بی جے پی کا ہندو توا ایجنڈا - تمام سیاسی جماعتوں کا ردعمل - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-04-08

بی جے پی کا ہندو توا ایجنڈا - تمام سیاسی جماعتوں کا ردعمل

کانگریس نے بی جے پی کے انتخابی منشور پر تبصرہ کرتے ہوئے کہاکہ اقلیتوں کیلئے بی جے پی کے فلاحی پروگرام ایسے ہیں جیسے کسی آدم خود کو بلڈ بینک کا نگران بنایاجائے۔ بی جے پی ایک طرف مسلمانوں سے انتقام لینے اور انہیں سبق سکھانے کی باتیں کررہی ہیں اور دوسری طرف انہیں بہت خوشنما اور دل لبھانے والے فلاحی پروگرام کا پیشکش کررہی ہے۔ یہ پارٹی کی کھلی منافقت ہے۔ کانگریس ترجمان ابھیشک سنگھ سنگھوی نے کہاکہ انتخابی منشور میں بی جے پی مسلمانوں کی زبوں حالی پر مگر مچھ کی طرح آنسو بہائے ہیں۔ واضح رہے کہ نریندر مودی کے خلاف کانگریس لیڈر رکیک ریمارک کرتے رہے ہیں۔ سونیا گاندھی نے انہیں موت کا سوداگر قرار دیاتھا۔ راشد علوی نے مودی کو یمراج بتایا۔ سلمان خورشید نے مودی کو نامرد قرار دیا۔ اب انہیں غنڈہ اور لفنگا قرا ردیا جارہا ہے۔ منشور میں بی جے پی مسلمانوں کی حالات کو بہتر بنانے کیلئے کئی وعدے کئے ہیں۔ ان وعدوں کو مسترد کرتے ہوئے کانگریس ترجمان نے کہاکہ بی جے پی کی عیاری اور مکاری گجرات میں اس وقت بے نقاب ہوگئی جب کہ مرکزی حکومت کی جانب سے مسلمانوں کی فلاح و بہبود کیلئے جاری کردہ فنڈ روک دیا گیا۔ بی جے پی نے جہاں یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ مسلمانوں کیلئے پرامن ماحول پیدا کرے گی۔ یعنی فساد ہونے نہیں دے گی، دوسری طرف اس نے یہ بھی وضاحت کی کہ داخلی سکیورٹی پر صفر برداشت کی پالیسی اختیا ر کی جائے گی۔ کانگریس کے جنرل سکریٹری شکیل احمد کو یاد دلایا کہ وہ امیت شاہ کے بیان پر خاموش کیوں نہیں جو مسلمانوں سے بدلہ لینے کی بات کررہے ہیں۔ اس طرح بی جے پی کے قول و فعل میں بہت بڑا تضاد ہے۔ اس پارٹی پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔ تھرسول سے پی ٹی آئی کی ایک علیحدہ اطلاع کے بموجب کانگریس کی صدر سونیا گاندھی نے بی جے پی کے منشور میں متنازعہ ہندوتوا ایجنڈہ کی شمولیت کی مذمت کرتے ہوئے کہاکہ یہ فرقہ وارانہ ایجنڈا ملک کے اتحاد اور سالمیت کیلئے بہت بڑا خطرہ بن گیا ہے۔ کانگریس ہی وہ واحد جماعت ہے جو ہندوستان کا شیرازہ بکھرنے سے روک سکتی ہے اور قوم کو متحد رکھ سکتی ہے۔ انہوں نے اپوزیشن جماعت پر الزام عائد کرتے ہوئے ملک کی بدخدمت کررہے ہیں اور اس طرح قومی مفادات کو نقصان پہنچارہے ہیں۔ انہوں نے بی جے پی اور اپوزیشن سے سوال کیا کہ انہوں نے غیر کانگریسی جماعتوں کی زیر حکمرانی ریاستوں میں کیا تبدیلیاں کیں اور کیا ترقی ہوئی؟ پی ٹی آئی کی ایک دوسری اطلاع کے مطابق کانگریس کے سینئر لیڈر جئے رام رامیش نے کہاکہ دراصل نریندر مودی کو وزیراعظم بناتے ہوئے آر ایس ایس عملاً اقتدار حاصل کرنے کی کوشش میں ہے۔ ایک ثقافتی تنظیم ہونے کا اس کا دعویٰ بے بنیاد ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آر ایس ایس پوری طرح سے سیاسی تنظیم ہے۔ مودی کو کامیاب بنانے کیلئے آر ایس ایس ووٹروں کو مذہبی خطوط پر تقسیم کررہی ہے۔ گجرات کے بعد مظفر نگر میں فسادکا دوسرا تجربہ تھا۔ یہ محض فلم کی تمہیدہے حقیقی فلم انتخابات کے بعد شروع ہوجائے گی۔ بنارس سے نریندر مودی کو امیدوار بنایاجانا بے معنی نہیں ہے ،بلکہ اس کے دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ آر ایس ایس کے کارکن کھلے عام ہندوتوا کا پرچار کررہے ہیں۔ آر ایس ایس نے دو رخی حکمت عملی اختیار کی ہیل ایک طرف نریندر مودی کونمایاں کرتے ہوئے ان کے نام پر ووٹ مانگ رہی ہے۔ دوسری طرف مذہبی خطوط پر ووٹروں کو منقسم کیا جارہا ہے۔ اس کی مثال مظفر نگر میں دیکھی گئی۔ دراصل فساد کا مقصد یہی تھا کہ ہندو اور مسلمانوں کو منقسم کیا جائے۔ جئے رام رمیش نے مزید بتایاکہ اترپردیش اوربہار میں خاص طورپر ووٹروں کی تقسیم کرنے کی مہم جنگی خطوط پر جاری ہے۔ آر ایس ایس پوری طرح سے بے نقاب ہوگئی ہے اور اب اس تنظیم کو اپنا نقلی نقاب ہٹادینا چاہئے۔ نئی دہلی سے آئی اے این ایس کی ایک علیحدہ اطلاع کے بموجب کل ہند مجلس مشاورت کے صدر ظفر الاسلام خان نے بی جے پی کے انتخابی منشور میں ہندو ایجنڈہ کے احیاء کی مذمت کرتے ہوئے کہاکہ اس کی فسطائی ذہنیت اُجاگر ہوگئی ہے، لہذا مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ بی جے پی کو ہر قیمت پر شکست دینے کی کوشش کریں۔ اگر سیکولر ووٹ منقسم ہوجاتے ہیں تو ایسی طاقتوں کو اقتدار حاصل ہوگا جو اقلیتوں کو سیاست اور ترقی سے الگ تھلگ رکھنا چاہتے ہیں۔

--

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں