کراچی - جیسا میں نے دیکھا - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-03-12

کراچی - جیسا میں نے دیکھا

Old Karachi
زینت حسام پاکستان کی معروف ادیبہ ہیں۔ وہ "پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ" سے وابستہ تھیں۔ اب ریٹائرڈ زندگی گزار رہی ہیں۔ "نفسیات" میں ماسٹرس کی ڈگری حاصل کی، محنت و افرادی قوت اور جبری مشقت کے حوالے سے تسلسل کے ساتھ تحقیقی مقالات تحریر کئے، نیز "خواتین کی ترقی" کے موضوع پر مضامین قلم بند کئے۔

مجھے میٹھا در کے اُس گھر کا صرف لکڑی کا وہ زینہ یاد ہے، جس پر چلنے سے دھمک پیدا ہوتی تھی۔ ہم بچے اس پر کود کود کر چڑھتے اترتے وہ دھمک ایک گونج میں بدل جاتی۔ یا پھر پرانی وضع کے خوبصورت نمونے والے ٹائلوں سے بنا چمک دار فرش۔ میٹھا در کے بازار میں واقع اس چھوٹے سے چار منزلہ دکان کے نچلے حصے میں جوتوں کی دکان تھی اور ہر منزل پر دو کمروں پر مشتمل ایک فلیٹ۔ پہلی منزل پر دادا، دادی اور دادا کی پہلی مرحوم بیوی کی اولاد، دوسری منزل پر بڑے ابا کا کنبہ، تیسری منزل پر امی، ابا اور ہم بہن، بھائی( اُس وقت ہم دو بہنیں اور دو بھائی تھے) اور چوتھی منزل پر چچا کا کنبہ۔ میں اسی گھر میں پیدا ہوئی تھی، کھار ادر کے میٹرنٹی اسپتال میں کام کرنے والی ایک عیسائی نرس کی نگرانی میں۔

ابا بیس سال کی عمر میں،ستمبر 1947ء میں کانپور سے کراچی آئے تھے، امی اور ایک سالہ ضیاء(بھائی) محمود بھائی کے ساتھ۔ پھر چچا اور تایا کا کنبہ آیا اور اس کے بعد دادا دادا کو بلایاگیا۔ چھوٹے تایا کان پور چھوڑنے کا تیار نہ ہوئے اور ہی کوئی پھوپھا، لہذا چاروں پھوپھیاں اور ان گنت دوسرے رشتہ دار وہیں رہے۔ نانی، نانا اور ماموں ممانی امی کی خاطر پاکستان آگئے تھے۔
دادا کا شمار مسلمانوں کے محلے کرنل گنج کے معزز لوگوں میں ہوتا تھا۔ دادا کا کپڑوں کی چھپائی، بلاک پرنٹنگ کا ایک چھوٹا سا کارخانہ تھا۔ دادا نمازی پرہیزگار تھے اور انہوں نے بیٹوں کو بھی دین کی طرف راغب کیا۔ ایک مولوی بچوں کی تعلیم پر مامور تھے۔ بچے اسکول بھی جاتے، لیکن زور دینی تعلیم پر رہا۔ مولوی صاحب مغربی تعلیم کے سخت خلاف تھے اور دادا کو بقول ابا، بھڑکایا کرتے کہ بچوں کو اسکول بھیجنے کی کیا ضرورت ہے۔ ابا باغی نکلے۔ مسجد سے بھاگتے، مولوی سے چڑتے۔ ابا کا کہنا ہے کہ ان خاندانی مولوی نے ابا کو دین کی طرف راغب کرنے کیلئے اتنا زچ کیا کہ ابا کا دل دینی تعلیم کے ساتھ دنیاو ی تعلیم سے بھی اچاٹ ہوگیا۔
چھٹی پاس کرنے کے بعد ابانے اسکول کا دوبارہ رخ نہ کیا۔ کاروبار سے بھی ابا کو رغبت نہ تھی، ان کے مشغلے تھے، فلمیں دیکھنا، کتابیں پڑھنا، دوستوں میں رہنا، گھومنا پھرنا، کباڑیوں کی دکانوں میں جانا، انوکھی چیزیں، خاص طورپر پرانے کیمرے خریدنا اور تصویریں بنانا، تقسیم ہند سے پہلے ابا نے اپنی کھینچی ہوئی ایک تصویر السٹرٹیڈ ویکلی آف انڈیا کے ایک انعامی مقابلے میں بھیجی تھی جس کو انعام بھی ملا تھا۔ ابا کے پاؤں یں چکر تھا، دل میں جنوں۔ لڑکپن ہی میں ہندوستان کے کئی شہر گھوم چکے تھے۔ اکثر دادا سے جھگڑ کر گھر چھوڑ جاتے۔
دوسری جنگ عظیم کے زمانے میں جب جرمنی نے برما پر حملہ کیا تو آسام خالی ہونے لگا۔ ابا نے ٹرین پکڑی اور آسام روانہ ہوگئے۔ ابا بتاتے ہیں کہ اس ٹرین میں واحد مسافر تھے۔ لڑکپن میں عشق ہوگیا تھا۔ ابا نے دھمکی دی کہ اگر اس لڑکی سے شادی نہ ہوئی تو وہ زہر کھالیں گے، لیکن دادا بھی ضد کے پکے تھے، ابا اس بات پر بھی گھر چھوڑ کر چلے گئے، پھر ایک سال بعد امی سے اُن کا بیاہ کردیا گیا۔ امی دادا کی پسند تھیں۔
کراچی میں میٹھا در کے قریب کاغذی بازار میں بنارسی ساریوں، کم خواب، زربفت کا مشترکہ کاروبار شروع ہوگیا۔ دکان میں ایک دو چھتی ہوا کرتی تھی۔ ابا کو اب تک دکانداری سے دلچسپی نہ ہوئی تھی، انہوں نے دو چھتی پر دیوار سے لگے لکڑی کے کھانچوں پر اپنی جمع کی ہوئی کتابیں سلیقے سے جمائیں۔ جب ابا کراچی سے آئے تھے تو کتابوں سے بھرے کئی صندوق کانپور کی کسی لائبریری کو دے دئیے تھے اور صرف تین چار صندوق ہی ساتھ لاسکے تھے، دو چھتی میں فرش اور چاندنی بچھائی گئی تھی اور گاؤں تکیے رکھے ہوئے تھے۔ دکان کی یہ دو چھتی دوپہر کے کھانے اور قیلولے کیلئے استعمال ہوتی تھی، ابا یا تو دکان میں پائے ہی نہ جاتے، یا آتے بھی تو کتابیں پڑھا کرتے۔
گھر چھوٹا تھا، اس لئے وہاں دوچار کتابوں سے زیادہ نہ رکھتے تھے۔ کتابوں کا ذخیرہ اردو ادب اور شاعری کے نسخوں، دیوانوں، ادب لطیف، عالم گیر، ہمایوں، ساقی اور دوسرے رسالوں کے انبار پر مشتمل تھا۔ پچاس کی دہائی میں پاکستان سے نکلنے والے تمام رسالوں۔ سویرا، نقوش، داستان گو، لیل و نہار، نصرت وغیرہ کے شمارے ابا محنت سے سنبھال کر رکھتے تھے۔ اکثر رسالوں کی خود نیلے رنگ کی جلد بناتے اور اس پر اپنا نام کندہ کرتے۔ یہ کام ابا کانپور میں بھی کرتے تھے۔ کتابوں کی دنیا سے میرا پہلا تعارف کاغذی بازار کی دکان کی اسی دو چھتی میں ہوا۔

میں جب پانچ برس کی ہوئی تو یہ مشترکہ خاندان میٹھا در سے اٹھ کر پیر الہیٰ بخش کالونی کے ایک دو منزلہ مکان میں منتقل ہوگیاتھا، جس میں لگے امرود کے پیڑوں کی پھل دار شاخیں دوسری منزل کے کمرے کی کھڑکی اور چھجے تک آتی تھیں۔ ہم بچے چلچلاتی دوپہر کی خاموشی میں کچے امرود توڑتوڑ کر کھاتے اور پیر کالونی کی خاک آلود گلیں میں کھیلا کرتے۔
ایک سال بعد پھر نقل مکانی ہوئی۔ دادا کا انتقال چکا تھا۔ محمود بھائی اپنے کبنے کے ساتھ ملیر جابسے تھے، اب ہم سب لوگ شہید ملت روڈ سے متصل پنجابی سودا گران ہاوسنگ سوسائٹی میں واقع کرائے کے دو منزلہ مکان میں اٹھ آگئے تے، جس میں چار فلیٹ تھے۔ ایک فلیٹ میں دہلی کا ایک مختصر سا خاندان تھا۔ والدین اور دو لڑکے مسعود اور ہارون، باقی تین فلیٹوں میں بڑے ابا، چچا اور ابا اپنے اپنے ڈھیر سارے بچوں کے ساتھ رہائش پذیر ہوئے۔ یہ1959ء کی بات ہے۔
تب کراچی کی زمین میں ہم بچوں کیلئے وسیع کائنات تھی۔ سوسائٹی میں اکا دکا مکانات تھے۔ ہماری گلی میں صرف تین مکان تھے۔ ہمارے مکان سے متصل مالک مکان، تقی صاحب کا گھر اور گلی کے سرے پر ایک ایک اور مکان، باقی پلاٹ خالی تھے۔ دوسری گلیوں میں بھی یہی صورتحال تھی۔ ہر گھر کے احاطے اور احاطے سے باہر مختلف طرح کے پیڑ پودوے ہوتے تھے، امرود، آم، شریفے، گلاب، چنبیل، موتیلا احاطے کے اندر اور باہر بادام، جامن، املی، نیم، گل مہر، بوگن ویلیا، ہمارے گھر میں عین مقابل ایک کھنڈر سا تھا۔ غالباً کسی نے چار دیواری اٹھائی تھی، پھر کسی وجہہ سے دیواریں منہدم کردی گئی تھیں۔ اینٹوں کے ملبے، ٹوٹی ہوئی دیواروں اور خودر و جھاڑیوں میں چھپکلیاں اور گرگٹ رینگا کرتے۔
احتشام بھائی جان اور انعام بھائی (میرے تایازاد بھائی) گنیں لیے ان گرگٹوں کا شکار کیا کرتے ، مجھ سے چھ برس بڑے ضیا بھائی کا وقت انعام بھائی کے ساتھ گزرتا۔ نورالصباح ، عائشہ احترام (تایا زاد) ، صبحیہ (چچازاد) ، میں ، عذرا اور ریاض۔ ہم بچوں کا غول زیادہ وقت باہر ہی منڈلاتا رہتا۔
ہم سب بہن بھائیوں کو باہر گھومنے کی یکساں آزادی تھی۔ ہم گلیوں اور سڑکوں سے سگریٹوں کے خالی پیکٹ اکٹھا کرکے ان کے قلعے اور مینار بناتے، جن کو بنانے سے زیادہ ڈھانے میں لطف آتا۔ کانچ کی چوڑیوں کے ٹکڑے چن کر انہیں آگ دکھاکر زنجیریں تیار کی جاتیں۔ تب کراچی میں کوڑے کرکٹ کے ڈھیر اتنے نہ ہوتے تھے۔ پلاسٹک کی تھیلیوں کا رواج نہ تھا۔ کاغذ کی پڑیوں یا پھر سلے ہوئے کپڑے کے تھیلوں میں سودا آتا۔ سڑکوں پر کاغذ، سگریٹوں کے ڈبے اور ٹوٹی پھوٹی چیزیں تو پڑی ہوتی تھیں، لیکن گیلا کچرا نہ ہوتا تھا۔

کراچی میں تتلیاں بھی بے تحاشہ ہوتی تھیں۔ خاص طورپر برسات کے بعد تتلیاں امنڈ آتیں۔ ہم بچوں نے تتلیوں کے مختلف نام دئیے ہوئے تھے۔ سبز اور سیاہ "بادشاہ تتلی"، نارنجی پروں پر سیاہ و سفید دھبے والی "ملکہ تتلی" نقرئی جامنی "شہزادی تتلی" انعام بھائی نے ایک چھوٹا سا جالی کا ڈبا بھی بنایا تھا، جس میں وہ تتلیوں کو پکڑ کر بند کرتے، مجھے اور نور الصباح کو تتلیاں چھونے کا بڑا شوق تھا۔ ہم منت سماجت کرکے ڈبے سے تتلی نکلواتے پھر فخر کے ساتھ انگلیوں پر اترے رنگ ایک دوسرے کو دکھاتے۔ بارش کے بعد میدان میں بیر بہوٹیاں امنڈ آتیں اور سب بچے ماچس کی خالی ڈبیا لیے ہوئے بیر بہوٹیوں کو پکڑنے میں شام کردیتے، پھر اپنی اپنی ڈھونڈی ہوئی بیر بہوٹیاں گنی جاتیں اور پھیلی ہوئی ہتھیلیوں پر رکھی سرخ مخملی مخلوق پر انگلیاں بھیری جاتیں۔
آج یہ بات یاد کرتے ہوئے بھی عجیب سا محسوس ہوتا ہے کہ کراچی میں کبھی بچے تتلیاں اور بیر بہوٹیاں پکڑا کرتے تھے۔ یا یہ کہ کبھی یہاں قدم قدم پر بڑے بڑے سبز پتوں والے بادام کے پیڑ ہوتے تھے اور زمین پکے ہوئے سرخ باداموں سے پٹی رہتی تھی۔ رفتہ رفتہ کراچی سے بادام، امرود، جامن، شریفے اور املی کے پیڑ غائب ہوتے گئے اور شہر سفید ے کے لپیٹ میں آگیا۔

ابااور امی دونوں ہی کو کتابیں پڑھنے کا شوق تھا۔ امی بتاتی ہیں جن دنوں مجھ سے دو سال چھوٹی بہن پیدا ہوئی۔ امی صالحہ عابد حسین کا نام "عذرا" پڑھ رہی تھیں۔ میرے بڑے بھائی کا میرا اور اس بہن کا نام مولانا احتشام الحق تھانوی( جن سے دادا کے خاندانی مراسم تھے) نے تجویز کیا تھا۔ ضیاء الدین، زینت النساء، طلعت النساء، طلعت ان دنوں تین چار ماہ کی ہوگی، نام ساتویں دن طلعت رکھ دیا گیا، لیکن امی کو عذرا ناول اس قدر بھایا کہ انہوں نے طلعت کا نام بدل کر عذرا رکھ دیا۔ امی ہم بچوں کو کہانیاں پڑھ کر سنایا کرتیں۔
کتابیں خریدنے کا شوق ضیاء بھائی، مجھے اور عذرا کو بھی تھا۔ ہم لوگ جیب خرچ کا زیادہ حصہ کتابیں اور رسالے خریدنے میں صرف کرتے۔ اُس زمانے میں بچوں کی (اردو) کہانیاں چار آٹھ آنے، روپے دو روپئے میں آتی تھیں۔ انگریزی کی Archie کا مکس اور رنگین، باتصویر، عمدہ نیوز پرنٹ پر چھپی Fairy Tales ایک روپے میں ایک ملا کرتیں۔ یہ 1960ء کی دہائی کی بات ہے۔ ہم بچوں کی کتابیں اور رسالے تو گھر میں لڑھکتے پھرتے، لیکن ابا اب تک اپنی کتابیں اور رسالے کاغذی رسالے میں واقع دکان کی دو چھتی ہی میں ذخیرہ کررہے تھے۔ دو کمروں کا تنگ فلیٹ تھا اور بچوں کی بڑھتی ہوئی تعداد۔ ابا صرف چند ایک کتابیں دیوار میں بنی الماری میں رکھا کرتے، جس کے پٹ ہمیشہ بند رہتے۔ رات کو سونے سے پہلے بستر پر لیٹ کر ابا مجھ سے الماری کھلواتے۔ جس کی کنڈی مجھے مونڈے پر چڑھ کر کھولنی پڑتی۔ پھر ایک کتاب نکلواتے۔
مجھے صرف ایک کتاب دے ہے، ممتاز مفتی کی "علی پور کا ایلی" یہ ایک بے حد ضخیم کتاب تھی، مجلد، سبزاور خاکی ڈسٹ کور پر غالباًً ٹڈے بنے ہوئے تھے، میں یہ کتاب مونڈھے پر چڑھ کر احتیاط سے نکال کر ابا کو دیتی۔ ٹڈے کی سرورق پر بنی تصویر دیکھ کر ایک دفعہ میں پوچھا، ابا! کیا یہ ٹڈے کی کہانی ؟"
ابا نے ہنس کر کہا تھا، "ہاں"۔ابا سے مجھے ایک شکایت تھی وہ اس کتاب کے دو چار یا اٹھ دس صفحے پڑھ کر ، نشانی لگاکر مجھ سے واپس رکھوادیتے۔ مجھے یہ بے صبری کہ آخر ابا اسے فوراً پورا کیوں نہیں پڑھ ڈالتے۔
ابا کو گاڑی چلانے کا بڑا شوق تھا۔ وہ سیکنڈ ہینڈ گاڑی خریدتے اور ہرسال گاڑی تبدیل کرتے۔ کبھی آسٹن، کبھی ہلیمین فورڈ کی سفید اسٹیشن ویگن کی یاد بے حد واضح ہے۔ وہ ہم بچوں کو بہت پسند تھی۔ پچھلے حصے میں بیٹھ کر ڈگی کا دروازہ کھلا رکھا جاتا۔ خاندان کے تمام بچوں کو گاڑی میں بھر کر ابا سیر کرانے لے جاتے۔ کلفٹن کوٹھاری پریڈ ہم بچوں کی پسندیدہ جگہ تھی، ہم سب گنبد نما کھلی عمارت کے اطراف جودھ پوری پتھر کی بنی چکنی ڈھلان پر چڑھ کر پھسلا کرتے۔ اتوار کے اتوار ہاکس بے، سینڈزپٹ اور پیراڈائز پوائنٹ کا چکر لگتا۔ اکثر شام کو صدر میں واقع کیفے جارج میں ہم بچوں کو آئس کریم کھلانے لے جاتے۔
منگھو پیر بھی ایک دو دفعہ گئے۔ سٹی ریلوے اسٹیشن اور اےئرپورٹ بھی تفریحی کی غرض سے جایا کرتے۔ ابا دوست تھے ایم ایف آئس کریم فیکٹری کے مالک۔ ہم بچے اکثر ابا کے سر ہوجاتے کہ ہمیں ان کی فیکٹری کی سیر کرائیں۔ فیکٹری ملیر کے مضافات میں تھی اور آس پاس ان کے امرود کے باغات ہوا کرتے تھے۔ پہلے باغ جاکر جی بھر کر امرود کھائے جاتے، پھر فیکٹری کی سیر کرتے آئس کریم کے لالچ میں آئس کریم سے نہ صرف وہیں خاطر تواضع کی جاتی بلکہ ایم ایف آئس کریم کے ڈبے بھی تحفے میں ملتے۔ ہم بچوں کا ہر شام موٹر میں سیر کرنا لازمی ہوتا، اگر کہیں دور نہیں تو ابا ہمیں سوسائٹی کی گلیوں ہی کے چکر لگانے لے جاتے۔
ہل پارک کے قریب ایک گلابی رنگ کا بنگلہ تھا۔ گنبدوں، محرابی کھڑکیوں اور محرابی دروازوں والے اس منفرد بنگلے کے دو گیٹ تھے۔ لکڑی کے اندر اور بڑا سا پورچ تھا۔ ہم بچوں کو یہ گھر بڑا سحر انگیز دکھائی دیتا، بالکل پریوں کا محل، اُس بنگلے پر اکثر سناٹا چھایا رہتا اور دونوں گیٹ ہمیشہ کھلے ہوتے۔ ابا ایک گیٹ سے گاڑی اندر گزارتے اور دوسرے گیٹ سے نکال لیتے اور ہم بچے سحر زدہ اس کے در و دیوار دیکھتے رہ جاتے۔ گو اس بنگلے کا رنگ آج بھی گلابی ہے، لیکن اب کے در و دیوار پر اس فسوس، معصومیت اور مہمان نوازی کی جگہ کرخنگی اور سرمہردی نے لے لی ہے۔ دیواریں بلند ہوچکی ہیں اور بند آہنی گیٹوں کے باہر ایک چوکیدار بیٹھا ہوتا ہے۔ سال میں ایک دفعہ ایک تفریح کا موقع بند روڈ پر بھی ملتا۔
یہ دس محرم کو نکلنے والے تعزیے اور علم کے بڑے جلوسوں اور ماتم کے دیدار کا موقع ہوتا، یہاں ہم ماموں کے ساتھ جایا کرتے۔ نانا، نانی، ماموں، ممانی اور میری ہم عمر خالہ ملیر میں رہتے تھے۔ یہ شیعہ محلہ تھا۔ آٹھ دس گھر سنیوں کے بھی تھے۔ ہم بچے اٹھ محرم نانی کے گھر رہنے آجایا کرتے۔ محلے ہونے والے مجلسوں میں شریک ہوتے۔ چھریوں کا ماتم اور ذوالجناح دیکھنے کے چمر میں نو اور دس محرم کی راتوں کو جاگتے رہنے کی کوشش کرتے۔ جب نیند سے آنکھیں بوجھل ہونے لگتیں تو امی، نانی یا ممانی کو تاکید کرکے ہمیں جلوس کے وقت ضرور اٹھائیے گا، صحن میں بچھی چار پائیوں پر پڑ کر سوجاتے۔ واقعتاً ہمیں جلوس نکلنے پر جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر جگایا جاتا اور ہم بچے دروازے کھول کر دہلیزوں پر کھڑے ہوجاتے۔ تنگ گلیوں سے جب جلوس اور ذوالجناح گزرتے تو یہ سب اتنے قریب سے دیکھنے کی عجب خوشی ہوتی۔ بند روڈ پر البتہ گھروں کی چھتوں پر چڑھ کر ماتم دیکھا جاتا۔
Old Karachi
اُس زمانے میں لوگ گھروں کے دروازے کھلے ہی رکھتے تھے اور بندر روڈ پر رہنے والے اتنے مہمان نواز ہوتے تھے کہ سب کو چھتوں اور منڈیوں پر ٹک کر جلوس دیکھنے کی بخوبی اجازت دے دی جاتی تھی۔ خاص طورپر بچوں کو۔
اُسی زمانے میں ابا نے سراج الدولہ روڈ کے اُس پار دارالامان ہاوزنگ سوسائٹی میں زمین خریدی۔ مکان کی تعمیر شروع ہوئی۔ اب ہم بچوں کی آوارہ گردی کا دائرہ وسیع تر ہوگیا۔ پلاٹ پر جانے کے بہانے ہم آس پاس کی گلیوں اور تھوڑے فاصلے پر واقع پہاڑی تک جانے لگے۔ یہ پہاڑی جو اب ہل پارک کہلاتی ہے، بڑے بڑے پتھروں، جنگلی جھاڑیوں، خودرو پودوں اور گھاس پھوس سے ڈھکی ہوتی تھی۔ پہاڑی پر دو تین پگڈنڈیاں ہوتی تھیں۔ جنہیں لوگ سوسائٹی کے دوسرے حصے کو عبور کرکے ڈرگ روڈ( شارع فیصل) تک پہنچنے کیلئے استعمال کرتے، لیکن پہاڑی پر ہم بچے کبھی اکیلے جانے کی ہمت نہ کرپائے۔
احتشام بھائی جان کے پیچھے پڑتے کے پہاڑی پر چلیں اور سب بچے ان کے پیچھے پیچھے بھاگتے دوڑتے پہاڑی پر چڑھتے۔ پہاڑی کے اوپر سے دوسری طرف ڈھلان پر بنے مکانات، کھلونے اور سڑک پر چلتی موٹریں ماچس کی ڈبیاں نظر آتیں۔ ہم سب بچے دہلی مرکنٹائل سوسائٹی ( ڈی ایم ایس) اسکول میں پڑھتے تھے، جو گھر کے قریب ہی تھا۔ جب میں پانچویں جماعت میں آئی تو لڑکیوں کی علیحدہ شاخ کھلی جو شہید ملت روڈ کے پار کوکن سوسائٹی میں واقع تھی۔ شہید ملت روڈ اس زمانے میں ایک تنگ اور ٹوٹی پھوٹی دورویہ سڑک ہوا کرتی تھی۔ جو ڈرگ روڈ کو جیل روڈ سے ملاتی تھی، سڑک کی دو پٹیوں کے درمیان ایک وسیع و عریض میدان تھا۔ گھر سے اسکول تک پندرہ منٹ کا فاصلہ تھا اور ہم بچے کھیلتے کودتے، شہید ملت روڈ کا میدان پار کرتے اسکول پہنچتے۔ (یہ سڑک ستر کی دہائی کے وسط میں چوڑی ہوئی) اسکول کے بعد اکبر میں نورالصباح اور دو تین سہلیاں گھر کی طرف لوٹتے اور گھر سے آگے واقع جھیل پارک چلے جاتے۔ (یہ سوسائٹی کا وہی پارک ہے جو ستر کی دہائی کے آحر میں کٹ کٹا کر چھوٹا ہوا، اّسی کی دہائی میں یہاں رہائشی منصوبہ شروع ہوا جو شہریوں کے دباؤ کی وجہہ سے اب تک کھٹائی میں پڑا ہوا ہے۔) مجھے یہ باغ بے حد پسند تھا، اس کی وجہہ نفاست سے تراشی ہوئی ہری بھری باڑھیں تھیں، جو باغ کو چھوٹے چھوٹے چوکور احاطوں میں تقسیم کرتی تھیں۔ یہ سبز دیواریں ہمارے قد سے اونچی ہوا کرتی تھیں، ہم ان سبز دیواروں کے گرد گھومتے اور دنیا و مافیا سے بے خبر اپنی دنیا میں گم ہوجاتے۔ بے شک جب ہم باغ سے واپسی لوٹتے تو پوچھا جاتا کہ ہم کہاں تھے، لیکن یہ ہماری ماؤں کیلئے کوئی ایسی پریشان کن بات نہ تھی۔ وہ پرسکون دور تھا کراچی کا۔ مجھے یاد ہے ہم بچیوں کی طرف سے ہماری اماؤں کو صرف ایک دفعہ پریشانی لاحق ہوئی تھی کہ بچیوں کے کانوں سے سونے کی بالیاں کوئی اُتارنہ لے۔ ہوا یوں کہ ایک دفعہ میری چھوٹی تایازاد بہن روتی ہوئی گھر پہنچی کہ ایک بابا نے اُس کے کانوں سے سونے کی بالیاں اتار لی ہیں۔ اس واقعے کا ردعمل صرف یہ ہوا تھا کہ ہمارے کانوں سے سونے کی بالیاں اتار دی گئی تھیں،ہمارا گھومنا پھرنا اسی طرح جاری رہا۔

ساٹھ کے عشرے میں طارق روڈ پر کیفے لبرٹی کے آس پاس چند دکانیں کھل چکی تھیں، یہ اسٹیشنری، کتابوں اور کپڑوں کی دُکانیں تھیں۔ لندن بک ہاؤس، گلستان بک اسٹال اور پچھلی گلی میں(جواب دوپٹہ گلی ہے) ایک دو اسٹیشنری کی دکانیں اور ایک چھوٹی سی لائبریری ہوا کرتی تھی۔ طارق روڈ ہمارے گھر سے پندرہ منٹ کے فاصلے پر تھا، میں اور عذرا ہفتے میں کئی چکر لندن بک ہاؤس اور لائبریری کے لگاتے۔ کتابوں کے علاوہ ہم دونوں کا کاغذ کی بنی گڑیا جمع کرنے کا بڑا شوق تھا۔ لندن بک ہاؤس سے باقاعدگی سے یہ کاغذ کی گڑیاں خریدی جاتیں۔ ہم دونوں اکثر اکیلے ہی طارق روڈ جایا کرتے تھے۔ کتابوں کا شوق ہم اُس زمانے میں ایک چلتی پھرتی لائبریری سے بھی پورا کرتے تھے، اس لائبریری کا مالک ایک نرم گو، شفیق چہرے والا ادھیڑ عمر کا آدمی تھا، جو ایک سائیکل کی پشت پر بندھے بڑے تھیلے میں ہم بچوں کی کتابیں ڈالئے سوسائٹی میں گلی گلی آواز لگاتا گھوما کرتا۔ یہ لائبریری والا ہفتے میں دو تین دفعہ ہماری گلی میں بھی آتا۔ ہم بچے اس کا بے چینی سے انتظار کرتے۔

نیا گھر بننے میں چار پانچ سال لگے۔ وجہ مالی مشکلات تھیں۔ آخر جب کرائے کے مکان میں رہنا مشکل ہوگیا تو ابا نئے مکان میں اٹھ آئے گوکہ ابھی چھوٹے موٹے کافی کام باقی تھے۔ گھر میں گیٹ بھی نہیں لگا تھا۔ امی، ابا اور ہم بچے (ہم چار بہنیں، چار بھائی تھے) نیچے کی منزل میں مقیم ہوئے اور اوپر تایا اور چچا کے کنبے آباد ہوئے۔ یہ گھر ابا نے روایتی طرز پر بنوایا تھا، یعنی بیچ میں ایک آنگن تھا، جس کے تین طرف کمرے، باورچی خانہ، غسل خانہ تھا اور چوتھی سمت ایک چھوٹی سی کھلی جگہ تھی، باغیچہ نما، کیاری میں پیڑ پودے لگائے گئے تھے۔ رات کی رانی، دن کا راجہ، چمپا اور چنبیلی اور درمیان میں گھانس لگانے کی کوشش کی جاتی تھی۔ اس باغیچے اور گیراج کے درمیان کوئی دیوار نہ تھی اور آنگن بھی کھلا تھا۔ یعنی گیٹ سے داخل ہوکر بجائے صدر دروازے کے اس کھلی جگہ سے آنگن اور پھر کمروں میں داخل ہوا جاسکتا تھا۔ مالی دشواریوں کی بناء پر ابنا تقریباً تین سال تک گیٹ نہ لگواسکے، لیکن ہم سب اپنے کمروں کے دروازے کھلے رکھ کر اس تمام عرصے چین کی نیند سوتے تھے۔ اب تو کراچی کے وہ دن مٹھی میں ریت کے مانند ہاتھ سے نکل چکے ہیں۔

گھر کے آنگن اور اس چھوٹے سے باغیچے کے ساتھ ایک بے حد خوش کن اور منفرد یاد وابستہ ہے۔ وہ یاد ہے چارلی چپلن کی فلمی کی۔ ابا کو موسیقی، فلموں اور فوٹو گرافی کا شوق تھا۔ ابا کے پاس دو پروجیکٹر تھے۔ ایک چھوٹا سیکنڈ ہینڈ، خاموش فلموں کیلے اور دوسرا بڑا جو ابا 1958ء میں جاپان سے خرید کے لائے تھے۔ (ابا کا بزنس کے سلسلے میں جاپان جاناہوا تھا) ابا اُس زمانہ میں USIS کے ممبر تھے۔ چارلی چپلن اور ڈاکیومنٹری فلموں کی ریلیں وہیں سے لائی جاتیں۔ رات کے کھانے کے بعد باغیچے کی دیوار سے لگی کپڑے سکھانے کی ڈوری پر ایک سفید دھلی ہوئی چادر لٹکائی جاتی، ابا پروجیکٹر سیٹ کرتے، چھوٹے پایوں والے نواڑ کے دو پلنگ اور گھر میں پائی جانے والی تمام کرسیاں نکال کر آنگن میں بچھائی جاتیں،آنگن اور کمروں کی بتیاں گل کی جاتیں اور ہم بچے اپنی اپنی سیٹیں سنبھال لیتے۔ کیاری میں لگی رات کی رانی اور چنبیلی کی مہک سے لبریزکراچی کی خوش گوار ہوا آنگن میں تیرتی، ہم سب چارلی چپلن کی مزیدار حرکتوں پر ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوا کرتے۔
لیکن ابا کبھی ہم بچوں کو فلم دکھانے سینما ہال نہیں لے گئے۔ ہندوستانی اور انگریزی فلمیں ابا اپنے دوستوں کے ساتھ دیکھا کرتے۔ ابا کے ان گنت جگری یار تھے۔ دہلی کے تاجر وحید صاحب، بنگال کے بیورو کریٹ عالم صاحب، بہار کے انجینئر سید صاحب، پنجاب کے ٹھیکیدار شیخ صاحب اور کراچی کے پارسی بلیمور یا صاحب۔ سواے ان بلیموریا صاحب کے باقی سب کے گھروں میں امی اور ہم بچوں کا آنا جانا تھا۔ سب سے زیادہ ددوستی وحید صاحب عالم صاحب کی فیملی سے تھی، کیونکہ ان کے بچے ہم بچوں کے ہم عمر تھے۔ سید صاحب کی نئی نئی شادی ہوئی تھی،لیکن ان کی سوشیالوجی میں ایم اے پاس بیوی سے امی کی اچھی دوستی ہوگئی تھی۔
بلیموریا صاحب کے ہاں اولاد نہ تھی اور غالباً ابا کا خیال ہوگا کہ امی کی دوستی مسزبلیموریا سے شاید نہ ہوپائے، اس لئے وہ ہمیں بچپن میں اُن کے گھر نہیں لے گئے، لیکن گھر میں بلیموریا صاحب کا تذکرہ اسی زور شور سے ہوا کرتا تھا۔ امی کو بھی فلمیں دیکھنے کا بڑا شوق تھا۔ امی نے زیادہ فلمیں بیگم وحید اور بیگم عالم کے ساتھ دیکھیں۔ عالم صاحب انوسٹمنٹ پروموشن بیورو میں ڈائرکٹر ہوا کرتے تھے اور جمشید کوارٹرز میں ان کی رہائش تھی۔
وحید صاحب فریئر روڈ کے ایک فلیٹ میں رہا کرتے تھے، پھر انہوں نے بی ای سی ایچ ایس سوسائٹی میں مکان بنوایا اور وہاں منتقل ہوگئے۔ اکثر دوپہر میں امی چھوٹے بچوں کو زبیدہ چچی کی نگرانی میں ایک ایک سواتی آیا کے حوالے کرکے میرے ساتھ چپکے سے نکل آتیں۔ پھر ہم دونوں رکشا میں عالم صاحب کے گھر پہنچتے۔ مسز عالم اور ان کی بیٹی شائستہ جو میری ہم عمر تھی، فلم دیکھنے کیلئے بالکل تیار ہوتیں۔ وہ بھی اپنے چھوٹے بچوں کو پڑوس کے حوالے کرتیں اور ہم چاروں پیدل فلمستان یا ناولٹی سینما پہنچتے اور سکون سے میٹنی شو دیکھا جاتا۔ اسی طرح اسکول کے زمانے میں راج کپور اور نرگس کی پرستار بنی۔ آہ، آوارہ، انداز، برسات اور بہت سی دوسری فلمیں دیکھیں۔ جب ستمبر 1965ء کی جنگ کے بعد ہندوستانی فلموں پر پابندی لگی تو مشرقی پاکستان میں بننے والی فلمیں اردو فلمیں آخری اسٹیشن، چندا، چکوری، تلاش وغیرہ بڑے شوق سے دیکھیں۔
عالم صاحب کے گھر ہم سب کو بہت مزہ آتا۔ سب سے بڑی شائستہ، اس چھوٹی شاہد اور پھر پیار (جس کا اصل کچھ اور تھا) شہناز اور محمود بچے تو رواں اردو بولتے، لیکن مسز عالم دوچار جملے یہ بول پاتیں۔ آپس میں وہ سب ہمیشہ بنگالی بولتے۔ اکثر ہم لوگ ایک دوسرے گھر دعوتیں کھایا کرتے۔ ہمیں ان کی مچھلی بھات ترکاری مزیدار لگتی اور انہیں امی کے ہاتھ کے پکے کھانے بھاتے۔
شائستہ اور میں تیرہ چودہ برس کے ہورہے تھے۔ شائستہ بڑی بڑی سیاہ آنکھوں اور مکھن جیسی ملائم سنہری جلد والی پرکشش لڑکی تھی اور میں ایک گول چہرے چپٹی ناک اور نکلتے مہاسوں والی معنک ٹین ایجر، شائستہ مجھے لڑکوں کی باتیں بتاتی۔ پڑوس کے لڑکے، اس کے اسکول کے سامنے بس اسٹاپ پر کھڑے ہونے والے شہر کے کالجوں کے لڑکے، جو اُس پر عاشق تھے۔ مجھ پر کوئی عاشق نہ تھا۔ میں رشک سے شائستہ کی باتیں سنا کرتی۔ لڑکپن کی یہ گہری دوستی1970ء میں ایک شام اداس کن موڑ پر پہنچ کر ختم ہوئی، جب عالم صاحب کاخاندان کراچی چھوڑ کر ڈھاکہ جا بسا۔

1960ء کی دہائی اور موجودہ عشرے کے درمیان تیس برس گذر چکے ہیں۔ ان تیس برسوں میں اس شہر، اس زمین و پسمان اور شہر کے مکینوں کی زنگی میں کتنی تبدیلیاں آئی ہیں۔ تیس برس اتنا طویل عرصہ تو نہیں یا شاید ہے، لیکن کیا کسی شہر کے مکین تین عشرے میں اتنی سنگین تبدیلیوں کے متحمل ہوسکتے ہیں۔

The memoirs of Karachi - Article: Zeenat Hassam

1 تبصرہ: