مولانا آزاد اردو یونیورسٹی میں خواجہ احمد عباس صدی تقاریب - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-03-26

مولانا آزاد اردو یونیورسٹی میں خواجہ احمد عباس صدی تقاریب

MANUU-Khwaja-Ahmed-abbas-centenary
خواجہ احمد عباس سماج کے ہارے ہوئے افراد کی آواز تھے
ان کا ادب، صحافت اور فلمیں بھی اسی کی عکاس ۔ اردو یونیورسٹی میں خواجہ احمد عباس صدی تقاریب سے ڈاکٹر عزیز قریشی و ڈاکٹر سیدین حمید کے خطاب

خواجہ احمد عباس کی ساری زندگی ایک جدوجہد تھی۔ یہ وہ جدوجہد تھی جو انہوں نے پرانے اور فرسودہ نظام کے خلاف اور نئے نظام کے حق میں اپنی خدمات سے جاری رکھیں۔ جہاں بھی اور جس سماج میں بھی انسان ہاررہا تھا وہاں خواجہ عباس نے اپنی جدوجہد سے اُس انسان کی مدد کی۔ اِن خیالات کا اظہار ڈاکٹر عزیز قریشی عزت مآب گورنر اتراکھنڈ نے' خواجہ احمد عباس: ایک افسانوی شخصیت اور اُن کی وراثت' پر دو روزہ صدی تقاریب کے افتتاحی اجلاس سے مولانا آزاد نیشنل اُردو یونیورسٹی کے ڈی ڈی ای آڈیٹوریم میں آج بحیثیت مہمان خصوصی کیا۔ تقریب کا انعقاد شعبہ ترسیل عامہ و صحافت ، اُردو یونیورسٹی اور 'کے اے عباس صدی تقریب کمیٹی نئی دہلی ' نے مشترکہ طور پر کیا۔ تقریب کی صدارت ڈاکٹر خواجہ محمد شاہد، پرو وائس چانسلر نے کی جبکہ ڈاکٹر سیدہ سیدین حمید، چانسلر نے کلیدی خطبہ دیا۔ اِس موقع پر ڈاکٹر سیدہ سیدین حمید و عفت فاطمہ کی کتاب "Khwaja Ahmed Abbas: Bread, Beauty & Revolution" (خواجہ احمد عباس: روٹی، حسن اور انقلاب) اور پروفیسر صغرا مہدی کی کتاب 'اگر مجھ سے ملنا ہے' کے علاوہ شعبہ ترسیل عامہ وصحافت کے لیب جرنل 'اظہار' کی رسم اجرائی انجام دی گئی ۔ عزت مآب گورنر نے اپنی تقریر کا آغاز حیدرآباد کے مشہور شاعر مخدوم محی الدین کے اشعار سے کیا۔ انہوں نے کہا کہ خواجہ احمد عباس نے مہاتما گاندھی اور پنڈت جواہر لعل نہرو کح کارناموں کا باریک بینی سے مشاہدہ کیا ہے اور اُن دونوں شخصیات سے کافی متاثر بھی تھے۔ قریشی صاحب نے کہا کہ خواجہ عباس کے حوالے یہ بات کہی کہ سماج میں آج بھی دو گونج سنائی دیتی ہے۔ ایک باپو کی ہے رام اور پستول کی تین گولیوں کی آواز۔ نئی نسل کو اس بات کا فیصلہ کرنے ہے کہ وہ گولیوں کی آواز کے ساتھ جانا چاہے گی یا پھر بابائے قوم کی آواز کے ساتھ۔ انہوں نے کہا کہ اُن تین گولیوں کی آواز آج بھی سماج میں گونج رہی ہے ۔ عزت مآب گورنر نے آگے چل کر کہا کہ خواجہ عباس پنڈت جواہر لعل نہرو کو اپنا ہیرو مانتے تھے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ خواجہ احمد عباس نے کبھی اپنے اصولوں سے سمجھوتہ نہیں کیا۔ اِس حوالے سے قریشی صاحب نے اُن کی ایک فلم کا تذکرہ بھی کیا جس کا دوردرشن پر پریمیئر دکھانے کے عوض رشوت مانگی گئی تھی اور اُنہوں نے رشوت دینے سے انکار کردیا تھا۔ قریشی صاحب نے کہا کہ خواجہ احمد عباس ساری زندگی اپنے خوابوں کو شرمندۂ تعبیر کرتے رہے۔ جن خوابوں کی تعبیر وہ نہ کرسکے اس کی ذمہ داری انہوں نے نئی نسل پر چھوڑ دی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج دنیا کے بہت سارے ممالک میں لوگ حقوق کیلئے جدو جہد کر رہے ہیں۔ فلسطین میں لوگوں پر ظلم ڈھایا جارہا ہے۔ افریقہ اور ایشیائی ممالک میں بھی لوگ اچھی زندگی جینے کی جنگ لڑرہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ لوگوں کو عزت کی زندگی جینے کو ملے، یہی خواجہ عباس کے خوابوں کی تعبیر ہے۔ ڈاکٹر سیدہ سیدین حمید، چانسلر نے اپنے کلیدی خطبہ میں کہا کہ ڈاکٹر عزیز قریشی نے ہی خواجہ احمد عباس کی یاد میں 'صدی تقریب کمیٹی' کی بنیاد ڈالی ہے اور خود اِس کے روح رواں بھی ہیں۔ ڈاکٹر سیدہ حمید نے اپنے طویل خطاب میں خواجہ احمد عباس کی سوانح عمری، کتابوں اور اخبارات کے حوالوں سے اُن کی زندگی پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ خواجہ عباس اپنی سوانح عمری میں لکھتے ہیں کہ "میں پیدا ہونے سے پہلے ہی پیدا ہوچکا تھا"۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ علم و ادب خواجہ احمد عباس کو وراثت میں ملا تھا۔ ڈاکٹر سیدہ حمید نے کہا کہ خواجہ صاحب سامراجیت کے بالکل خلاف تھے۔ اُن کے دل میں انگریزوں کے تئیں جو غصہ تھا وہ بھی اُن کو ورثے میں ملا تھا۔ انہوں نے کہا کہ بحیثیت مرسل خواجہ عباس صاحب نے کہا "مجھے کچھ کہنا ہے" ناولوں، افسانے، فلموں اور صحافتی کالموں سے مرسل الیہ تک پہنچایا۔ انہوں نے کہا کہ خواجہ عباس نے تقریباً 90 کے قریب مختصر کہانیاں لکھی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ خواجہ صاحب لکھتے ہیں کہ' میں کہانی ایک ماہر گھڑی ساز کی طرح لکھتا ہوں۔ میں کبھی پیسوں کیلئے نہیں لکھتا ہوں اور میں اُس کہانی کو لکھتا ہوں جو مجھے مجبور کرتی ہو کہ مجھے لکھو۔' خواجہ احمد عباس کی فلمی زندگی پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر سیدہ حمید نے کہا کہ اُنہوں نے اپنا فلمی کیرئیر ممبئی کرانیکل میں بحیثیت ناقد کیا اور بعد ازاں کئی ایک فلمیں بنانے کے بعد 'نیا سنسار' کے نام سے اپنی کمپنی کھولی۔ انہوں نے کہا کہ اگر یہاں اپنے ملک میں کچھ فلمیں نہیں چل پائیں تاہم بین الاقوامی سطح پر اُن فلموں کو غیر معمولی داد حاصل ہوئی۔ یونیورسٹی چانسلر نے یہ بھی کہا کہ خواجہ صاحب 'فلم انڈسٹری' لفظ سے نفرت کرتے تھے کیونکہ اُن کا کہنا تھا کہ اِس نام سے یہ صنف کارخانہ میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اُن کی ناول "انقلاب" کا کئی زبانوں میں ترجمہ ہوا اور کئی ملکوں میں شائع ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ افسوس کی بات یہ ہے کہ اُن کی ناول کو اُن کے ملک میں اُن کی اپنی چہیتی زبان میں کوئی شائع کرنے کیلئے راضی نہیں ہوا اور بعدازاں انہیں تنگ دستی کے باوجود اپنا سرمایہ خرچ کرکے اُس کو شائع کروانا پڑا تھا۔ انہوں نے کہا کہ خواجہ احمد عباس ہی وہ شخصیت ہیں جنہوں نے مشہور فلم سٹار امیتابھ بچن کو فلموں میں پہلی بار "سات ہندوستانی" فلم میں موقع دیا۔ انہوں نے کہا کہ 16 جنوری 2014 کو ممبئی میں امیتابھ بچن نے خواجہ عباس کے نام سے ایک ایوارڈ دینے کا اعلان کیا اور اس کا پہلا حقدار فلم "شاہد" بنی۔ پرو وائس چانسلر ڈاکٹر خواجہ محمد شاہد نے صدارتی خطاب میں کہا کہ خواجہ احمد عباس انسانیت کے علمبردار تھے اور ملک کی آزادی کی جنگ میں پیش پیش رہے۔ انہوں نے کہا کہ خواجہ صاحب اُن شخصیات میں شامل ہیں جنہوں نے ایک خاص انداز سے ملک، مظلوموں اور بے سہاروں کی خدمت کی۔ ڈاکٹر محمد شاہد نے 'صد سالہ تقریبات کمیٹی' کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے اُردو یونیورسٹی کو اِس تقریب کیلئے منتخب کیا۔ انہوں نے تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے ملک کے مختلف حصوں سے آکر تقریب میں شرکت کی۔ پروفیسر ایس اے وہاب قیصر ، انچارج ڈین ایم سی جے نے خیر مقدم کیا اور مہمانوں کا تعارف پیش کیا۔ ڈاکٹر ابوالکلام صدر شعبہ اُردو نے اجراء کی گئی کتابوں کا تعارف پیش کیا جبکہ اسسٹنٹ پروفیسر مطالعات نسواں ڈاکٹر آمنہ تحسین نے نظامت کے فرائض انجام دیئے۔ پروگرام کا آغاز ایم فل اسکالرمحمد عدنان کی تلاوت کلام پاک و ترجمانی سے ہوا۔ ڈاکٹر احتشام احمد خان، صدر شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت نے شکریہ ادا کیا۔ اس موقع پر پروفیسر صغرا مہدی، سابق صدر شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی کے سانحۂ ارتحال پر انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے دو منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی۔ پروگرام کے دوسرے حصہ کے طور پر ہماری اردو محبت کے زیر اہتمام"دی مین ہو سا ٹومارو" کے زیر عنوان خواجہ احمد عباس کے حالات زندگی پر مبنی ایک آڈیوویژول پروگرام پیش کیا گیا جس کا کانسپٹ و اسکرپٹ محترمہ ذکیہ ظہیر کا تھا۔ جبکہ جناب ہرش کپور اس کے ٹیکنیکل ڈائرکٹر تھے۔ اس پروگرام میں محترمہ ذکیہ ظہیر اور ڈاکٹر سیدہ سیدین حمید، رینی سنگھ اور رضا مہدی نے حصہ لیا۔ 3:30 بجے دن جناب سدھاکر واجا کی جانب سے خواجہ احمد عباس کی فلموں پر کولاج پیش کیا گیا۔ شام 7:30 بجے "یو وِل کم بیک باپو" کے زیر عنوان ڈرامہ پیش کیا گیا جسے پیریٹس ٹروپ، نئی دہلی نے پیش کیا۔جس کی کہانی و اسکرپٹ: خواجہ احمد عباس، ہدایت کار: ڈاکٹر ایم سعید عالم کی تھی اور جناب احمد عمیر نے اداکاری کے جوہر دکھائے۔

ڈاکٹر محمد فریاد
انچارج پبلک ریلیشنز آفیسر

MANUU - Khwaja Ahmed abbas centenary held

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں