2014 انتخابات - سن 1947 کے ماحول کے زیر اثر - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-04-29

2014 انتخابات - سن 1947 کے ماحول کے زیر اثر

#Election2014
india-election-2014
بی جے پی لیڈران کے اشتعال انگیز بیانات سے تو مترشح ہوتا ہے کہ مودی کی حکومت ہندوستان کی ایک اورتقسیم کا پیشہ خیمہ ہے۔
بی جے پی لیڈروں کے بیانات میں چھپے خطرناک عزائم کے پیش نظر نتیش کمار نے خدالگتی بات کہی ہے کہ :
2014ءکا انتخاب 21 ویں صدی کاہندوستان بنانے کیلئے لڑاجاناچاہئے تھالیکن اسے اب 1947 کا تقسیم والاماحول بناکرلڑاجارہا ہے۔ جس نےاسٹیج سے بہارکے وزیراعلیٰ کے قتل کی بات کی اس کالوک سبھا کا ٹکٹ پکا کردیا گیا، اب وہ قوم مخالف تقریرکررہے ہیں تاکہ ان کے رہنماانہیں پھر پرموٹ کریں۔آزادانہ بحث جمہوریت کی طاقت ہے لیکن جن کے رہنماتنوع اوربحث کوبرداشت نہیں کرسکتےان کے پیروکارتومتعصب ہوں گے ہی۔ اب اس دوڑمیں بی جے پی کے تمام لیڈران شامل ہوگئے ہیں ۔کوئی اپنے مخالفین کوملک سے نکالنے کا فرمان جاری کررہا ہے تو کوئی جائدادہڑپنے اورقانون توڑنے کیلئے بھڑکارہا ہے اورگولی سےبدلہ لینے یا ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی دھمکی دے رہاہے۔ کیا بی جے پی کا متبادل ملک کا تصورہے ۔ بی جے پی لیڈران جوخطرناک کھیل کھیل رہے ہیں اس سے ترقی تونہیں ہوسکتی ہاں، چین سے جینے کی آزادی ضرورختم ہوجائےگی۔

کیا مودی کی حکومت تقسیم ہندکا پیش خیمہ ہے؟ یہ سوال اس لئے بھی باوزن لگنے لگا ہے کہ عام انتخابات کے نتائج آنے میں ہفتوں باقی ہیں لیکن ابھی سے بی جے پی اورمودی حامیوں کوجیت کاایسا یقین ہوچلاہے کہ وہ اپنی مسلم مخالف بلکہ جمہوریت مخالف پالیسی کا برملا اظہارکرنے لگے ہیں۔ انتخاب کوانتقام اوروقارکی جنگ قراردینا،مخصوص طبقہ کوحکومت بننے کے بعدٹکڑے ٹکڑے کردینےکی بات ،حکومت بننے کے بعدبنگلہ دیشی جاسوسوں کوواپس بنگلہ دیش بھیجنے کااعلان ،مودی مخالفین کوپاکستان بھیجنے کی دھمکی ،مودی کوووٹ نہ دینے والوں کوحق رائے دہی سے محروم کرنے کا مشورہ، ہندواکثریتی علاقوں سے مسلمانوں کوباہرکرنے اورمودی کی حکومت بننے کے بعدچھ مہینے کے اندرپاکستان کو برباد کرنے کاکھلااعلان کرنے جیسے بیانات نے ملک ہی نہیں بیرون ملک کے سنجیدہ طبقوں کومضطرب کردیاہے۔
امریکی پارلیمنٹ کے بعدبرطانیہ کے اعلی تعلیم یافتہ اورہندنژادماہرین تعلیم کے ذریعہ مودی کے تعلق سے خدشات کا اظہارکرنا اورکھلاخط لکھ کرمخالفت کرنے کومحض اتفاق یارسمی احتجاج کے زمرے میں رکھ کر نظرانداز نہیں کیاجاسکتا۔
اگر اس طرح کے بیانات بی جے پی کے چھٹ بھیئے لیڈروں کی جانب سےآتے توا سے سیاسی روٹی سینکنے کاحربہ قراردے کراغماض کیاجاسکتا تھا لیکن وشوہندپریشد کے لیڈرپروین توگڑیا،بی جے پی کے سینئرلیڈر اور نوادہ سے امیدوارگری راج سنگھ اورشیوسینا کے رام داس کدم جیسے پالیسی سازافرادجب کوئی بات کہے تواسے این ڈی اے کی پالیسی کا حصہ سمجھنا چاہئے ۔
امت شاہ ،وسندھرا راجے سندھیا کے بعداب بی جے پی قومی صدر راجناتھ سنگھ ،پروین توگڑیا ،گری راج سنگھ اوررام داس کدم کی زہرافشانی فقط اشتعال انگیز نہیں بلکہ ہندوستان سے جمہوریت کا جنازہ نکالنے کے عزم کا اظہار ہے۔ان کے پراعتماد لہجے یہ بتانے کیلئے کافی ہیں کہ ہندوستان کوہندوراشٹربنانے کی درپردہ پوری تیاریاں ہوچکی ہیں بس مودی کے وزیراعظم بننے کی دیرہے۔

بھاؤنگرمیں پروین توگڑیانے زہرافشانی کرتے ہوئے وشوہندوپریشدکے کارکنان کوحکم دیاکہ ہندواکثریت علاقوں سے مسلمانوں کوباہرکردیں؛ اگرمسلمان مکان خالی نہ کرے تواس پرجبراً قبضہ کرلیں ،مقدمہ برسہا برس چلتا رہتا ہے۔انہیں ایسے محلوں میں مکان خریدنے کی اجازت نہ دیں جہاں ہندوؤں کی اکثریتی آبادی ہے۔ توگڑیاکے اس بیان کا بروقت اثریہ ہواکہ اس علاقے میں ایک مسلم تاجرکے گھرکےباہر وشوہندوپریشدکےکارکنان جمع ہوگئے اورجم کرہنگامہ آرائی کی جبکہ بہار بی جے پی کےلیڈرگری راج سنگھ جومودی پرستی کیلئے شہرت رکھتے ہیں ، انتخابی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ مرکزنے ان لوگوں کوسبسڈی دی جنہوں نے گائے کا گاشت برآمد کیااورگائے کی پرورش کرنے والوں پرٹیکس لگادیا ۔ جولوگ مودی کی مخالفت کررہے ہیں وہ پاکستان پرست ہیں ان کیلئے ہندوستان میں کوئی جگہ نہیں ہے ،انتخابات کے نتائج آنے کے بعدانہیں پاکستان جاناہوگا۔ گری راج سنگھ مودی مخالفین کوحق رائے دہی سے محروم رکھنے کی وکالت کرچکے ہیں۔(اس سے قبل سیمانچل میں نریندرمودی بھی انتخابی تشہیرکے دوران گائے کےگوشت کے بہانے زہراگل چکے ہیں ) اورمہاراشٹر میں شیوسینا کے لیڈر رام داس کدم نے مودی کی موجودگی میں کہاکہ مودی کی حکومت بننے کے چھ ماہ بعدپاکستان کوتباہ کردیاجائےگا۔ ارریہ میں کچھ دنوں قبل بی جے پی کے قومی صدرراج ناتھ سنگھ نےاپنے خطاب میں کہاتھاکہ حکومت بننے کے بعدبنگلہ دیشی جاسوسوں کوواپس بنگلہ دیش بھیج دیاجائےگا ۔خیال رہے کہ سیمانچل کےعلاقوں کےبنگلہ زبان بولنے والے باشندے بنگلہ دیشی جاسوس قراردئے جارہے ہیں۔

عام انتخابات 2014ء میں آرایس ایس اوراس کی ہم نواتنظیموں کی حددرجہ دلچسپی نے انتخابی جنگ کونظریاتی لڑائی میں تبدیل کردیاہے۔ میڈیااور صنعت کاروں کے سہارے آرایس ایس مودی کوہرحال میں وزات عظمیٰ کی کرسی پربیٹھاناچاہتی ہے تاکہ وہ اپنے ایجنڈوں کوآسانی کے ساتھ نافذکرسکے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا واقعی مودی وزیراعظم بن گئے تو ہندوستان جمہوریت کی نعمت سے محروم ہوجائےگا ؟اورکیامودی کی حکومت کے بعد ہندوستان کوایک اورتقسیم کا زخم برداشت کرنا پڑے گا ؟
انتخابات کے دوران نفرت پرمبنی بیانات کی سخت ممانعت ہے اورایسے لوگوں کے خلاف الیکشن کمیشن کوکارروائی کرنے کا اختیاردیاگیاہے لیکن الیکشن کمیشن اس تعلق سے بیداری کا ثبوت تودے رہا ہے مگراس کی کارکردگی سوالات کے گھیرے میں ہے۔ چھ ماہ پرانی ویڈیوکی بنیادپرعمران مسعود کوفوراًگرفتارکرلیاجاتاہے لیکن فسادات زدہ علاقوں میں جہاں متاثرین کے زخم ابھی بھرے نہیں ہیں وہاں امت شاہ کھلے عام اشتعال انگیزی کرتے ہیں اورانتخابات کووقاروانتقام کی جنگ کہہ کر ایک مخصوص طبقہ کےخلاف زہراگلتے ہیں مگران کی کلائی میں ہتھکڑی نہیں لگائی جاتی ، رسمی طورپرشکایت درج ہوتی ہے اورمعاملہ ہائی کورٹ پہنچ جاتا ہے اورجب ہائی کورٹ اپنا فیصلہ سنانے پرآتا ہے توعین وقت پرکانگریسی شکایت کنندہ کے ذریعہ عرضی واپس لے لی جاتی ہے ۔ اس طرح امت شاہ کوکانگریس اورکمیشن دونوں مل کراپنی پناہ میں لے لیتے ہیں جبکہ اسی اترپردیش میں سماج وادی پارٹی کے لیڈر محمد اعظم خان کےایک مبنی برحقیقت بیان کومتنازع مان لیاجاتا ہے اوران کے خلاف مقدمہ درج کرتے ہوئے ان کی انتخابی تشہیر پرپابندی لگادی جاتی ہے۔حکومت بننے کے بعدمخصوص طبقہ کوٹکڑے ٹکڑے کردینے والی وسندھراراجے کے بیان کوکمیشن قابل التفات بھی نہیں سمجھتاہے ۔اسی طرح راجناتھ سنگھ کے ذریعہ بنگلہ زبان بولنے والے مسلمانوں کوبنگلہ دیشی جاسوس قراردینا اورانہیں حکومت بننے کےبعدبنگلہ دیش واپس بھیجنے کی دھمکی بھی اسکی نظرمیں ضابطہ اخلاق کی پامالی یا نفرت انگیزی کے زمرے میں نہیں آتا ہے۔ پروین توگڑیا، گری راج سنگھ اوررام داس کدم ابھی بھی کھلے عام گھوم رہے ہیں ۔آخرالیکشن کمیشن کی کارکردگی میں اتنی تفریق کس بات کاغماز ہے ؟ ایسے افرادہندوستان کو کہاں لے جاناچاہتے ہیں؟اورکمیشن پرکس کا دباؤہے ؟

جس طرح آرایس ایس اوران کی ہمنوا تنظیمیں مودی کواقتدارمیں لانے کیلئے کسی بھی حدتک جانے کوتیارنظرآرہے ہیں مجھے توخدشہ ہونے لگا ہے کہ کہیں وہ اپنے نظریاتی چیلوں اور زرخرید افسران کی ملی بھگت سے ای وی ایم مشین میں چھیڑچھاڑ کرکے اپنے خواب کوشرمندہ تعبیرنہ کرلے کیوںکہ عدالت نے بھی ای وی ایم مشین سے چھیڑچھاڑکوممکن مانا ہے اورماہرین کے مطابق ای وی ایم مشین کے ذریعہ اس طرح کی چھیڑچھاڑممکن ہے جس کے ذریعہ دوسروں کودیاگیا ووٹ بھی بی جے پی کوہی ملے۔ بی جے پی لیڈروں کے پراعتماد بیان نے میرے خدشہ کومزید تقویت بخش دی ہے ۔اگرایسا ہے توواقعی ہندوستان سے جمہوریت کےجنازے کودھوم دھام سےنکالنے کی تیارکی جاچکی ہے۔فرقہ پرست طاقتیں اپنے منصوبے میں کامیاب ہوتی ہیں یا نہیں یہ بحث کا الگ موضوع ہے۔اس عام انتخابات میں آرایس ایس جس طرح سرگرم ہے اس سے قبل ا س طرح کی فعالیت کبھی نہیں دیکھی گئی ۔ ہندوتو نواز تنظیمیں کھل کرمیدان میں آگئی ہیں۔ووٹروں کو پولنگ مراکز لے جانے ،ان کی ذہن سازی کرنے اوراپنے حق میں ماحول سازگاربنانے کیلئے کئی ذیلی ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں ۔
بی جے پی لیڈروں کے بیانات میں چھپے خطرناک عزائم کے پیش نظر نتیش کمارنے خدالگتی بات کہی ہے کہ
"2014 کا انتخاب 21/ویں صدی کاہندوستان بنانے کیلئے لڑا جاناچاہئے تھالیکن اسے اب 1947 کا تقسیم والاماحول بناکرلڑاجارہا ہے۔غورکیجئے کون لوگ ہیں جوفسادی بن رہے ہیں ؟جب اسٹیج سے بہارکے وزیراعلیٰ کے قتل کی بات کی توان کالوک سبھا کا ٹکٹ پکا کردیاگیااسی وجہ سے اب وہ قوم مخالف تقریرکررہے ہیں تاکہ ان کے رہنماانہیں پھرسے پرموٹ کریں۔آزادانہ بحث جمہوریت کی طاقت ہے لیکن جن کے رہنماتنوع اوربحث کوبرداشت نہیں کرسکتے توان کے پیروکارمتعصب توہوںگے ہی ؛اب اس دوڑمیں بی جے پی کے تمام لیڈران شامل ہوگئے ہیں ۔کوئی ملک سے نکالنے کا فرمان جاری کررہا ہے تو کوئی جائدادہڑپنے اورقانون توڑنے کیلئے بھڑکارہا ہے اورکولی بدلہ لینے یا ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی دھمکی دے رہاہے۔کیا بی جے پی کا متبادل ملک کا تصورہے ۔بی جے پی لیڈران جوخطرناک کھیل کھیل رہے ہیں اس سے ترقی تونہیں ہوسکتی ہاں! چین سے جینے کی آزادی ضرورختم ہوجائےگی۔"

بہرحال بی جے پی کا نظریہ اوراس کے عزائم اب طشت ازبام ہوچکے ہیں ،ہم کہہ سکتے ہیں 2014 کے انتخابات جمہوری تاریخ کیلئے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے جس سے یہ طے ہونا ہے کہ ہندوستان میں جمہوریت رہے گی یا پھراس کا گلا گھونٹ دیاجائےگا؟ لیکن اس کا فیصلہ سیکولرعوام کوکرناہے ۔ابھی بھی بہت وقت ہے اورملک میں کئی نشستوں پرانتخابات ہونےہیں،عوام اپنے حق رائے دہی کے ذریعہ ہی ملک کوٹکڑوں میں باٹنے والوں کے ناپاک منصوبوں کوخاک میں ملاسکتے ہیں اوراس میں مسلمانوں کا کرداربڑاہم ہوگا ۔اگرمسلمانوں نےاپنے ووٹوں کومنتشرہونے سے بچالیا اورپوری دل جمعی کے ساتھ ووٹنگ میں حصہ لیا تو اس بارسیکولرزم کی حفاظت کا سہراانہیں کے سرجائے گا۔

***
rahbarmisbahi[@]gmail.com
موبائل : 9470738111
صابر رضا رہبر

Election 2014 - the similar scenario of 1947. Article: Sabir Rahbar

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں