مسلمانوں کو مسائل کے حل کیلئے خود محاسبہ کرنے کی تلقین - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-03-11

مسلمانوں کو مسائل کے حل کیلئے خود محاسبہ کرنے کی تلقین

گوہاٹی۔
(یو این آئی)
ملک کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے ممتازقائدین اور مفکرین نے کل یہاں منعقدہ ایک ورکشاپ میں شرکت کی اور مسلم اقلیت کو تلقین کی کہ وہ اپنے مسائل اور ان کے حل کے پس منظر میں خود محاسبہ کرے۔ ہندوستان کی "مسلم اقلیت کی سماجی۔ تہذیبی، معاشی اور تعلیمی پسماندگی، بحوالہ خصوصی آسام کے موضوع پر منعقدہ سمینار میں اظہار خیال کرتے ہوئے متعدد مقررین نے ایسے مبینہ مفادات حاصلہ گروپس کے خلاف برہمی کااظہار کیا جو ملک کی اقلیتوں کو پسماندہ رکھنے سے دلچسپی رکھتے ہیں تاکہ سماج کا بالائی طبقہ، محروم مراعات اور پچھڑے طبقات پر اپنی بالادستی کومداومت دے سکے۔ سمینار کا اہتمام گوہاٹی یونیورسٹی کے شعبہ فارسی اور آسام کی تنظیم ’جسٹس اینڈ ایکویٹی ڈیمانڈ سمیتی،( جے ای ڈی ایس) نے کیا۔ افتتاحی اجلاس کی صدارت پروفیسر عبدالسلام، وائس پرنسپل ڈھینگ کالج نے کی۔ انہوں نے سمینار و ورکشاپ کے انعقاد کے اغراض و مقاصد پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ کلیدی خطبہ ڈاکٹر نذر الاسلام، ایڈیشنل ڈائرکٹر جنرل آف پولیس مغربی بنگال نے دیا۔ انہوں نے وضاحت کی کہ ملک کے حکمراں طبقہ کی اعلیٰ ذات، مبینہ طورپر ادنی ذات کے طبقات، درج فہرست قبائل اور مذہبی اقلیتوں کا استحصال کررہی ہے اور ان محروم مراعات طبقات کو ان کے جائز حقوق سے محروم کررہی ہے۔ انہوں نے کہاکہ اعلیٰ ذات کے لوگ آبادی کا صرف 15فیصد ہیں جبکہ دیگر مابقی 85فیصد کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اعلیٰ ذات والوں کے پاس 90فیصد اراضی، 94فیصد تجارت اور 87فیصد سرکاری ملازمتیں ہیں جبکہ اس کے بالمقابل دیگر طبقات کے پاس بالترتیب صرف 8فیصد، 6فیصد اور 13فیصد مواقع ہیں۔ ڈاکٹر عرشی خان سینئر اسوسی ایٹ پروفیسر (سیاسیات) اے ایم یو نے اپنی تقریر میں کہاکہ جمہوریت کے معنی صرف اسٹرکچر اور انتخابات کے نہیں ہیں بلکہ اس سے کہیں زیادہ ہیں۔ جمہوریت، اقلیتی فرقوں کیلئے بھی رہنمایانہ خطوط متعین کرتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ حکمراں گروپ خود سے پوچھے کہ "کیا اقلیتی فرقہ میں ملک کے ساتھ یگانگت اور وفاداری کا احساس پایا جاتا ہے اور اگر نہیں تو کیوں؟"۔ اگر آبادی کے بعض طبقات بیگانگی محسوس کرتے ہیں تو حکومت کا یہ فرض بنتا ہے کہ اس مسئلہ پر توجہ دے جو ، اقلیت کیلئے باعث پریشانی ہے۔ پروفیسر کمال الدین احمد، سابق پرنسپل کریم گنج کالج نے آسام کے مسلمانوں کی معاشی حالت پر اظہار خیال کیا اور کہاکہ صرف تعلیم پر توجہ دیتے ہوئے مسلمانوں کی معاشی حالت کو بہتر بنایاجاسکتاہے۔ آسام کے رکن اسمبلی ایس علی احمد نے اس ریاست میں موقوفہ جائیدادوں کی مبینہ بد انتظامی کے بارے میں بعض تلخ حقائق پیش کئے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ موقوفہ جائیدادوں کے منتظمین اور حکومت کے آڈیٹرس اور عہدیداروں کے درمیان ملی بھگت ہے۔ اس چنڈال چوکٹری سے ان کی جیبیں گرم ہوتی ہیں۔ احمد نے بتایاکہ آسام میں زائد از 15ہزار موقوفہ جائیدادیں ہیں اور ان سے ہونے والی آمدنی، مسلمانوں کی تعلیمی ضروریات پر توجہ دینے کیلئے کافی ہوگی لیکن موقوفہ جائیدادوں کی بد انتظامی کے سبب ایسا نہیں ہوپارہا ہے۔ انہوں نے کہاکہ مسلمانوں کی فلاح کا جذبہ رکھنے والے تعلیم یافتہ دانشوروں کے انتخاب کے ذریعہ اس مسئلہ کو حل کیا جاسکتا ہے اور موجودہ مسائل سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔

--

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں