کرناٹک - مختلف شعبوں میں خالی اسامیاں - ایس ڈی پی آئی کا احتجاج - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-03-05

کرناٹک - مختلف شعبوں میں خالی اسامیاں - ایس ڈی پی آئی کا احتجاج

ریاست کرناٹک میں مختلف شعبوں میں خالی پڑے 1لاکھ 80ہزار سرکار ی خالی عہدوں کو بھرتی کرنے کے مطالبہ کو لیکر ایس ڈی پی آئی کا احتجاجی مظاہرہ
بنگلور
( پریس ریلیز)
سوشیل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا نے کل یہاں بنگلور ٹاؤن ہال کے قریب ایک احتجاجی مظاہرے کا انعقاد کیا۔ اس احتجاجی مظاہرے میں شریک عوام اور کارکنان سے خطاب کرتے ہوئے ایس ڈی پی آئی کے ریاستی صدر عبدالمجید نے کہا کہ ریاست کر ناٹک میں سن 2008میں جب بی جے پی کی حکومت قائم ہوئی، اس وقت بی جے پی نے پانچ سال کے اپنے دور اقتدار میں کرناٹک کو تین وزیر اعلی دیئے تھے۔ ان کی آپسی رنجش اور لڑائی، اقتدار کی بھوک، کرپشن، لینڈ مافیا، غیر قانونی کانکنی ، فرقہ واریت، جاتی واد، اقربا پروری ، اور اقتدار کا غلط استعمال کرنے کی وجہ سے کئی وزراء جیل بھی گئے تھے ۔ بی جے پی کی حکومت سے بیزار ہوکر عوام نے اس کے بعد کے الیکشن میں کانگریس کے حق میں ووٹ دیکر اسے اقتدار پر بٹھایا ، بی جے پی کو اقتدار سے بے دخل کرنے اور کانگریس کواقتدار میں بٹھانے میں نوجوانوں کے ووٹ نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ کانگریس حکومت نے ہی عوام کو معلومات فراہم کی تھی کہ ریاست کرناٹک کے 60سے زائد محکموں میں تقریبا 1.80لاکھ سرکاری منظور شدہ نوکریاں خالی پڑی ہوئی ہیں اور اس کے علاوہ 5تا 6ہزار بقایا خالی عہدوں کو پر نہیں کیا گیا ہے۔ ان تمام خالی عہدوں کو بروقت پر نہ کرنے کی وجہ سے نوجوان طبقہ انتہائی متاثر ہوا ہے۔ اس کے علاوہ حکومت کی جانب سے حیدر آبار ۔ کرناٹک ،خصوصی حیثیت ، آرٹیکل371J، پر عمل در آمد کرنے میں تاخیر کرنے کی وجہ سے بے روزگار نوجوان غم و غصے میں مبتلا ہیں۔ایک اور افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ وزیر اعلی سدرامیا کے جنتا درشن میں زیادہ تر ملازمت کے تعلق سے درخواست نامے موصول ہو رہے ہیں۔ چونکہ اب قومی سیاسی پارٹیاں ، اراکین اسمبلی، اور وزراء غیر قانونی طور پر حاصل کئے گئے دولت کی حفاظت میں مصروف ہیں۔ اور اقتدارمیں آنے کے بعد سے حکمران جماعت کا نگریس اور حزب اختلاف پارٹی جے ڈی ایس نوجوانوں کے مخصوص مسائل کو حل کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہیں۔ ہمارے ملک میں 15-35سال کے عمر کے تقریبا 40کروڑ نوجوان موجود ہیں۔ ایک نوجوان کا مستقبل اس کے ملک کے مستقبل کے ساتھ ساتھ بنایا جاتا ہے۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے ایس ڈی پی آئی کے ریاستی جنرل سکریٹری عبدالحنان نے کہا کہ ملک اور ریاست کی سیاست ، اقتصادی، مالیاتی، ترقی، امن اور ہم آہنگی،تعلیم، ثقافت، مذہب کی آزادی، جیسے علامات نوجوانوں کے مستقبل کو تابناک بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ ہندوستانی معاشرہ امتیازی سلوک ، توہم پرستی، اور امتیازی اصول ،صحیح فیصلے کا فقدان، جاتی واد، نا خواندگی، بے روزگاری،سماجی عدم تحفظ، کرپشن ، بلا روک ٹوک بھیک مانگنا، جسم فروشی، مفاد پرست سیاست اور بدعنوانی کے غبار سے اٹا ہوا ہے۔جبکہ حکومت کی جانب سے بنیادی اور اعلی تعلیم کو مفت طور پر فراہم کیا جارہا ہے، لیکن اس کے باوجود بھی ایسی صورتحال موجود ہے کہ LKGاورUKGمیں بچوں کو داخلہ دلوانے کے لیے لاکھوں روپے عطیہ جات کے طور پر دینا پڑرہا ہے۔ایس سی /ایس ٹی طبقہ، پسماندہ طبقہ اور اقلیتی طبقہ کو اعلی تعلیم حاصل کرنا انتہائی نا قابل برداشت اور ناممکن بن گیا ہے۔ غریب طبقے کے صرف 10فیصد بچوں کو ان کے صلاحیت کی بنیاد پر اعلی تعلیم حاصل کرنا ممکن ہوتا ہے۔ بڑی تعداد میں والدین اپنے بچوں کو معیاری تعلیم دلانے کے لیے اپنی پوری زندگی کی قربانی دے دیتے ہیں۔ عام طور پر والدین کا خواب ہوتا ہے کہ ان کے بچے اعلی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اچھی ملازمتیں حاصل کرکے ان کے گھر کی روزی روٹی کے مسائل حل کریں گے اور خاندان کی غریبی دور کریں گے۔یڈیورپا کی قیادت والی سابقہ بی جے پی حکومت نے ریٹائرمنٹ کے عمر کی حد کو 58سے 60سال اضافہ کرکے تعلیم یافتہ بے روزگار نوجوانوں کے روزگار مواقع چھین لیا ہے۔یڈیورپا کی اقربا پروری کی وجہ سے تمام طبقات کے ساتھ نا انصافی ہوئی، نوجوانوں نے ان کے ساتھ ہوئے نا انصافی کو نہیں بھولا اور تعلیم یافتہ بے روزگار نوجوانوں نے بی جے پی حکومت کو حالیہ اسمبلی الیکشن میں اقتدار سے بے دخل کرکے اس کا جواب دیدیا ۔وجئے وانی اخبار میں مورخہ 5جنوری 2014 ایک خبر کے مطابق، کانگریس حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ کسی بھی محکمہ میں نئے تقررات نہیں کئے جائیں گے، نیز معیشت کی ترقی پر بھی توجہ مرکوز نہیں کیا جائے گا۔ جس کی وجہ سے بے روزگار نوجوان سخت تشویش میں مبتلا ہیں۔ اگرکانگریس حکومت اپنے فیصلے کو عملی جامہ پہنائی گی تو اس میں شک نہیں کہ آنے والے پارلیمانی انتخابات میں عوام یقینی طور پرکانگریس کو سبق سکھائیں گے۔ کانگریس پارٹی 2008کے انتخابات کے مقابلے میں حالیہ انتخابات میں صرف 2%فیصد اضافی ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ کانگریس پارٹی کی ہمیشہ یہی عادت رہی ہے کہ وہ وعدہ تو کردیتی ہے لیکن ان وعدوں کو پورا نہیں کرتی ۔ریاست کرناٹک کے 224اراکین اسمبلی کے لیے یہی صحیح موقع ہے کہ و ہ بے روزگار نوجوانوں کے معاملہ میں فوری طور پر مداخلت کریں اور کوشش کریں کہ مختلف محکموں میں موجود خالی عہدوں کو کس طرح بھرتی کیا جاسکتا ہے۔ جہاں تک عوامی نمائندوں کا سوال ہے وہ ماہا نہ 20ہزار روپے تنخواہ ، ٹیلی فون بل کے لیے 15ہزار روپے، ڈاک خرچ کے لیے 5ہزار روپے، روم بوائے کے تنخواہ کے لیے 10ہزار روپے،انتخابی حلقہ کے سفر کے اخراجات کے لیے 25ہزار روپے، دیگر سفر کے لیے فی کیلو میٹر 20روپے، ٹرین اور فلائٹ کے ذریعے سفر کرنے کے لیے سالانہ 2لاکھ روپے، اس کے علاوہ 7% سود کے حساب سے ایک رکن اسمبلی کو گاڑی خریدنے کے لیے 15لاکھ روپے کی پیشگی رقم کے طور پر حاصل کرتے ہیں۔ ایس ڈی پی آئی کو فی الحال اراکین اسمبلی کی عیش و عشرت کی زندگی اور عوام کی جانب سے ادا کی جانے والی ٹیکس کی رقم سے بھاری رقم خرچ کرنے پر کوئی اختلاف نہیں ہے۔ ایس ڈی پی آئی مطالبہ کرتی ہے کہ سب سے پہلے1.81لاکھ سرکاری عہدوں کو بھرتی کیا جائے، اور 5-6ہزار کے بقایا خالی عہدوں کو ترجیحی بنیاد پر بھرتی کیا جائے۔ مذکورہ مطالبات کو پورا کرکے ہی کانگریس حکومت جمہوریت کے اقدار اور سماجی انصاف کے تقاضوں کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہوسکتی ہے۔اس احتجاجی مظاہرے میں بنگلور ضلعی صدر فیاض احمد، رکن قومی ورکنگ کمیٹی محمد ثاقب، سمیت سینکڑوں کارکنان شریک رہے، مظاہرے کے اختتام کے بعد ایس ڈی پی آئی کی ایک وفد نے ریاستی گورنر کو ریاست کرناٹک کے اس اہم مسئلے کے تعلق سے ایک میمورینڈم پیش کیا۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں