سنگ و ثمر - ڈاکٹر فضل اللہ مکرم کی پانچویں تصنیف - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-04-19

سنگ و ثمر - ڈاکٹر فضل اللہ مکرم کی پانچویں تصنیف

Sang-o-Samar by Dr.Fazlullah Mukarram
کتاب : سنگ و ثمر
مصنف : ڈاکٹر سید فضل اللہ مکرم
مبصر : ڈاکٹر محمد عبدالعزیز سہیل

ڈاکٹر سید فضل اللہ مکرم صاحب کی شخصیت اردو دنیا میں محتاجِ تعارف نہیں ہے۔خاص کر کے صحافت کے حلقوں میں وہ اپنی انفرادی پہچان رکھتے ہیں۔وہ اورینٹل اردو پی جی کالج حمایت نگر حیدرآباد میں تدریسی خدمات انجام دئے رہے ہیں ۔ اور چیر پرسن بورڈ آف اسٹڈیز اردو اورینٹل عثمانیہ یونیورسٹی بھی ہیں۔ ان کی نگرانی میں کئی طلباء نے اردو میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے۔ جنوبی ہند کے اکثر و بیشتر اردو سمیناروں میں مقالہ پیش کرنے یا بہ طور مہمان مدعو رہتے ہیں اور اردو تحقیق و تنقید کی نئی نسل کی بھر پور نمائیندگی کرتے ہیں۔وہ ایک اچھے استاد اور معروف ادیب بھی ہیں۔ان کے مضامین ،تبصرے ہند وپاک کے مشہور ومعروف اخبارات و رسائل میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔ان کی شخصیت سے میں کم وبیش 10سال سے واقف ہوں۔جس وقت میں حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی کے پوسٹ گریجویشن ڈپلومہ ان ماس کمیونکیشن اینڈ ٹرانسلیشن ٹکنیک ان اردو میں داخلہ لیا تھا وہ بطور اکسپرٹ صحافت کے موضوعات پر لیکچر دینے کے لئے خصوصی طور پر مدعو کیئے جاتے تھے۔ان کے لیکچرکافی معلوماتی اور دلچسپ ہواکرتے تھے۔بہر حال وہ ایک معلم،مربی اور ہمہ گیر صلاحیتوں کے مالک ہیں۔وہ ایک کامیاب قلمکار ہیں۔زبان وبیان پر مکمل عبور اور قدرت رکھتے ہیں انکی تحریروں کا اسلوب آسان اور پر لطف وشگفتہ ہوتا ہے وہ با ت بات میں ایسا جملہ بیان کرجاتے ہیں جس سے قارئین کے چہرے پر لطیف سی مسکراہٹ آجاتی ہے۔حالیہ دنوں ڈاکٹر سید فضل اللہ مکرم کی نئی تصنیف"سنگ و ثمر"منظر عام پر آئی ہے۔ یہ ان کے تنقیدی و تاثراتی مضامین کا مجموعہ ہے ۔یہ ان کی پانچویں تصنیف ہے اس سے قبل ان کی چار تصانیف نظریات،جدید سخنور،جدید نظم اور مضامین نظم ونثر شائع ہوکر مقبول عام ہوچکے ہیں۔زیرِ نظر تصنیف جملہ 24 مضامین پر مشتمل ہے۔جس میں چند شخصیات اور تصانیف کا احاطہ کیا گیاساتھ ہی تنقیدی مضامین اور ٹکنالوجی پرمعلومات فراہم کی گئی ہیں۔جن کے عنوانات ا س طرح ہیں۔"تحقیق سے تنقید تک،تاثراتی تنقید،قطب شاہی عہد میں تلگو زبان وادب کا فروغ،اردو ناول کی ایک صدی،مظہر الزماں خاں۔آخری زمین کا آخری داستان گو،اردو افسانہ اور تہذیبی روایتیں،پریم چندکی افسانہ نگاری،جاسوسی ادب اور ابن صفی،ابن صفی کا ادبی مقام،سعادت حسن منٹو کی یادمیں،یسینٰ احمد کا'سایوں بھرا دالان،اندرا سبھا۔اردو کا پہلا عوامی ڈرامہ،فیروز رشید کے ڈرامے،مولانا آزاد کی مکتوب نگاری،ڈاکٹر زور اور سب رس،مولانا محمد علی جوہراور ہمدرد،قومی یکجہتی اور اردو صحافت،میر کارواں،بصارت سے بصیرت تک،ڈوبتے ابھرتے جزیرے،کچھ یادیں کچھ باتیں،روف خیر کی حق گوئی وبے باکی'اردو کے منتخب مزاح نگاروں کے سفر نامے،انفارمیشن ٹکنالوجی اور اردو۔
زیر نظر کتاب میں کسی کی تقریض یا پیش لفظ کوشامل نہیں کیا گیا ہے ۔بلکہ فاضل مصنف نے اپنا پیش لفظ"سنگ گراں" کے عنوان سے شامل تصنیف کیاہے جس میں کتاب کے موضوعات سے متعلق انہوں نے لکھا ہے۔
"یہ تمام مضامین جو مختلف موضوعات کا احاطہ کرتے ہیں ملک کے معیاری رسائل وجرائد میں شائع ہوچکے ہیں ان میں خالص تنقیدی مضامین "سنگ" کی نمائندگی کرتے ہیں جبکہ تاثراتی و تبصراتی مضامین"ثمر" کے ترجمان ہیں" (ص7 )
بلا شبہ"سنگ وثمر"کے یہ موضوعات اردو ادب میں کافی اہمیت کے حامل ہیں۔جو کہ ڈاکٹر صاحب کے زور قلم کا نتیجہ ہیں جس میں ڈاکٹر سید فضل اللہ مکرم کا مخصوص رنگ نمایاں نظر آتا ہے جوا دب میں اپنی ایک جداگانا پہچان رکھتے ہیں انکی طبیعت خاموش مزاج ہے لیکن وہ اند ر سے ایک نقاد اور پر مزاح شخصیت کے حامل ہیں۔
زیر نظر کتاب کا پہلا مضمون "تخلیق سے تنقید تک "کے عنوان سے شامل ہے۔یہ مضمون کافی معلوماتی اور اہمیت کا حامل ہے ۔انہوں نے اس مضمون میں پہلے پہل ادب کیا ہے اس پر گفتگو کی ہے اس کے بعد تخلیق کیا ہے اور تخلیق اور تنقید پر سیرحاصل بحث کی ہے جس میں مشرقی فلاسفر کے اقتباسات کو بھی نقل کیا گیا اور تنقید کے مقصد کو بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب رقمطراز ہیں۔
"حقیقت یہ ہے کہ زندگی بسر کرنا اور اسے صحیح طور پر برتنا ہی خود ایک بڑی نیکی ہے اور یہ تعلیم ادب کی اصل غرض و غایت ہے جس کی تکمیل تنقید ہی کی بدولت ہوسکتی ہے ۔تنقید کئی خدمتیں انجام دیتی ہے۔خود نقاد اور ادیب کے حق میں بھی یہ اصلاح کا باعث ہے۔اگر کسی تخلیق میں خامیاں ہوں تو ان خامیوں کو سامنے لانے سے ہو سکتا ہے کہ اس سے تخلیق کار کو تکلیف ہو لیکن خوبیوں اور خامیوں کو پیش کرنا ہی نقاد کا منصب ہے"۔ص19
سیدھے سادے جملوں کا استعمال مصنف کی خصوصی پہچان ہے وہ لکھتے بہت ہیں انکی تخلیق دراصل اطمینان سکون،غور وفکر ،تدبر،گہرائی وگیرائی اور تجربات کا نچوڑ ہوتی ہیں۔
زیرِ نظر تصنیف میں ایک اور مضمون" ابن صفی کا ادبی مقام" ہے۔ جس میں ڈاکٹر فضل اللہ مکرم نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ اس قدر مقبولیت کے باوجود نقادوں نے جاسوسی ادب کو دنیا سے باہر کردیا اور ابن صفی کو کوئی مقام نہیں دیا جاتاایسا کیوں؟ پھر وہ خود اس سوال کے جواب کو اپنے استادمجاور حسین(ابن سعید) سے استفسار کے حوالے سے لکھتے ہیں۔
"ناول زمانی اظہار کا نام ہے اور زمانہ نام ہے واقعات کے بہاو کا کوئی بھی تخلیق اس وقت ادبی شہکار کہلاتی ہے جب وہ زمانے کااظہارکرے۔تہذیب و تمدن کو بیان کرے۔جاسوسی ناول اور ان کے پلاٹ ہمیں یاد نہیں رہتے اور تمام جاسوسی ناول ایک جیسے نظرآتے ہیں جب کہ ادبی تخلیق بھلائی نہیں جاتی بلکہ یہ نسل در نسل منتقل ہوتی رہتی ہے۔"ص88
زیر تبصرہ تصنیف میں مصنف نے" انفار میشن ٹکنالوجی اور اردو" مضمون میں اردو زریعہ تعلیم طلباء کے اندر خوداعتمادی پیدا کرنے اور مستقبل سے مایوس نہ ہونے کا مشورہ دیتے ہوئے ٹکنالوجی سے استفادہ کرنے سے متعلق کیا خوب لکھا ہے"میں اردو کے طلبہ سے مخاطب ہوں۔خدارا آپ پست ہمت نہ ہوں اور یہ نہ سوچیں کہ آپ اردو سے وابستہ ہیں تو دیگر مضامین پڑھنے والوں سے پیچھے ہیں اپنے آپ پر یقین کرنا سیکھئے اپنی مخفی صلاحیتوں کو پہچانئیے اور عصر ٹکنالوجی میں مہارت پیدا کیجئے تخلیقی صلاحیتوں کو فروغ دیجئے تجزیہ اور تنقید کی عادت ڈالیئے"
سائنس وٹکنالوجی کے دور میں اردو زبان کو ٹکنالوجی کو جوڑنے سے متعلق کافی باتیں اردو حلقوں میں ہو رہی ہیں۔اس سلسلہ میں فاضل مصنف نے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے سوشیل نیٹ ورک face bookپر اپنا ایک گروپ" ادبی محاذ' ' کے نام سے قائم کیا ہے جس پر اساتذہ و طلباء آپس میں مختلف موضوعات پر کھل کر گفتگو کرتے ہیں۔اور ایک نتیجہ پر پہنچتے ہیں۔اور اردو کے فروغ میں اپنا رول ادا کررہے ہیں۔
بہر حال ڈاکٹر فضل اللہ مکرم اردو والوں کیلئے بھی بہت زیادہ مکرم،مخلص ہیں اور اپنی تخلیقات سے اردو ادب کے سرمایہ میں مسلسل اضافہ کررہے ہیں اور وہ زمانہ کے ساتھ چلنے کا ہنر بڑی خوبی سے جانتے ہیں۔
"سنگ وثمر"کی اشاعت پرمیں ڈاکٹر فضل اللہ مکرم کودل کی گہرائیوں سے مبارک بادپیش کرتا ہوں اور امیدکرتا ہوں کہ ان کی اس تصنیف کوادب میں کافی مقبولیت نصیب ہوگی۔ اس کتاب کے سنگ ادب کو درست راہ فراہم کریں گے اور ثمر ادب کے سرمایے میں اضافہ کا باعث ہوں گے۔یہ کتاب ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤز نئی دہلی سے شائع ہوئی ۔دیدہ زیب اور خوش نماٹائٹل ' 180 صفحات اور مجلد تصنیف کی قیمت صرف 250 روپیے ہے۔ جسے انجمن ترقی اردو ہند،حمایت نگر، حیدرآباد ۔ہدی بک ڈپو حیدرآبادسے خریدہ جا سکتا ہے۔یا مصنف سے فون نمبر (09849377948س)پر ربط پیدا کرکے بھی حاصل کیا جا سکتا ہے۔

***
ڈاکٹر محمد عبدالعزیز سہیل
مکان نمبر:4-2-75 ، مجید منزل لطیف بازار، نظام آباد 503001 (اے پی )۔
maazeezsohel[@]gmail.com
موبائل : 9299655396
ایم اے عزیز سہیل

A Review on book 'Sang-o-Samar' by Dr. Fazalullah Mukarram. Reviewer: Dr. M.A.A.Sohail

2 تبصرے:

  1. بہت بہت شکریہ سہیل ۔ مکرم نیاز صاحب کا بھی شکر گزار ہوں۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. بہت بہت شکریہ سہیل ۔ مکرم نیاز صاحب کا بھی شکر گزار ہوں۔
    سید فضل اللہ مکرم

    جواب دیںحذف کریں