دکن اداس ہے یارو - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-04-09

دکن اداس ہے یارو

deccan-udaas-hai-yaaro
دو سو برس میں وجد سراج و ولی کے بعد
اٹھے ہیں جھومتے ہوئے ہوئے خاک دکن سے ہم

ابھی گزشتہ کل ہی تو بات ہے جب علامہ اعجاز فرخ کا مضمون "حیدرآباد کی تہذیب تمدن اور یادیں" پڑھنے کا اتفاق ہوا تھا اور پچھلے اتوار بازار کو بازار سے ملنے والا مولانا ماجد دریابادی کا رپورتاژ "تاثرات دکن" بھی احباب کی خدمت میں پیش کیا تھا۔
اس مرتبہ بھی اتوار بازار میں دکن ہی غالب رہا۔

ملنے والی کتاب کا نام ہے ''دکن اداس ہے یارو" اور اس کے مصنف ہیں مرزا ظفر الحسن۔
راقم اتوار بازار کے حرفوں کے بنے ہوئے، سب سے گھاگ کتب فروش کا تذکرہ تو بار بار کرتا ہے جو کتابوں کی قیمت ڈالروں کے حساب سے طلب کرتا ہے لیکن اس مرتبہ "دکن اداس ہے یارو" بازار کے سب سے معقول اور شریف النفس کتب فروش کے پاس پائی گئی۔ کتاب کے کئی نسخے محض بیس بیس روپے میں فروخت کے لیے موجود تھے۔

دکن اداس ہے یارو" کی پیشانی پر درج ہے کہ یہ مصنف کی یادوں کا تیسرا مجموعہ ہے جو 1978 میں ادارہ یادگار غالب، کراچی سے شائع ہوا تھا۔
پہلا مجموعہ "ذکر یار چلے" جبکہ دوسری کتاب کا نام "پھر نظر میں پھول مہکے" تھا۔ کہنے کو "ذکر یار چلے" مرزا صاحب کی خودنوشت کہی جاتی ہے مگر دیگر دونوں کتابیں بھی یاداشتوں ہی کے زمرے میں آتی ہیں۔

مرزا ظفر الحسن، سنگا ریڈی، ضلع میدک، حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے۔ دکن ریڈیو پر ملازمت کی، پاکستان آکر کئی اہم عہدوں پر کام کیا۔ سبط حسن نے اپنی کتاب "شہرنگاراں" میں مرزا صاحب کا تذکرہ دلنواز انداز میں کیا ہے جبکہ مذکورہ کتاب کے لیے مرزا ظفر الحسن کا تحریر کردہ تعارفی مضمون بھی خاصے کی چیز ہے۔
مرزا ظفر الحسن کا سفرنامہ دکن "وہ قربتیں سی وہ فاصلے سے" ان کی ایک دلچسپ کتاب ہے۔ اسی طرح "عمر گزشتہ کی کتاب" مرزا صاحب کی ایک ایسی کتاب ہے جو فیض اور مخدوم کی تخلیقات کے تذکروں سے پر ہے۔

مرزا صاحب کراچی کے ادارہ یادگار غالب کراچی کے بانی معتمد جبکہ غالب لائبریری کراچی کے بانی مہتم رہے تھے۔ آج بھی غالب لائبریری میں مرزا ظفر الحسن کی ایک خوبصورت اور باوقار تصویر آویزاں ہیں۔

دکن اداس ہے" کے تعارف میں کیا لکھا جائے اور کیا چھوڑا جائے۔ یہ کتاب آپ اپنا تعارف ہے، دلچسپ یادوں سے پر ہے۔ اس کتاب کو احباب کے لیے اسکین کیا جاچکا ہے۔ "ذکر یار چلے" میں شامل مرزا ظفر الحسن کی دو عدد تصاویر بھی "دکن اداس ہے" کے آخر میں شامل کردی گئی ہیں جبکہ وہ قربتیں سی وہ فاصلے سے، ذکر یار چلے اور عمر گزشتہ کی کتاب کے سرورق اور اشاعتی تفصیلات پر مبنی اوراق بھی یکجا کرکے شامل کردیے گئے ہیں۔

کتاب کے پیش لفظ سے کچھ اقتباسات ۔۔۔۔
حیدرآباد دکن کے سلسلے میں "ذکر یار چلے (1971)" اور "پھر نظر میں پھول مہکے (1974)" لکھ چکا ہوں۔ تیسری یعنی "عمر گذشتہ کی کتاب (1977)" میں فیض احمد فیض اور مخدوم محی الدین کی زندگی اور تخلیقات کا ذکر ہے اور مخدوم کی وجہ سے نصف کتاب دکن ہی سے متعلق ہے۔ "دکن اداس ہے یارو" جیسا کہ نام سے ظاہر ہے اسی سرزمین کی کہانی ہے۔
"ذکر یار چلے" کو میں نے مخدوم سے اپنی آخری ملاقات تک کی یادوں پر ختم کیا تھا (1948) ، اس میں کوئی تاریخ وار تذکرہ تو نہیں ہے مگر تھوڑا بہت تاریخی تسلسل ضرور ہے۔ اس مرتبہ ارادہ کیا کہ "دکن اداس ہے یارو" میں 1948 سے 974 تک کی یادیں محفوظ کر لوں۔ اس کی تقسیم کچھ اس طرح سوچی تھی :
1) مخدوم سے آخری ملاقات سے لے کر ہند حیدرآباد قضیے ، حیدرآباد پر ہندوستان کے قبضے اور میرے ترک دکن کی یادیں
2) نئے وطن کے واقعات اور مشاہدات یعنی تیس سال کی یادیں
3) اپنے مجوزہ سفر دکن کے تازہ ترین تجربات

اس طرح یہ کتاب کوئی تیس سال کی یادوں کا مجموعہ ہوتی۔ مگر جب لکھنا شروع کیا تو بقول فیض :
تمہاری یاد کے جب زخم بھرنے لگتے ہیں
کسی بہانے تمہیں یاد کرنے لگتے ہیں
صبا سے کرتے ہیں غربت نصیب "ذکرِ دکن"
تو چشمِ صبح میں آنسو ابھرنے لگتے ہیں

ایسی بہت سی یادیں مچلنے لگیں جو پچھلی کتابوں میں شامل نہیں تھیں۔ میرے قلم نے انہیں مسترد کرنا منظور نہ کیا جس کی وجہ سے وہ خاکہ ہی بدل گیا جو میں نے بنایا تھا اور جس کا حوالہ اوپر دے چکا ہوں۔ دوسروں کے متعلق میں نہیں جانتا خود جب اپنی یادیں مجتمع کرتا ہوں تو بات میں بات نکلتی اور مضمون کچھ کا کچھ ہو جاتا۔ اسے میں اپنے طریق تحریر کی کمزوری نہیں یادوں کا کمال سمجھتا ہوں اور میرا ایقان ہے کہ ماضی کی یادوں سے بےالتفاتی مستقبل کے خلاف ایک ناقابل معافی جرم ہے۔
مجھے احساس ہے کہ اس کتاب کے بعض حصوں خصوصاً نشریات کے ابتدائی واقعات سے ہر کسی کو دلچسپی نہیں ہوگی مگر میں اس دکن ریڈیو کی داستان کس طرح بھلا سکتا ہوں جس کی بابت مجھے پاکستان آنے پر کئی لوگوں نے بتایا کہ ریڈیو سیٹ پر دکن ریڈیو سے سقوط حیدرآباد کی خبریں وغیرہ سنیں تو غم و غصے میں سیٹ توڑ دئے یا اٹھا کر پھینک دئے۔ میری نظر میں جامعہ عثمانیہ کے بعد نشرگاہ حیدرآباد نہایت محترم تھی۔ دونوں نے میری ذہنی پرورش کی ، مجھے پروان چڑھایا۔
یہ میری یادوں کا مجموعہ ہے۔ سیاسی یا دوسرے واقعات کا نہیں۔ میں ایک فنکار تھا ، قلمکار ہوں ، اسلیے ہند حیدرآباد قضیے کے ضمن میں صرف وہی لکھا ہے جسے ریڈیو یا میری ذات سے کوئی نسبت ہے۔ میں نے دو ایک متنازع شخصیتوں کا ذکر خیر کیا ہے جو میرے مشاہدات کا نچوڑ ہے ، مجھے دیانت کا تقاضا پورا کرنا تھا۔ میری نظر عموماً خوبیوں پر رہتی ہے ممکنہ حد تک خرابیوں کو اگر وہ غیرمعمولی نہ ہوں تو بھلا دیتا ہوں البتہ جیسا کہ میں نے کسی دوسرے سلسلے میں کبھی لکھا تھا میرا قلم زہر کی روشنائی سے لکھنا بھی جانتا ہے۔

۔۔۔۔ دوسری تصانیف کی طرح میں نے اس کتاب کے بھی جملہ حقوق ادارۂ یادگار غالب کراچی کو دے دئے ہیں۔ اس کا سارا نفع ادارے کو ملے گا۔ ہندوستان میں کوئی ادارہ یا صاحب اسے بیگم مریم بلگرامی (روڈ نمبر 10 ، بنجارہ ہلز ، حیدرآباد - 500034) سے رابطہ قائم کیے اور اجازت لیے بغیر شائع نہیں کر سکتے۔

فقط
ظفر الحسن
یکم اگست 1977
غالب لائبریری
ناظم آباد (2) ، کراچی نمبر 18۔

"دکن اداس ہے یارو" مکمل کتاب اسکین کرلی گئی ہے اور احباب کے لیے پی۔ڈی۔ایف کتاب کا ڈاؤن لوڈ لنک پیش خدمت ہے:

نام کتاب : دکن اداس ہے یارو
مصنف : مرزا ظفر الحسن
کتاب کے صفحات : 128
پی۔ڈی۔ایف فائل صفحات : 68
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم : 14 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ لنک :
Dakan-Udas-Hai-Yaro-Memoirs-Mirza-Zafar-Ulhasan-Idara-Yadgar-e-Ghalib-Karachi-1978

جملہ حقوق بحق ادارۂ یادگار غالب محفوظ
طبع اول : جنوری 1978
تعداد : ایک ہزار
مطبع : پرنٹنگ محل ، ناظم آباد ، کراچی
قیمت : 10 روپے
کتابت : مظفر گجراتی
ناشر : ادارۂ یادگار غالب ، غالب لائبریری ، پوسٹ بکس نمبر 2268 ، ناظم آباد (2) ، کراچی نمبر 18۔

  1. یہ چار عناصر ہوں تو ۔۔۔ (مشفق خواجہ)
  2. کھوئی ہوئی یادیں (مصنف)
  3. بول کہ سچ زندہ ہے
  4. بارے اپنوں کا کچھ بیاں ہو جائے
  5. رودِ موسیٰ کے کنارے
  6. نشریات کی نیرنگیاں
  7. نیا دور
  8. حملۂ ہند
  9. دورانِ جنگ
  10. میجر جنرل میرا شاگرد
  11. وقتِ سفر یاد آیا
  12. اشاریہ

***
Rashid Ashraf
ای-میل : zest70pk[@]gmail.com
ویب سائٹ : وادئ اردو
راشد اشرف

A Review on "Deccan udaas hai yaaro" by Mirza Zafarul Hasan. Reviewer: Rashid Ashraf

3 تبصرے:

  1. اس حسن انتظام پر آپ کا شکرگزار ہوں

    راشد اشرف

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. راشد بھائی ، ہم تو آپ کے احسان مند ہیں کہ اس طرح تاریخ دکن کے نت نئے گوشے سائبر دنیا کی سرچنگ میں شامل ہوتے جا رہے ہیں۔
      اس تعاون کے لیے آپ کا بھی بہت بہت شکریہ۔

      حذف کریں
  2. تعمیر نیوز کا ایک اور تعمیری کام۔۔۔ راشد کی محنت اسی طرح سوارت ہو سکتی ہے کہ اس میں سب کو شریک کیا جائے اور یہ کام تعمیر نیوز بہترین انداز میں کر رہا ہے۔۔۔
    تمام قارئین کی جانب سے آپ کا شکر گذار ہوں۔۔۔ اور راشد کا شکریہ تو ہر دم ہے ہی۔۔۔
    خیر اندیش
    احمد صفی

    جواب دیںحذف کریں