ادبی نگینے - ڈاکٹر عبدالعزیز سہیل کا ادبی و معلوماتی مضامین کا مجموعہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-04-22

ادبی نگینے - ڈاکٹر عبدالعزیز سہیل کا ادبی و معلوماتی مضامین کا مجموعہ

adabi-naginey
کتاب : ادبی نگینے
مصنف : ڈاکٹر محمد عبدالعزیز سہیلؔ
مبصر : ڈاکٹر سید فضل اللہ مکرم

"ادبی نگینے" ادبی و معلوماتی مضامین کا مجموعہ ہے جسے نوجوان محقق ڈاکٹرعبدالعزیزسہیل کے زورِقلم کا نتیجہ ہے۔یہ ان کی پہلی تصنیف ہے ا ور پہلی تصنیف یا پہلی اولاد سے ہر کسی کو بے انتہامحبت ہوتی ہے۔مجھے یاد ہے تقریباً تین سال قبل ڈاکٹر ضامن علی حسرت ؔ نے عبدالعزیز سہیل سے اس وقت ملایاتھا جب دونوں عثمانیہ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی میں داخلے کے خواہش مند تھے۔دونوں کا ایک ساتھ ایڈمیشن ہوا۔صرف ڈھائی سال کی مدت میں دونوں نے اپنا مقالہ داخل کیااور کم و بیش دونوں کو ایک ساتھ پی ایچ ڈی کی ڈگری ایوارڈ ہوئی۔عبدالعزیزسہیل میں بلا کی سادگی'شرافت اور جاذبیت ہے۔وہ تحریکِ اسلامی سے وابستہ ہیں۔نظام آباد کی ہر علمی و ادبی محفل میں بڑھ چڑھ کرحصّہ لیتے ہیں۔آجکل وہ گورنمنٹ ڈگری کالج محبوب نگر میں پیشۂ تدریس سے وابستہ ہیں۔ جب انھوں نے اپنا پہلا لکھا تبصرہ مجھے دکھایا توتب ہی سے مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ نوجوان اب رُکنے والا نہیں ہے۔ان دو چار برسو ں میں انھوں نے بے شمار تبصرے لکھے۔کئی ایک مضامین قلمبند کیے۔ویسے وہ پہلے سے ہی اصلاحی ادب کا نمائندہ رہے ہیں۔انہوں نے نظام آباد سے ماہنامہ بچوں کاغازی جاری کیاجو مقامی طور پر بہت مشہور ہوا۔پھر ماہنامہ التوحید بھی جاری کیا۔وہ نہ صرف ادارہِ ادب اسلامی نظام آباد کے خازن ہیں بلکہ اردو اسکالرس ایسوسی یشن کے معتمد بھی رہے ہیں۔
زیرِ نظر تصنیف جملہ تین حصوں پر مشتمل ہے۔پہلا حصِہ شخصیات کا احاطہ کرتا ہے جس میں قلی قطب شاہ'سر سید احمد خان'حالیؔ 'اقبالؔ 'مولانا آزادؔ ' آصف سابع میر عثمان علی خان'ڈاکٹر شیلا راج'اقبال متین اور تنویر واحدی کے کسی نہ کسی گوشہ کوروشن کیا گیا ہے۔جبکہ دوسرے حصّے میں تنقیدی مضامین شامل ہیں۔جس میں صحافت کی ابتدا اورہندوستان 'جدوجہدِ آزادی اور زبان و ادب ' انسان کی ذہنی نشونما اور مادری زبان'اکیسویں صدی کا غیر افسانوی ادب 'ضلع نظام آباد کی ادبی انجمنیں اور تحقیق۔اصولِ تحقیق پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے۔کتاب کا تیسرا حصّہ دو تین معلوماتی مضامین پر محیط ہے۔تعلیم'طلبااور سماجی خدمات'دورِ حاضر کے چیلینجیز اور مسلم نوجوان اور منصوبہ بندی اور مقصد کا حصول لائقِ ذکر ہیں۔
جیسا کہ کہا گیا ہے کہ یہ تصنیف مصنف کی پہلی کاوش ہے۔اس میں وہ مضامین شامل ہیں جو ملک کے بیشتر اخبار و رسائل اور انٹر نیٹ میگزین میں شائع ہوئے ہیں۔مصنف نے نہایت دیانت داری سے اپنے مضامین کے بارے میں یوں لکھا ہے
"میں نے جن موضوعات کو اس تصنیف میں پیش کیا ہے وہ اردو ادب کے لئے نئے نہیں ہیں لیکن ان عنوانات پر میں نے اپنا نقطہ نظر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ساتھ میں میری کوشش بھی رہی ہے کہ میری تحریر میں اپنے موضوع کے اعتبار سے قا بلِ تقلید ہوں" (ص 10 )
بلا شبہ یہ موضوعات اردو ادب کے لئے نئے نہیں ہیں لیکن ان پرانے موضوعات کو تازگی عطا کرنا بھی ایک تخلیقی عمل ہے۔ہر مضوع پر ایک نئے زاویے سے قلم اٹھانا اور اپنا ایک نقطہ نظر پیش کرنا یقیناًمصنف کی کامیابی کا باعث ہے۔بعض مضامین طویل ہیں اور کچھ مختصر۔کہیں عنوانات میں اچھوتا پن ہے تو کہیں پیش کشی خالص عزیز سہیل کی نظریاتی ہے۔جہاں کہیں بھی اقتباسات نقل کئے گئے ہیں وہیں ان کے حوالے بھی درج ہیں۔یہاں صرف دو چار مصامین کا ہی ذکر کرنا چاہوں گا ۔ایک مضمون اقبال متین۔فن اور فن کار شاملِ تصنیف ہے۔جس میں سہیل نے اجمالی طور پر اقبال متین کے افسانے' ناول اور شاعری کا جائزہ لیا ہے۔لیکن مضمون میں کہیں بھی اقبال متین کی فن کاری نظر نہیں آتی؟ایک اور مضمون کے عنوان میں بھی عزیز سہیل کی انفرادیت دکھائ دیتی ہے ۔عموماً ہندوستان میں صحافت کی ابتداعنوان دیا جاتا ہے مگر مصنف نے صحافت کی ابتداء اور ہندوستان عنوان دے کر اسے انفرادیت بخشی ہے۔آدھا مضمون صحافت کے پس منظر میں خرچ کیاگیاباقی حصّے میں ہندوستان میں صحافت پر گفتگو کی گئی۔ایک اور مضمون ضلع نظام آباد کی ادبی انجمنیں بھی ہے۔ جس میں مصنف نے نظام آباد کے مختلف ادبی انجمنوں کا تعارف کروایا ہے ۔ نایاب کلچرل ایسوسی ایشن کا نام سہواً چھوٹ گیا ہے کیوں کہ اس بزم کے تحت تقریباً پچیس سال قبل میں نے بھی جناب اقبال متین کی صدارت میں ایک افسانہ پڑھا تھا۔
ایسالگتا ہے کہ علامہ اقبالؔ ' مصنف کا پسندیدہ شاعر ہے۔تبھی تو وہ کلامِ اقبال کو مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ علامہ اقبالؔ کا کلام مسلمانوں اور خاص کر نوجوانوں کے لیے ایک نوشتۂ دیوار ہے۔کاش موجودہ دور میں علامہ کے پیام کو مشعلِ راہ بناکر ہم اپنے دین کی سر بلندی کے لیے جدو جہد کریں۔موجودہ دور میں بے دینی ' بے حیائ 'فحاشی ' عریانیت اور مخرب اخلاق لٹریچر کا چلن عام ہے ایسے میں ہمیں چاہیے کہ قراآنِ مجید اور سیرۃالنبیﷺ اور ہمارے اسلاف کے کارناموں کے ساتھ ہی علامہ اقبال کا مطالعہ کریں اور ان پر عمل پیرا ہوکر دنیا و آخرت میں کامیاب و کامران ہوں۔
مصنف کی زبان و بیان پر پوری قدرت ہے۔وہ کسی قسم کا دکھاوا نہیں کرتے بلکہ سیدھے سادے اندازمیں گفتگو کرتے ہیں۔اسی لئے انکی تحریر سادہ اور سلیس ہے۔کہیں بھی الجھاؤ یا مبہم انداز نظر نہیں آتا ہے۔جو بات بھی کرتے ہیں نہایت شرح وبسط سے کرتے ہیں۔مثلاًآصف سابع میر عثمان علی خان کی علمی و ادبی خدمات کو ایک پیرا گراف میں اپنے مضمون کی تلخیص اس طرح کی ہے۔
"آصف سابع میرعثمان علی خان اردو اور فارسی کے شاعر تھے گویا شاعری ان کو خاندانی وراثت میں ملی تھی وہ عثمانؔ تخلّص کرتے تھے انہوں نے مشہور شاعر جلیل مانک پوری سے اصلاح لی۔ان کے اردو کلام کے پانچ دیوان شائع ہوئے جو سالار جنگ میوزیم میں محفوظ ہیں اور ساتھ ہی فارسی کے دو دیوان بھی شائع ہوئے یعنی جملہ سات دواوین شائی ہوئے۔میر عثمان علی خان کا دور اردو ادب و شاعری کا ایک روشن دور تھا انہوں نے ادیبوں اور شاعروں کی بھی دل کھول کر سر پرستی کی۔"(ص 62)
زیرِ نظر تصنیف میں ڈاکٹر شیلا راج پر دو مضامین شامل ہیں۔یہ مضامین نہایت دلچسپی اور محبت سے لکھے گئے ہیں ۔ویسے مصنف نے ڈاکٹر شیلا راج پر اپنا تحقیقی مقالہ لکھا ہے جس پر انھیں پی ایچ ڈی کی ڈگری سے نوازا گیا ہے ۔پروفیسر فاطمہ پروین نے کتاب کے مندرجات پر روشنی ڈالی ہے تو ڈاکٹر اسلم فاروقی نے مصنف کی شخصیت کو روشن کیا ہے۔
ادبی نگینے کی اشاعت پر مصنف کو مبارک باد دیتا ہوں اور قوی امید ہے کہ ان کی تصنیف و تالیف کا سلسلہ تا عمر قائم رہے گا۔یہ کتاب ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤز نئی دہلی سے شائع ہوئی ۔دیدہ زیب ٹائٹل ' 441 صفحات اور مجلد تصنیف کی قیمت صرف دو سو روپیے ہے جسے ھدیٰ بک ڈپو۔حیدرآباد' معراج بک ڈپو ' ٹولی چوکی۔ حیدرآباد سے حاصل کی جا سکتی ہے۔ اور رعایتی دام پر حاصل کرنے کے لئے خود مصنف (09299655396)سے ربط پیدا کیا جا سکتا ہے۔

***
dramsf[@]yahoo.com
موبائل : 09849377948
مکان نمبر: 537-9-16 ، نزد واٹر ٹینک ، قدیم ملک پیٹ ، حیدرآباد - 500036۔
ڈاکٹر فضل اللہ مکرم

A Review on book 'Adabi Naginey' by Dr. M.A.A.Sohail. Reviewer: Dr. Syed Fazlullah Mukarram

1 تبصرہ: