔ عرضی گزار نے اپنی دلیل میں کورٹ کے سامنے ایک جائزہ پیش کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ خواتین اور بچوں کے ساتھ تیزی سے پیش آنے والے واقعات کے ملزمین نے پولیس کے سامنے اقبال جرم کرتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ جرم کے ارتکاب سے قبل انہوں نے فحش ویڈیوز اور ویب سائٹس کا استعمال کیا تھا اب ریسرچ سے یہ بات منے آئی ہے کہ انٹر نیٹ پرآسانی سے دستیاب یہ مواد نوجوان نسل کو جنسی جرائم کے دلدل میں دھکیل رہا ہے۔ کمل واسوانی کو یہ عرضی داخل کیے ایک برس ہو چکے ہیں ، پہلی بار اپریل 2013 میں انہوں نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ سپریم کورٹ نے ان کی عرضی کی سماعت کرتے ہوئے یہ دوسری بار حکومت سے جواب طلب کیا ہے۔
خیال رہے کہ یہ اپنی نوعیت کی واحد پٹیشن نہیں ہے بلکہ اس سے قبل اور بعد میں بھی اس برائی کے ازالے کیلئے مفاد عامہ کی ایسی عرضیاں داخل ہوتی رہی ہیں۔ کمل واسوانی کے علاوہ عرضی گزار جین چریا وجے اورر تن سندر سرجی سمیت دیگر تین افراد نے بھی مطالبہ کیا تھا کہ انٹرنیٹ پر فحش مواد پر روک لگانے کے لئے آئی ٹی قانون میں ضروری ترمیمات کی جائیں۔ پٹیشن داخل کرنے والوں نے تشویش کااظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملک کی دو تہائی آبادی 35 برس کی عمروالوں کی ہے، یہی لوگ ملک کے روشن مستقبل ہیں جنہیں انٹرنیٹ پر جاری فحاشی کے ذریعے تباہ و برباد کیا جارہا ہے۔ ان کے اخلاق وکردار اور فکر کو بری طرح مسخ کیا جارہا ہے۔ لہٰذا ملک میں فحاشی کے کلچر پر روک لگانے کے اقدامات کئے جائیں۔
لہذا ان عرضیوں کا نوٹس لیتے ہوئے مفادعامہ کی عرضیوں پر غوروخوض کرنے والی راجیہ سبھا کی کمیٹی کے چیئرمین بھگت سنگھ کوشیاری نے انٹرنیٹ پر جاری فحش تصاویر اور ویڈیوز کی اشاعت پر روک لگانے کے طور طریقوں پر ملک کے باشعور حلقوں سے تجاویز اور مشورے طلب کیا۔ جس پر جماعت اسلامی ہند سمیت ملک کی کئی مذہبی و سماجی تنظیموں نے بڑے پیمانے پر دستخطی مہم چلا کرایک سروے فارم کے ذریعہ کمیٹی تک پہونچانے کا کام کیا تھا۔ لیکن پابندی عاید کرنے کا عمل فی الحال کس مرحلے میں ہے یہ اب تک معلوم نہیں ہو سکا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ اسی طرح کی ایک کوشش ممبئی کے شہر کارپوریشن کی اہم رکن ریتوتاوڑے بھی کر چکی ہیں اور ممبئی شہر کارپوریشن نے ان کی اس تجویز کو16 مئی 2013کو اکثریت سے منظور بھی کرلیا تھا۔ محترمہ تاوڑے نے اپنی تجویز میں یہ مطالبہ کیا تھا کہ کپڑوں کے شو روم میں لکڑی یا پلاسٹک کے پتلوں میں بکنی کی نمائش پر پابندی لگائی جائے کیونکہ ایسے کپڑوں کی نمائش سے نوجوان نسل کے ذہن پراگندہ ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں جنسی جرائم میں اضافہ ہوتا ہے۔ لیکن افسوس ناک امر یہ ہے کہ اس تجویز کی فوری مخالفت مہاراشٹرکی خاتون جرنلسٹ پرتیش نندی نے ہی شروع کر دی ۔جبکہ کارپوریشن کے چیئرمین سنیل پربھو نے ریتو تاوڑے کے موقف کی تائید کرتے ہوئے ممبئی میونسپل کارپوریشن کو کارروائی حکم دیا تھا۔ اب اِس تجویز کو پاس ہوئے کئی ماہ گزر چکے ہیں، کارروائی کے اثرات کیا ہوئے ہیں اس کا اندازہ ابھی تک نہیں ہوسکا ہے۔
افسوس ناک امر یہ ہے کہ پرتیش نندی کو جواب دیتے ہوئے ایک دوسری خاتون جرنلسٹ ویشنا رائے نے سخت رخ اپناتے ہوئے کہا کہ آزادی کی کوئی حد ضرور ہونی چاہئے اور پر زور مطالبہ کیا کہ نئی نسل کو تباہی سے بچانے کے لئے ایسے مناظر کو دیکھنے اور اسے اپ لوڈ کرنے پر مکمل پابندی عائد ہونی چاہیے۔ لیکن حیرانی کی بات یہ ہے کہ یکم اپریل کو سپریم کورٹ کی جانب سے جاری اس نوٹس پر ہر خبر پر نظر رکھنے کا دعویٰ کر نے والے کارپو ریٹ میڈیا کی نظر اس خبر پر نہیں پڑی جبکہ کم و بیش سبھی میڈیا ادارں کے لیگل رپورٹر سپریم کورٹ کے احاطے میں موجود ہوتے ہیں لیکن اس خبر کو کوئی اہمیت نہیں دی گئی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ کمل واسوانی اور ان جیسے دوسرے لوگ جو اس برائی کے خاتمے کے لیے کوشاں ہیں ان کی حوصلہ افزائی اور ہر ممکن تعاون دینے کی ضرورت ہے۔ یہ کام صرف کمل واسوانی ، جین چریا وجے ،رتن سندر سرجی ، ریتو تاوڑے اور ویشنا رائے کا ہی نہیں ہے عرضی گزاروں کی فہرست جتنی طویل ہوگی مثبت نتائج کی امید مضبوط ہو گی کیونکہ جمہوریت میں اکڑیت کی رائے کے پیش نظر فیصلے لیے جاتے ہیں۔

***
ashrafbastavi[@]gmail.com
موبائل : 09891568632
ڈی 314 ، ابوالفضل انکلیو ، جامعہ نگر ، نئی دہلی - 110025
اشرف علی بستوی

The issue of blocking porn websites. Article: Ashraf Ali Bastavi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں