تاریخ و ادب کا باہمی رشتہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-03-26

تاریخ و ادب کا باہمی رشتہ

literature-history
تاریخ نویسی ایک فن ہے اور دیگر فنون کی طرح اس فن کے حوالے سے بھی اس کے محقیقین و مورخین کے یہاں اس فن کی تعریف، اس کی ضرورت اور اس کے فوائد اور تاریخ کے ماخذ سے متعلق مکمل بحث ملتی ہے۔ اس موضوع کی بنیادوں کتابوں میں تاریخ ابن خلدون، تاریخ فرشتہ، بغداد کا نام خصوصیت سے لیا جاتا ہے۔ اس میں اس کی پوری تفصیل دیکھی جاسکتی ہے۔ یہاں بطور اختصار فن تاریخ سے متعلق مفکرین کے بعض نظریات اور اس کا خلاصہ پیش ہے۔

علم تاریخ کی تعریف میں مفکرین کا اختلاف پایا جاتاہے، چنانچہ کسی نے کہا کہ انسانوں کو یکجا ہوکر رہنے کو تمدن، اس انسانی مجمع کو مدینہ، اس مختلف حالتوں کو جو طبعا اس کو عارض ہوں واقعات اور پچھلوں کو پہلوں سے کس کو واقعات کو اکٹھا کرنے اور اپنے سے پیچھے آنے والوں کی عبرت اور نصیحت کیلئے بطور نمونہ چھوڑ جانے کا تاریخ کہتے ہیں، لیکن سب سے بہتر تعریف یہ ہے کہ علم تاریخ اصطلاحاً اس علم کو کہتے ہیں جس کے ذریعہ بادشاہوں، فاتحوں اور مشہور شخصیتوں کے حالات و واقعات وغیرہ معلوم ہوسکیں اور جو زمانہ گذشتہ کی معاشرت، اخلاق اور تمدن وغیرہ سے واقفیت کاذریعہ بن سکے۔ یعنی بطور خلاصہ ہم کہہ سکتے ہیں بقید وقت حالات، اخبار لکھے جانے کو تاریخ کہتے ہیں۔

ادب کیا ہے اس کی ابتداء کب سے ہے انسانی زندگی کا سے اس کا کیا تعلق ہے۔ سماج میں اس کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں اور ارباب فکر وادب نے اسے کن نگاہوں سے دیکھاہے۔ اس پر تفصیل سے گفتگو ہوسکتی ہے۔ بلکہ ارباب ادب نے کی بھی ہے یہاں تفصیل سے گریز کرتے ہوئے ہم صرف اس تعلق سے گفتگو آگے بڑھاتے ہیں کہ آخرتاریخ کا ادب سے کیا رشتہ ہے اور کیا جس طرح تاریخ، انسانی ذہن، افسانی فکر اور سماج پر اثرات مرتب کرتی ہے، اسی طرح ادب بھی انہیں عوامل و اثرات سے کام لیتا ہے۔ اس سلسلہ میں سب سے جچی تلی اور پختہ بات کہی مجنوں گورکھپوری نے کہی کہ :
"ادیب کوئی راہب یا جوگی نہیں ہوتا، اور ادب ترک یا تپسیا کی پیدوار نہیں ہے۔ ادب بھی اسی طرح ایک مخصوص ہےئت اجتماعی، ایک خاص نظام تمدن کا پروردہ ہوتاہے۔ جس طرح کہ کوئی دوسرا فرد اور ادب بھی براہ راست ہماری معاشی اور سماجی زندگی سے اُسی طرح متاثر ہوتا ہے جس طرح ہمارے دوسرے حرکات وسکنات۔ ادیب کو خلاق کہا گیا ہے لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ وہ قادر مطلق کی طرح صرف ایک 'کُن' سے جو جی چاہے اور جس وقت جی چاہے پیدا کرسکتا ہے۔ شاعر جو کچھ کہتا ہے اس میں شک نہیں کہ ایک اندرونی اُپچ سے مجبور ہوکر کہتا ہے جو بظاہر انفرادی چیز معلوم ہوتی ہے۔ لیکن دراصل یہ اُپچ اُن تمام خارجی حالات و اسباب کا نتیجہ ہوتی ہے جس کو مجموعی طورپر تمدن یا ہےئت اجتماعی کہتے ہیں۔ شاعر کی زبان الہامی زبان مانی گئی ہے۔ مگر یہ الہامی زبان درپردہ زمانہ اور ماحول کی زبان ہوتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو تاریخ ادب کی اصطلاح کے کوئی معنی نہ ہوتے۔ جرمنی کے مشہور فلسفی ہیگل نے فلسفے کو تاریخ مانا ہے۔ یعنی فلسفہ نام ہے انسان کے خیالات و افکار کے آگے بڑھتے رہتے اور زمانے کے ساتھ بدلتے رہنے کا۔ اسی طرح ادب بھی تاریخ ہے جس میں کسی ملک یا کسی قوم کے دور بہ دور بدلتے ہوئے تمدن کی مسلسل تصویریں نظر آتی ہیں۔ البتہ اس کیلئے دیدۂ بینا درکار ہے۔ فنون لطیفہ بالخصوص ادیبات کسی نہ کسی حد تک قوموں کے عروج و زوال کا آئینہ ضرور ہوتے ہیں۔ "

تاریخ و ادب کی اس گفتگو کے بعد اب بظاہر یہ کہنے کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی ہے کہ دونوں کے مابین کیا رشتہ ہے۔ کیونکہ بار بار یہ بات دہرائی جاچکی ہے کہ ادب اپنے عہد کے ماحول، تہذیب طرز معاشرت اور طرز زندگی کی ترجمانی کا نام ہے۔ ہم جس عہد کا ادب پڑھتے ہیں گویا ہم اس عہد کی تاریخ پڑھتے ہیں مثلا:
مرثیہ ایک صنف ہے اور اس میں شہید کربلا حضرت امام حسین اور ان کے جملہ رفقاء و احباب کی شہادت کے احوال اور اسیران کربلا کی اسیری کی کیفیات شاعرانہ انداز میں بیان ہوتی ہیں۔ اس سلسلہ میں انیس و دبیر کے مراثی حوالے کیلئے بہت کافی ہیں۔ اس سے انکار نہیں کہ ان مراثی میں مبالغہ سے بھی کام لیا گیا ہے لیکن مبالغہ بھی کسی بنیاد ہی پر ہوتاہے۔ بہرحال وہ واقعات تاریخی ہیں، انداز پیشکش مبالغہ آمیزہے گویا ادب کی یہ صنف ادب ہوتے ہوئے بھی ایک گونہ تاریخ ہے۔

شاہنامہ کی اپنی ایک شان ہے۔ ہمارے سامنے مختلف عہد کے شاہنامے ہیں ان میں شاہنامہ اسلام کو جو مقام و مرتبہ حاصل ہے اس سے کون انکار کرسکتا ہے۔ حفیظ جالندھری ایک بڑے شاعر تھے، غزل کہتے تھے لیکن غزل نے انہیں وہ زندگی نہیں دی جو شاہنامہ اسلام نے نے دی۔ شاہنامہ اسلام اسلامی تاریخ کا وہ لازوال ومقبول منظوم گلدستہ ہے جس نے وجود میں آنے کے بعد ہر زمانے کے قاری کو اپنا اسیر بنائے رکھا۔ ظاہر ہے شاعری نے اسے ادب کا کہا ہے اور موضوع نے اسے تاریخ کا نام دیا ہے۔ گویا یہاں ادب اور تاریخ باہم گلے مل رہے ہیں۔ قدیم شاہوں سے منسوب قصائد آج بھی پڑھے پڑھائے جاتے ہیں۔ بتایا جائے کہ قصیدہ اگر شاعری کی ایک صنف ہے تو موضوع کے اعتبار سے اس کا رشتہ تاریخ سے جڑا ہوا نہیں ہے؟ افسانہ ادب کی ایک صنف ہے بعض ادباء نے تاریخی واقعات کو افسانوی انداز میں بیان کرنے کا کامیاب سلسلہ شروع کیا جن میں خواجہ حسن نظامی، ماہر القادری اور علامہ ارشد القادری کا نام سرفہرست ہے۔ ظاہر ہے ہےئت کے اعتبار سے یہ ادب ہے لیکن موضوع کے اعتبار سے یہ تاریخ ہے۔

اب صرف ایک بات رہ جاتی ہے کہ کیا اثر ڈالنے میں ادب اور تاریخ دونوں کا کردار یکساں ہے؟ اور دونوں اس معاملہ میں یکساں مقام رکھتے ہیں۔ جواب یقیناً ہاں میں ہوگا کیونکہ ہمارے سامنے تاریخ کے ایسے شواہد موجود ہیں جس سے اثر اندازی میں دونوں کی یکسانیت کا اظہار ہوتا ہے۔ ہم دور نہ جاکر صرف یہ یادکریں کہ کیا یہ واقعہ نہیں کہ جنگ آزادی میں ادبی شاعروں نے ہندوستانیوں کے سرد لہو کو شعلہ فشاں بنادیا تھا اور وہ ان کے ترانے سن کر اپنے وطن عزیز کی آزادی کیلئے آہنی تلوار بن کر غاصب انگریزوں کے سامنے ڈٹ گئے تھے۔ اگر جنگ آزادی میں ترانہ آزادی نے ہندوستانیوں کا خون گرمایا تھا تو یہ بھی واقعہ ہے کہ تاریخ اپنے خاندان کی ہویا اپنے ملک کی، اسلامی ممالک کی ہویا اسلامی روایات کی اس کو پڑھ کر خون تو جوش مارتا ہی ہے، جذبے تو بیتاب ہوتے ہی ہیں اور جوش جنوں کچھ کر زرنے کیلئے آمادہ عمل تو کرتا ہی ہے۔ حاصل یہ کہ تاریخ و ادب کے مابین گہرا رشتہ ہے اور یہ رشتہ مختلف نوعیتوں کا ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔

The relationship of History & Literature. Article: Dr. Mirza Saba Alam Baig

1 تبصرہ: