بنگال ماڈل گجرات سے کہیں بہتر - فیس بک پر ممتا بنرجی کی وضاحت - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-04-07

بنگال ماڈل گجرات سے کہیں بہتر - فیس بک پر ممتا بنرجی کی وضاحت

کولکتہ۔
(یو این آئی)
ترنمول کانگریس کی سربراہ اور ریاستی چیف منسٹر ممتا بنرجی نے ہفتہ کو ملک کیلئے آئیڈیل کے طورپر گجرات ماڈل کو غلط ثابت کرنے کیلئے فیس بک میڈیا کا استعمال کیا۔ ایساکرتے ہوئے انہوں نے مالیاتی اور سماجی پہلو اجاگر کئے جہاں بنگال کو گجرات پر سبقت حاصل ہے۔ مغربی بنگال کی چیف منسٹر نے دعویٰ کیا ہے کہ ملک کو چاہئے کہ وہ بنگال ماڈل کو اپنائیں۔ مسٹر بنرجی نے منصوبہ بندی کمیشن کے ڈاٹا کے حق میں ہیں جس میں دکھایا گیا ہے کہ بنگال گجرات سے آئے ہیں۔ شیر خوار بچوں کی اموات کی شرح، ماں کی اموات کی شرح، پہلی تا پانچویں جماعت تک اسکولی تعلیم ترک کرنے کی شرح اور پینے کے پانی تک مکینوں کی رسائی کا تقابل کیا گیا تھا۔ بنگال سماجی شعبہ میں باز ادائیگی کی اصطلاحوں میں بھی گجرات سے آگے ہے۔ ہم نے دیگر اقدامات کے علاوہ ہمارے عوام کو غذا، امکنہ، پینے کے پانی ، تعلیم تک رسائی اور ایک قابل برداشت ہیلت کیر کی فراہمی پر توجہ مرکوز رکھی تھی۔ چنانچہ آپ دیکھ سکتے ہیں ہم وہ دیتے ہیں جس کا ہم وعدہ کرتے ہیں۔ حتی کہ اگر ہم کو غیرمنفعت بخش صورتحال میں رکھا جائے۔ مسز بنرجی نے کہاکہ ہماری حکومت نے گجرات سے زیادہ تیز رفتار مالیاتی ترقی درج کی ہے۔ چیف منسٹر مغربی بنگال نے کہاکہ بنگال میں مالیاتی شرح نمو ایک 31.55فیصد ہے جبکہ گجرات میں یہ 15.77فیصد ہے۔ انہوں نے مالیاتی پریشانی کیلئے سابقہ بائیں بازو حکومت کی جانب سے پیچھے چھوڑے گئے زائد 2لاکھ کروڑ کے قرض کے بوجھ کے ساتھ مئی 2011 میں اپنا سفر شروع کیا تھا۔ اتنی زیادہ مالیاتی مشکلات ایک ریاست کو دیگر کسی ریاست کی بہ نسبت اس کے ترقیاتی ایجنڈہ کو آگے لے جانے کیلئے ایک سنگین تناؤ کے تحت لاتی ہے اور قرض کے بوجھ کی اصطلاحوں میں کوئی یکسانیت نہیں رہتی۔ مسز بنرجی نے یہ بات کہی۔ ایک اور بڑی کامیابی یہ ہے کہ چیف منسٹر نے بنگال ماڈل کو ماؤ نوازوں سے متاثرہ جنگل محل علاقوں اور دارجلنگ کی پہاڑیوں میں امن اور معمول کے حالات کو بحال کیا ہے۔ جنگل محل کو ہماری رسائی کو ملک میں ایک ماڈل کے طورپر قبول کیاگیا ہے۔ مغربی بنگال میں مسلمانوں کی آبادی توقع ہے کہ آئندہ لوک سبھا انتخابات میں سیاسی پارٹیوں کے انجام کا فیصلہ کرنے میں ایک اہم رول ادا کرے گی۔ ریاست میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً 28فیصد ہے اور کہا جارہا ہے کہ مسلمانوں کا منجملہ 42 پارلیمانی حلقوں میں سے کم ازکم 10 حلقوں میں فیصلہ کن موقف ہے۔ علاوہ ازیں وہ انتخابات میں مقابلہ کرنے والے اہم حریفوں میں سے کسی کی تائید میں توازن کو جھکانے کی طاقت رکھتے ہیں۔

--

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں