31/مارچ اسلام آباد رائٹر
سابق صدر پاکستان پرویز مشرف نے ان پر عائد غداری کے 5الزامات سے انکار کیا۔ اس طرح ملک میں بڑھتے اثر کی حامل عدلیہ اور اس ملک کے سابق فوجی حکمراں کے درمیان ایک طویل ڈرامہ کے تازہ ترین باب کا آغاز ہوا ہے۔ مشرف نے تمام الزامات منسوبہ سے انکار کیا۔ ان پر 2007ء میں دستور کو معطل کرین ار ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنے کے الزامات ہیں۔ وہ اس وقت بحیثیت صدر، اپنی حکمرانی میں توسیع کی کوشش کررہے تھے۔ اگر مشرف کو خاطی قراردیاجائے تو انہیں سزائے موت کا سامنا ہوسکتا ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ مشرف کے درجہ کا کوئی سابق فوجی اعلیٰ عہدیدار عدالت میں ایک جج کے سامنے پیش ہوا ہے۔ پاکستان کی تاریخ بتاتی ہے کہ اس کی طاقتور فوج کو حکومت یا عدالت نے شاید ہی کبھی چیلنج کیا ہو۔ مشرف کے خلاف مقدمہ کی سماعت کرنے والے اور 3 ججوں پر مشتمل خصوصی پیانل کے صدر جسٹس فیصل عرب ہیں۔ انہوں نے زائد وقت (بحث کیلئے) دینے سے متعلق کویل صفائی کی درخواست مسترد کردی۔ مشرف نے جو جج کے بالکل سامنے کھڑے تھے، ہر الزام منسوبہ سے انکار کیا اور کہا "میں یہ پوچھنا چاہتاہوں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں میرے لئے انصاف کہاں ہے۔ میں نے اس ملک کو فقط دیاہے اور کچھ لیا نہیں ہے۔ میں، سرتسلیم خم کرنے کے بجائے موت کو ترجیح دیتا ہوں"۔ مشرف کے وکیل نے عدالت سے خواہش کی کہ ان کے موکل کو دبئی میں اپنی علیل والدہ کی مزاج پرسی کی اجازت دی جائے۔ (سابق فوجی حکمراں پرویز مشرف بحالت موجودہ گھر پر نظر بند ہیں) ان کے وکیل فاروق نسیم نے کہاکہ "ان کے موکل کی والدہ قریب المرگ ہیں، خدا کیلئے ( مشرف کو عیادت کی اجازت دی جائے)۔ مشرف کی والدہ کی عمر 94 سال ہے اور وہ بہت علیل ہیں"۔ یہاں یہ تذکرہ مناسب ہوگا کہ کیس میں اب تک کی پیشرفت، پاکستان کی بڑھتی آزاد عدلیہ کی فتح ہے اور یہ عدلیہ، پاکستان کے تیسرے مرکز اقتدار کی حیثیت سے ابھری ہے۔ ججس، ابھرتی سیویلین حکومت کو چیلنج کررہے ہیں اور ایسے چیلنجوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔ سیویلین حکومت کی قیادت وزیراعظم نواز شریف کررہے ہیں۔ عدلیہ نے تو پاکستان کی طاقتور فوج کو بھی چیلنج کیا ہے۔ 1947ء میں آزادی کے بعد سے پاکستانی تاریخ میں فوج نے بہ اعتبار مجموعی کم و بیش 40سال تک حکمرانی کی ہے، مشرف نے انتباہ دیا ہے کہ اس مقدمہ سے فوج میں برہمی پیدا ہوسکتی ہے۔ لیکن فوجی قائدین نے ایسا کوئی اشارہ نہیں دیا ہے کہ وہ مداخلت کرسکتے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی بتادی جائے کہ پرویز مشرف، اپنی جلاوطنی کی زندگی سے سال گذشتہ وطن واپس ہوئے۔ انہیں کئی مقدمات کا سامنا ہے۔ وہ انتخابات میں حصہ لینے کا ارادہ رکھتے تھے۔ اب اس کے برعکس انہیں قتل اور غداری کے کئی مقدمات کا سامنا ہوگیا۔ سوائے غداری کیس کے، انہیں دیگر تمام مقدمات میں ضمانت پر رہائی ملی ہے۔ غداری کا مقدمہ گذشتہ دسمبر میں شروع ہوا۔ اس کے بعد کئی مرتبہ پیشیوں میں تاخیر ہوئی۔ پہلے تو مشرف نے عدالت میں پیش ہونے سے ہی انکار کردیا تھا۔ بعد میں ان کے راستہ پر کئی دھماکو اشیاء، چھپاکر رکھی ہوئی پائی گئیں۔ گذشتہ 2جنوری کو انہیں ، جبکہ وہ عدالت جارہے تھے، سینہ میں تکلیف پر ہسپتال رجوع کیاگیاتھا۔ مشرف کے وکیل نے عدالت کے دائرہ سماعت کو چیلنج کیا ہے اور کہا ہے کہ عدالت نے جانبداری برقی ہے کیونکہ عدلیہ نے ان عوامی احتجاجوں کی قیادت میں مدد دی تھی جن کے سبب 2008ء میں مشرف کے استعفیٰ کی راہ ہموار ہوئی تھی۔Pakistan court indicts former military leader Pervez Musharraf for treason
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں