بی جے پی سے مسلمانوں کی وابستگی کا مسئلہ ان لوگوں کے لئے (جنہوں نے 1925ء میں ڈاکٹر کیشوبلی رام ہیڈ گیوار کی قائم کردہ آر ایس ایس (راشٹریہ سوئم سنگھ) کے مقاصد اور آر ایس ایس کے اہم قائد گولوالکر کے نظریات پر مبنی کتاب "بنچ آف تھاٹس Bunch of Thoughts" سے واقف ہوں) کوئی معنی ، اہمیت اور قابل توجہ نہیں ہے۔ آر ایس ایس پر مہاتما گاندھی کے قتل کی سازش کا الزام پہلے ہی قانونی موشگافیوں اور آر ایس ایس کے لئے سردار پٹیل کے دل میں اندرونی اور خفیہ نرم گوشوں کی وجہ سے ہوسکا تو دوسری طرف آر ایس ایس پر پابندی بھی برقرار نہ رہ سکی۔ آر ایس ایس کے مشکوک ہوجانے کے خدشات کے پیش نظر آر ایس ایس کے کاموں کو آگے بڑھانے کے لئے 1951ء میں شیاما پرشاد مکرجی نے "جن سنگھ" قائم کی تھی۔ اندرا گاندھی کی نافذ کردہ ہنگامی حالت (ایمرجنسی) کے بعد ہونے والے انتخابات میں جن سنگھ جے پرکاش نارائن کی جنتا پارٹی میں شامل ہوگئی لیکن اپنی منافقت کی وجہ سے جنتاپارٹی سے الگ ہوکر "بھارتیہ جنتا پارٹی بن گئی اور تاحال برقرار ہے۔
جن سنگھ اور بھارتیہ جنتا پارٹی میں آٹے میں نمک کے مصداق چند مسلمان یا مسلمان ناموں والے لوگ ہمیشہ شامل رہے جو چند نام ہم کو ان کو یاد ہیں۔ ان میں سکندر بخت، عبدالرحمن اور عارف بیگ شامل ہیں۔ بی جے پی میں جو نئے چہرے آئے ان میں مختار عباس نقوی اور شاہنواز حسین ہیں (ان اصحاب کے ناموں کے ساتھ غم رسولؐ) سید نا عباسؓ اور نواس�ۂ رسول صلعم سید نا حسینؓ کے نام شامل کرنا ہمیں اچھا نہیں لگتا ہے۔ بی جے پی میں کبھی عارف محمد خان نامی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے مشہور طالب علم قائد بھی شامل تھے۔ بی جے پی نے مسلمانوں سے جس قدر دلچسپی کااظہار 2014ء کے انتخابات کے موقع پر کیا ایسا شائد ہی کبھی کیا ہو یہ غالباً بی جے پی کی سب سے بدنام بلکہ مسلمانوں کے لئے سب سے زیادہ ناپسندیدہ اور کراہیت آمیز شخصیت مودی کے لئے کیا جارہا ہے ورنہ اس سے قبل بی جے پی نے کبھی مسلمانوں میں دلچسپی نہیں لی۔ سکندربخت اور عارف بیگ جن سنگھ کی طرف سے مرارجی دیسائی کی کابینہ میں شامل تھے۔ عارف محمد خاں 2007ء میں اپنی "ناقدری" کی وجہ سے بی جے پی سے نکل گئے۔ مختار نقوسی اور شاہنواز نے ضرور کچھ مقام و مرتبہ بی جے پی میں پایا۔ رام پورسے نقوی اور دربھنگہ (غالباً) سے شاہنواز کا انتخاب مسلم رائے دہندوں کی وجہ سے نہیں بلکہ مسلم ووٹس کی تقسیم کی وجہ سے ہوا جبکہ غیر مسلم ووٹس ان کو ملے جو ان کی کامیابی کا اصل سبب ہے۔ مختصر یہ کہ بی جے پی سے سدا مسلمان دور رہے اور بی جے پی مسلمانوں سے دور رہی ہے۔ ماضی میں بی جے پی کی مسلمانوں سے قدرے قربت کا کوئی اہم یا قابل ذکر واقعہ ہے تو وہ یہ ہے لکھنو سے جب اٹل بہاری واجپائی نے انتخاب لڑا تھا تو چند سنی اور شیعہ مسلمانوں کی خاصی تعداد نے واجپائی کو ووٹ دیا تھا اور 2004ء میں ضمیر فروش مسلمانوں نے واجپای حمایت کمیٹی بنائی تھی جس میں گجرات اور ممبئی کے چند مسلمان تاجر، دہلی کے چند مولوی صاحبان اور اردو کے تین ممتاز شاعر بشیر بدر، منظر بھوپالی اور ساغر اعظمی شامل تھے۔ اس کے کمیٹی کے ارکان کو مسلمانوں کی حمایت تو خبر کیا ملتی ہاں ملامت بہت ملی۔ بشیر بدر آج تک مشاعروں سے غائب ہیں۔ منظر بھوپالی بہ مشکل مشاعروں میں واپس آئے ۔ ساغر اعظمی اللہ کو پیارے ہوگئے۔ دہلی کے مولوی صاحبان تو اپنی شخصیت کو مکروہ سے مکروہ ترین بنانے کے لئے اسرائیل جاکر ان لعنتوں اور ملامتوں میں شریک ہوگئے جو اللہ رب العالمین نے بنی اسرائیل کا مقدر کررکھی ہیں(اسرائیل جانے والوں کے نام ہم نے عمداً نہیں ظاہر کئے ہیں)
مندرجہ بالا واقعات اور حالیہ واقعات کے درمیان مسلمانوں سے بی جے پی کے تعلقات کے ضمن میں کوئی خاص بات قابل ذکر نہیں ہے۔ مودی کے ایک خوشامدی مسلمان تاجر (ظفر سریش والا) نے اردو کے ایک ممتاز صحافی کو مودی کا انٹرویو لینے کے لئے راضی کیا مودی کا تو کوئی فائدہ نہیں ہوا ہاں اردو رسالے کے ایڈیٹر کی ساکھ پر خاصہ اثر پڑا اور تنقیدوں کا نشانہ بنے۔ مختصر یہ کہ بی جے پی او رمودی نے مسلمانوں سے برائے نام دلچسپی لی۔ گجرات چند مسلمان تاجر (جن میں بیشتر فرقہ بواہیر سے تعلق رکھتے ہیں) تجارتی مراعات کے حصول کے لئے مودی کی کاسہ لیسی ضرور کی تھی۔ ایک ممتاز مولانا کو مودی کی تعریف اس قدر مہنگی پڑی کہ مولانا کو ایک عظیم درس گاہ کا پروقار عہدہ چھوڑنا پڑا ۔ غرض کہ مودی کے دربار میں جو بھی گیا وہ اس لعنتی دربار سے ملی ملامتوں میں غرق ہوکر نکلا بلکہ مستقلاً غرق ملامت رہا ہے۔ تقریباً ایک سال قبل مودی کے لئے ایک نام نہاد سمینار کیا گیا تو اس میں صرف ڈاکٹر سید ظفر محمود نے مودی کو ایسی کھری کری سنائی کہ مودی صر ف اس قدر کہہ سکا کہ "اچھا کیا آپ نے کہ اپنی بات پہنچادی"۔
جب مودی وزیر اعظم کے عہدہ کا امیدوار بنا تو اس کو اس کے غیر ملکی شہروں نے سمجھا یا کہ مسلمانوں کی مدد کے بغیر تم کامیاب نہیں ہوسکتے تو اس کو مسلمانوں کا خیال آیا اور جلسوں میں داڑھی ٹوپی والوں اور برقع والیوں کو لانے کی کوشش کی جانے لگی۔ داڑھی ٹوپی اور برقع میں مسلمان مردو خواتین ترغیب تحریص ڈرا دھمکاکر لائے گئے اور نہ جانے کن کن کو ٹوپی برقع پہناکر مسلمان بتایاجانے لگا کہ مودی کے جلسے میں مسلمان بھی تھے۔ یہ کھیل اب بھی جاری ہے جن میں اصل کم ہے فریب زیادہ ہے۔
مودی 2002ء کی تنگ انسانیت حرکتوں کے بعد مودی نے آج تک مسلمانوں سے معافی نہیں مانگی، اظہار ندامت نہیں کیا، فسادات میں بے گھر ہوئے لوگوں کی اکثریت اب بھی اپنے اصلی گھروں، دکانوں، کارخانوں اور کھیتوں سے دور ہے۔ ان کے اپنے مقامات پر آباد ہونے کے لئے مودی کی "غنڈہ فورس بلکہ مسلم دشمن" عناصر کو مودی نے کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ مسلمانوں کے لئے مرکزی حکومت کی مرسلہ امداد اور تعلیمی وظائف کو مودی نے روک دیا۔ مساجد و دیگر مقدس مقامات کی مرمت و آرائش کے سلسلہ میں عدالت عظمیٰ کے احکامات کو مودی نے سپریم کورٹ کی سرزنش کے باونود من و عن عمل نہیں کیا۔ فسادات کی تحقیقات کا کام "وکاس پرش" اور عمدہ حکمرانی کی مثال مودی نے مکمل ہونے نہیں دیا بلکہ عدالت عظمیٰ کے حکم پر بنائی گئی تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ راگھون کو ناجائز طور پر اپنے حق میں کرکے نام نہاد کلین چٹ تو لے لی اور ایک نچلی عدالت سے اپنے حق میں فیصلہ لے لیا۔ (گجرات کے نظام عدل کی جانبداری اور معیار عدل کو عدالت عظمیٰ نے بھی ناقابل بھروسہ سمجھ کر کئی مقدمے گجرات سے باہر سماعت کروائے اور گجرات کی عدالت العالیہ کی کارکردگی پر سخت اعتراض بھی کئے تھے۔ پٹنہ کی ریلی میں بم دھماکوں کا شکار ہونے والوں سے اظہار ہمدردی کرنے والے مودی نے اپنی ریاست کے صدر مقام کے تباہ وبرباد ہونے والوں اپنوں کی موت کا غم سہنے والوں سے ہمدردی کرنے کی مودی کی تہذیب اور کردار شائد اجازت نہیں دیتا ہے۔ مختصر یہ کہ مودی کی قابل ملامت حرکات اور متعصبانہ حکمرانی کی چند باتوں کا بیان ہی خاصہ طویل ہوگیا ہے۔
باوجود اس کے کہ انتخابی مہم کے دوران بی جے پی یا مودی کے شعبہ تشہیر (صرف مودی کے پروپگنڈے یا تشہیر کے لئے مودی کے ملکی اور غیر ملکی سرمایہ دار سرپرستوں نے خصوصی انتظام کیا ہے) مودی سے مسلمانوں کی دلچسپی ظاہر کرنے کے لئے ہر قسم کے ہتھکنڈے استعمال ہورہے ہیں لیکن ملک بھر کے عام مسلمان رائے دہندے قطعی غیر متاثر ہیں۔ بی جے پی سے مسلمانوں کے تعلقات اتنے ہی غیر متاثر ہیں جتنے کہ مودی کی انتخابی مہم سے قبل تھے۔ مودی سے مسلمانوں کی دوری اور سرد مہری اللہ کے کرم سے جوں کی توں ہے۔ خدارا! مودی کی ریلیوں اور جلوسوں میں داڑھی ٹوپی اور برقعوں پر نہ جائیے اور مودی کے حق میں بلکہ تعریف و توصیف کے ساتھ ووٹ دینے کا اعلان کرنے والے چہروں اور مناظر پر مت جائیے ان کی نہ کوئی حقیقت ہے اور نہ اصلیت۔ ہندوستان جیسے غریب ملک میں چند جملے چند نوٹوں کے عوض کہنے والوں کی کمی نہیں ہے۔ ہاں انگریزی کے مشہور صحافی ایم جے اکبر کی بی جے پی میں شرکت سے بھی مسلمانوں کا موقف بدل نہ سکے گی۔ بلکہ اکبر کے اقدام سے مسلمانوں پر کوئی اثر نہ پڑے گا۔ ایم جے اکبر ہوں یا کوئی دوسرا مسلمان صحافی (جو انگریزی میں لکھتا ہے) ہو ان کو انگریزی جاننے سے لکھنے والے صحافیوں پر خود کو سیکولر، قوم پرست جدید و ترقی پسند خیالات کا حامل بننے کا بھوت سوا ر ہوجاتا ہے (ہاں بیرسٹر اے جی نورانی بلا شبہ ایک استثنائی صورت ہیں) اکبر کو بی جے پی کے قبول کرنے سے زیادہ اہمیت صابر علی کو قبول کرکے پارٹی سے نکال باہر کرنے کی اہمیت ہے۔ اکبر اور صابر علی کے واقعات سے مفاد پرست مسلمانوں کی ضمیر فروشی کا پتہ چلتا ہے تو بی جے پی کے ذہنی دیوالیہ پن کا بھی پتہ چلتا ہے ایم جے اکبر نے مسلمانوں کی تائید میں بے شک کم لکھا ہوگا لیکن بی جے پی کی مخالفت وہ بے شک کررتے رہے ۔ ایسے بندے کو اور خاص طور پر صابر علی کو جھٹ پٹ قبول کرنا اس بات کی غمازی ہے کہ ان کو صرف مسلم چہروں کی ضرورت ہے۔ آج یہ کوئی نہیں لکھتا ہے کہ 1990ء میں بابری مسجد کی شہادت اور رام مندر کی تعمیر کی مخالفت کرنے والے اور عمر کا بڑا حصہ کانگریس کی حمایت کرنے والا اچانک بی جے پی میں صرف اپنے ذاتی مفادات اور مقاصد کی خاطر آسکتا ہے وہ آئے اور پارٹی کے ترجمان بھی بن گئے۔ شائد الیکشن بھی لڑے دوسری طرف صابر علی کی آناً فاناً بی جے پی میں شرکت اور اخراج سے جس قدر صابر علی کی ذلت و توہین ہوئی اس سے زیاہد بی جے پی کی ہوئی اور مختار نقوی کے اس جذبہ کا بھی ثبوت ملاکہ وہ مسلم نام رکھنے والے افراد کا بی جے پی میں آنا پسند نہیں کرتے ہیں۔ حال ہی میں بی جے پی میں جو کچھ ہوا اس کے کسی قائد کی لہر چلنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے اور جس پارٹی یا لیڈر کی لہر چلتی ہے اس پر اس کے انتخابی جلسوں پر حملوں کی من گھڑت، بے بنیاد اور جعلی سازشوں کے ڈرامے نہیں کئے جاتے ہیں۔ ایجنسیوں نے مودی کے خلاف سازشوں کے بہانے اور دہشت گردی کے واقعات کے سالوں بعد اس کے مجرموں کو انتخابات سے قبل گرفتار کرنے کے ڈراموں سے مودی اور کانگریس کے دوستوں کا ہی فائدہ ہے لیکن مسلمان ووٹرس بی جے پی کے ساتھ ساتھ کانگریس سے بھی مزید دور ہوسکتے ہیں۔ مسلم تائید و حمایت کے فسانوں ، ڈراموں اور پروپگنڈے اور بے قصور معصوم افراد کی گرفتاریوں سے نہ مودی اور نہ پی بی جے پی کامیاب ہوسکتی ہے ۔ پروپگنڈے، جعلی سروے رپورٹس اور ڈراموں سے کوئی پارٹی کامیاب نہیں ہوسکتی ہے۔
***
rasheedmansari[@]ymail.com
موبائل : 09949466582
Flat No. 207, "Jahandar Towers" Rati Bowli, Mehdipatnam, Hyderabad-500028
rasheedmansari[@]ymail.com
موبائل : 09949466582
Flat No. 207, "Jahandar Towers" Rati Bowli, Mehdipatnam, Hyderabad-500028
Muslims & BJP - Front stage and off stage. Article: Rasheed Ansari
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں