خود آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-04-09

خود آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا

bjp-election-2014-manifesto
اب جب کہ انتخابات بالکل سر پر آچکے ہیں ، بلکہ تریپورہ اور آسام میں پولنگ کا مرحلہ مکمل ہوچکاہے ، بی جے پی نے اپنا انتخابی منشور پہلے مرحلہ کی رائے دہی سے ایک دن قبل ہی جاری کیا۔ بعض رپوٹوں کے مطابق انتخابی منشور پر 26/مارچ کی تاریخ درج ہے اور اس کی اجرائی 7/اپریل کو عمل میں لائی گئی ، کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے کے مصداق اب جب کہ انتخاب کے پہلے مرحلہ سے قبل اس منشور کی اجرائی بجائے خود بہت سے امور کو آشکارا کرتی ہے اور بی جے پی کی دوغلی پالیسی اور رویہ کو ظاہر کرتی ہے۔
ایک طرف تو اس انتخابی میں منشور میں مسلمانوں کو رجھانے اور لبھانے کے لئے مختلف قسم کے وعدے کئے گئے ہیں جن میں وقف بورڈ کوبااختیار بنانے کی بات اور موقوفہ جائیداوں پر سے ناجائز قبضوں کی برخواستگی اور مسلمانوں کی ترقی کے لئے یکساں مواقع کی فراہمی، اور اقلیتی تعلیمی نظام اور ادارہ جات کو مستحکم بنانے والی بات کہی گئی ہے تو دوسری طرف بی جے پی کے سیکولرزم چہرہ کا بھرم توڑنے والے امور بھی اس منشور میں شامل ہیں جس سے بی جے پی کا کٹر ہندو توا نظریہ واضح اور ظاہر ہوتا ہے۔ جس میں بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کاوعدہ، یکساں سول کا نفاذ، مسلم پرسنل لاء بورڈ کا خاتمہ اور کشمیر کو علاحدہ موقف دیئے جانے والے دفعہ 370 کو ختم کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ یہ بی جے پی کی دوغلی پالیسی ہے جو اسکے ہندوتوا نظریہ کو ظاہر و باہر کرتی ہے ، ایک طرف تو اس کا ہندوتوا نظریہ اور ایجنڈا اور ہندو ووٹ کے حصول کا جذبہ اسے سخت گیر ، تعصب پرست نظریہ پر گامزن کرتا ہے تو دوسرے طرف اسے مسلمانوں کے ووٹ بٹورنے کے لئے مسلمانوں کو رجھانے کو کوشش کرنی پڑتی ہے۔
اس انتخابی منشور میں رام مندر کی تعمیر اور یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی جو بات کہی گئی ہے اس کے ذریعہ تو بی جے پی کے خطرناک ہندو توا عزائم کا اظہار ہوتا ہی ہے ، جس سے ہر ہندوستانی شہری خوف زدہ اور ہراساں ہے ، خصوصاً اس قسم کے امور اظہار سے بی جے پی کے مسلمانوں کے ساتھ اور سلوک اور ان کے تئیں ملک میں امتیازی رویہ اختیار کرنے کی بو آتی ہے۔ بی جے پی کا یہ ہندوتوا ایجنڈا نہ صرف یہ کہ مسلمانوں کے لئے خطرناک ہے ؛ بلکہ ملک کے سیکولرزم کے بقاء کے لئے یہ ایک تازیانہ ہے ، خواہ راج ناتھ سنگھ مسلمانوں کی ہمدردی کے لئے اپنے مختلف مواقع سے مگرمچھ کے آنسو کیوں نہ بہائیں اور مودی مسلمانوں کی ترقی کے لئے کتنے ہی دعوے کیوں نہ کرلیں ؛ اورمرلی منوہر جوشی انتخابی منشور کی اجرائی کے دوران مسلمانوں کو لبھانے والے اسکیموں کا تذکرہ کیوں نہ چھیڑیں؛ لیکن زمینی حقیقت اور سچائی وہی ہے جو انتخابی منشور ظاہر کررہاہے۔
بی جے پی نے انتخابی منشور کی اجرائی میں تاخیر اس لئے بھی کہ اگر اس منشور کی اجرائی پہلے کی جاتی تو اس پر وہ سوالات کی گرفت میں آتی اور اس کے ناپاک عزائم کا اظہار ہوجاتا۔ بی جے پی اپنے انتخابی تشہیر کے لئے الکٹرانیک اور پریس میڈیا کا کتناہی بھر پور استعمال کیوں نہ کرلے ؛ لیکن یہ ہے کہ اس کی دال گلنے والی نہیں ، اس ہندوستان کا ہر باشندہ جمہوریت اور سیکولزم پر ایقان رکھتا ہے۔ بی جے پی نے یہاں کے ہندومسلم بھائیوں کے جذبات سے کھلواڑ کرتے ہوئے اور مذہبی منافرت کو ہوا دے کر اب تک بہت کھیل کھیل لیا ہے ، اب ملک کا ہر شہری باشعور ہو چکاہے۔ وہ مذہبی تعصب ، تنگ نظریہ سے عاجز آچکا ہے ، وہ اپنے ملک کو بدعنوانی ، مہنگائی ، غنڈہ گردی ، تعصب پرستی سے پاک دیکھنا چاہتا ہے۔
بی جے پی کے انتخابی منشور کی ہر جانب سے مذمت ہوئی ہے ، اس کو ملک کے حق میں نہیں ؛ بلکہ ملک مخالف ایجنڈاقرار دیاہے جس سے ملک میں مذہبی ہم آہنگی کو ٹھیس پہنچ سکتی ہے ، جس سے ملک منافرت کی آگ میں جھلس سکتا ہے۔ بلکہ بعض حضرات نے تو بی جے پی کے اس انتخابی منشور پر پارٹی کے خلاف سخت کاروائی کی بات تک کہہ دی ہے۔ اس انتخابی منشور پر کانگریس نے جو تبصرہ کیا ہے ،وہ بھی قابل توجہ ہے: "اقلیتوں کے لئے بی جے پی کے فلاحی پرواگرام ایسے ہیں جسے کسی آدم خور و بلڈ بینک کا نگراں بنایا جائے"۔
بی جے پی ایک طرف مسلمانوں سے انتقام لینے اوران کو سبق سکھانے کی بات کرتی ہے اور دوسرے طرف انہیں خوشنما اور دل لبھانے والے فلاحی پروگراموں کی پیشکش کی جاتی ہے ، یہ پارٹی کی کھلی منافقت ہے ، کانگریس کی صدر سونیا گاندھی نے انتخابی منشور پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ : بی جے پی کے منشور میں متنازعہ ہندوتوا ایجنڈا کی شمولیت ملک کی سالمیت اور اتحاد کے لئے بہت بڑا خطرہ بن گیاہے۔
سینئر کانگریس لیڈر ڈگ وجئے سنگھ نے کہا ہے کہ بی جے پی سیاسی مفادات کے لئے مذہب کا استحصال کررہی ہے۔
بائیں بازو جماعتوں کے رہنماؤں نے بھی ہندو ووٹ بنانے کے لئے رام مندر کا مسئلہ اٹھانے پر بی جے پی کی مذمت کی ، سیتارام پچوری نے کہاہے کہ : بی جے پی کے عزائم کھل کر سامنے آگئے ہیں، اور ہندو توا ایجنڈا کو اولین ترجیح حاصل ہوگئی ہے۔
کل ہند مجلس مشاورت کے صدر ظفر الاسلام خان نے بی جے پی کے انتخابی منشور میں ہندو ایجنڈا کے احیاء کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ عوام بی جے پی کو ہر قیمت پر شکست دینے کی کوشش کریں۔ انہوں نے سیکولر عوام سے اپیل کی کہ وہ عام آدمی یا کانگریس کے امیدواروں کو منتخب کریں ، اگر سیکولر ووٹ منقسم ہوجاتے ہیں تو ایسی طاقتوں کو اقتدار حاصل ہوگا جو اقلیتوں کو سیاست اور ترقی سے دور رکھنا چاہتے ہیں۔
کانگریس کے سینر لیڈر جئے رام رمیش نے کہا کہ : در اصل نریندر مودی کو وزیر اعظم بناتے ہوئے آر یس یس عملا اقتدار حاصل کرنے کی کوشش میں ہے ، ایک ثقافتی تنظیم ہونے کا دعوی محض ایک ڈھکوسلہ ہے ، مودی کو کامیاب بنانے کے لئے آر ایس ایس رائے دہندوں کو مذہبی خطوط پر تقسیم کر رہی ہے ، گجرات کے بعد مظفر نگر میں فساد اس کا دوسرا تجربہ تھا،یہ محض فلم کی تمہید ہے ، حقیقی فلم انتخابات کے بعد شروع ہوجائے گی۔ بنارس سے نریندر مودی کو امیدوار بنایا جانا بے معنی نہیں ، بلکہ اس کے دور رس اثرات مرتب ہوگے۔ آر یس یس کے کارکن کھلے عام ہندو توا کا پرچار کر رہے ہیں ، آر یس یس نے دو رخی حکمت عملی اختیار کی ہے ، ایک طرف نریندر مودی کو نمایاں کرتے ہوئے وہ ان کے نام پر ووٹ مانگ رہی ہے ، اور دوسری طرف مذہبی خطوط پر ووٹروں کو تقسیم کیا جارہاہے ۔ اس کی مثال مظفر نگر میں امیت شاہ کے بیان سے واضح ہوتی ہے۔ آر یس یس ، وی ایچ پی کے ہزاروں لاکھوں کارکن اتر پردیش اور پورے ملک میں زبر دست مہم چلارہے ہیں ؛ تاکہ فرقہ وارانہ منصوبوں پر عمل کیا جاسکے۔

کوبراپوسٹ کے انکشاف کے مطابق بابری مسجد کی شہادت میں بی جے پی براہِ راست ملوث رہی ہے اور اس نے ہی بابری مسجد کی شہادت کے لئے منصوبہ سازی کی تھی ، کارکنان کو تربیت فراہم کی تھی۔ نیوز پورٹل کوبرا پوسٹ نے 23 لیڈران کے اقبالی بیان لئے ہیں جس سے بی جے پی کے راست بابری مسجد کی شہادت میں ملوث ہونا معلوم ہوتا ہے۔ حالانکہ انہوں نے سپریم کورٹ میں حلف نامہ لیا تھا کہ بابری مسجد شہید نہیں کی جائے گی ؛ لیکن انہوں نے سپریم کو رٹ کو دھوکہ دے کر بابری مسجد کو شہید کردیا۔
مودی کے بحیثیتِ وزیر اعظم انتخاب کے سلسلے میں برطانوی فنکار انیش کپور کا بیان بھی قابل توجہ ہے ، انہوں نے کہا ہے کہ : اس عہدہ کے لئے ایسے شخص کا انتخاب گویا تمام ہندوستانیوں کے اخلاقی زوال اور بی جے پی کی قیادت کا دیوالیہ پن ہے۔ ہندوستان کا وجود سیکولزم کی بنیاد پر ہی قائم رہ سکتا ہے ، انہوں نے مزید کہا کہ : مودی کا کردار بڑا داغدار ہے، وہ موت کا کھیل کھیلنے پر یقین رکھتے ہیں ، وہ ایک جرائم پیشہ مجرم ہیں ، جن کے مقدمات عدالتوں میں زیر دوراں ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندوستان میں بے شمار مسائل ہیں ؛ لیکن یہ مسائل اس طرح حل نہیں ہوسکتے کہ ملک کی قیادت ایسے لیڈر کے حوالے کی جائے جو اخلاقی طور پر نہایت پست ہو اور جس کا کوئی کردار نہ ہو ۔

الغرض بی جے پی نے اپنے انتخابی منشور کے ذریعے اپنے ناپاک عزائم کا اظہار کر کے خود اپنے زوال کی تاریخ لکھنی شروع کردی ہے ۔اپنے پیروں پر خود کلہاڑی ماری ہے ،خواہ بی جے پی کتنی ہی تشہیری مہم چلا لے جب تک وہ اپنے آپ کو سیکولر کردار میں نہیں ڈھال لیتی اس وقت تک اس کے عزائم اور ارادوں کی تکمیل نہیں ہوسکتی ۔
اس لئے ملک کے ہر سیکولر شہری کو چاہئے کہ وہ تمام احوال اور ملک کے بقاء اور تحفظ اور ملک کی جمہوریت اور سیکولر کردار کو ذہن میں رکھتے ہوئے اپنے ووٹ کا استعمال کرے۔ فرقہ واریت اور نفرت کو آگ کو ہوا دینے والوں کے ہاتھ ملک کی قیادت کو سونپنا در اصل ملک کے ساتھ غداری اور بے وفائی کا ثبوت فراہم کرنا ہے۔
جبکہ اپنے ملک کا تحفظ ، ملک کی سالمیت اورملک کا اتحاد ملک کے ہر باشندے کا خواب ہونا چاہئے ۔

***
مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی ، وادی مصطفی شاہین نگر ، حیدرآباد۔
rafihaneef90[@]gmail.com
رفیع الدین حنیف قاسمی

BJP's Election-2014 Manifesto, the dual standard. Article: Rafi Haneef

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں