کیا مسلم قیادت کا خواب دیکھنا جرم ہے؟ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-03-29

کیا مسلم قیادت کا خواب دیکھنا جرم ہے؟

peace-party-india
میں الزامات سے نہیں گھبراتا۔ اس راہ پرخار میں قدم رکھتے ہی یہ بات سمجھ میں آگئی تھی کہ الزامات لگانے والوں کی کمی نہ ہوگی، جنوں کے بازار میں نکلا ہوں تو پتھر آئیں گے ہی۔ پتھروں سے نہیں گھبراتا میں لیکن وہ الزامات مجھے بے چین کرتے ہیں، جو میری فکر اور میرے مشن کو مسلمانوں سے دور لے جاتے ہیں۔ آپ کے اخبارات میں کہا جاتا ہے کہ میں مسلم ووٹوں کو تقسیم کر رہا ہوں۔۔۔ مجھ پر یہ الزامات بھی لگائے گئے کہ میں بھاجپا کا ایجنٹ ہوں۔ ظاہر ہے جو بھاجپا کا ایجنٹ ہوگا ، وہی مسلم ووٹوں کی تقسیم کا بھی ذمہ دار ہوگا۔کیونکہ سیاست کی معمولی سوجھ بوجھ رکھنے والا عام آدمی بھی جانتا ہے کہ ہر بار انتخاب میں مسلم ووٹوں کی تقسیم کا فائدہ بھاجپا کو پہنچتا ہے۔ اور بھاجپا ان جگہوں پر آسانی سے فتح یاب ہوتی ہے جہاں کئی سیاسی پارٹیوں نے اپنے اپنے مسلم امیدوار کھڑے کر رکھے ہوں۔۔۔ لیکن یہیں پر میں آپ سے سوال کرتا ہوں کہ کیا پیس پارٹی اور دوسری سیاسی پارٹیوں میں کوئی فرق نہیں ہے؟
مجھ پر الزام لگانا تو بہت آساں ہے
زخم میرا بھی دکھاؤ تو سہولت ہوگی
میں اپنی گفتگو اسی ایک سوال سے آگے بڑھاتا ہوں۔۔۔ 15 مارچ کے اودھ نامہ نے اس سوال کو پھر دہرایا کہ پیس پارٹی اور علماء مسلمانوں کے ووٹ کی تقسیم سے مودی کا راستہ آسان کر رہے ہیں۔۔۔
میں کہہ سکتا ہوں کہ ڈاکٹر محمد ایوب نے وہ خواب دیکھا ہے جو ہندوستان کے 30کروڑ مسلمانوں کا خواب ہے کہ ایک دن ان کی اپنی قیادت ہوگی۔۔۔لیکن یہ قیادت آساننہیں۔ قیادت کو مشن بنانے کے لیے میں ہر طبقہ، ہر ذہنیت اور ہر طرح کے لوگوں سے ملا۔ لیکن افسوس زیادہ تر لوگوں کے پاس سیاست تو تھی لیکن فکر کا فقدان تھا۔۔۔ وہ فکر جو ملک کے 25 فیصد مسلمانوں کو ان کا حق دلا سکے۔ وہ حق جو آزادی کے 67برس میں مسلمانوں کو کبھی نہیں ملا۔
میں بھی عام مسلمانوں کی طرح ہندوستانی سیاست میں وہی منظر دیکھ رہا تھا جہاں گھر جل رہے تھے۔ خوف کی بارش ہو رہی تھی۔ فرقہ وارانہ فسادات ملک کا چوتھا موسم بن چکے تھے۔ مسلمان ہر جگہ حاشیہ پر تھے۔مسلمان ہر جگہ شک کے گھیرے میں تھے۔۔۔ تقسیم کے بعد پاکستان الگ ہوچکا تھا۔ ایک غیر ملک۔ لیکن سوالیہ آنکھیں ہندوستانی مسلمانوں میں ایک پاکستانی کو تلاش کرر ہی تھیں۔۔۔ مسلمان سیاسی پارٹیوں کے لیے صرف ووٹ بینک تھے اور مسلمانوں کی یاد سیاسی پارٹیوں کو صرف انتخاب کے وقت ہی آتی تھی۔ اور اس کے بعد مسلمان اور ان کے مسائل سیاست کے ڈسٹ بین میں ڈال دئیے جاتے تھے ۔ مسلمانوں کے لیے فرضی انکاؤنٹرس کے راستہ کھلے تھے۔ مسلمان دہشت گرد تھا، کوئی بھی بم دھماکہ ہوتا، میڈیا کسی مسلمان چہرے کو لے کر سامنے آجاتی۔۔۔ پھر انہی آنکھوں نے بابری مسجد کا حادثہ بھی دیکھا۔۔۔ انہی آنکھوں نے جلتے ہوئے گجرات کو بھی دیکھا۔۔۔ایک عام مسلمان کی طرح۔۔۔جو گھروں میں سہما ہوا ہے۔۔۔ جو تحفظ چاہتا ہے۔ جو شک کے دائرے میں ہے۔ اور خود کو حب الوطن ہوتے ہوئے بھی شک کے دائروں سے باہر نکالنا چاہتا ہے۔ مگر یہ کیسے ممکن تھا؟
کیا کانگریس ، بھاجپا، سپایا کوئی بھی پارٹی مسلمانوں کو احساس کمتری سے باہر نکال کر انہیں حق اور انصاف دے سکتی ہے؟ یہ لکھنا آسان ہے کہ ڈاکٹر ایوب ووٹوں کی تقسیم کر رہا ہے۔۔۔ ڈاکٹر ایوب ووٹوں کی تقسیم نہیں کر رہا۔ ایک بڑے مشن کے طور پر مسلمانوں کو، مسلمانوں کی قیادت اور سیاسی حصہ داری دینا چاہتا ہے۔۔۔ اور ہم کیوں سوچ لیں کہ یہ کام مشکل ہے۔ برادری اور مسلکوں میں بٹے ہوئے مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانا کوئی مشکل کام اس لئے نہیں ہے، بشرطیکہ آپ ساتھ ہیں۔ اور عام مسلمانوں کی سمجھ میں بھی یہ بات آجائے کہ دیگر سیاسی پارٹیاں صر ف انتخاب کے وقت ان کے زخموں کو سہلا تو سکتی ہیں۔ زخموں کا مداوا نہیں کر سکتیں۔
تو مداوا کہاں ہے ؟
در اصل میں اسی نتیجہ پر پہنچنا چاہتا کہ حل کیا ہے۔۔۔ مجھے معاف کیجئے گا، مجھے حل نہ علماء کونسل سے ملا نہ کسی اور جگہ سے۔۔۔ کیا اس ملک کا مسلمان سیاسی غلامی کی قید سے باہر نکل کر کبھی بھی اپنی قیادت کو لے کر بھروسے مند اور مضبوط نہیں ہو سکتا ہے؟
در اصل میرا یعنی ڈاکٹر محمد ایوب کا مشن اسی راستہ سے شروع ہوا۔۔۔ میں نے سچر کمیٹی ،رنگناتھ مشرا کمیشن کی سفارشات کا مطالعہ کیا تو مجھے میرے سوالوں کے جواب مل گئے۔ مسلمانوں کو جہاں ایک طرف مرکزی اور صوبائی حکومتوں نے مذہبی تعصب کی وجہ سے استعمال اور استحصال کیا،وہیں اتی دلت اور اتی پچھڑی برادری کا بھی استحصال ہوا۔ آج کا مسلمان ان کے ساتھ پسماندگی کی سب سے نچلے پائیدان پر کھڑا ہے۔ اور اسی لیے اسے اپنی سیاسی جنگ خود لڑنی ہوگی۔ کیونکہ موجودہ سیاسی نظام اُسے انصاف اور حق نہیں دلاسکتا۔ اور اسی لیے میں نے محسوس کیا کہ اس سماج کو لے کر اگر آگے بڑھتے ہیں تو قیادت کا راستہ آسان ہو جاتا ہے۔ آزادی کے بعد سے سیاسی پارٹیاں28سے 30فیصد ووٹ پاکر مرکز اور صوبے میں اکثریت کے ساتھ اپنی حکومت بناتی رہی ہیں۔
اب میرا مشن صاف تھا۔ مسلمانوں کی قیادت ممکن ہے، اگر اس قیادت میں اتی دلت اور اتی پچھڑوں کی حصہ داری بھی تسلیم کی جائے۔۔۔ ملک کی آبادی میں مسلمانوں کی حصہ داری 20فیصد، اتی دلت کی 12 فیصد، اتی پچھڑوں کی 30فیصد تو یہ مکمل حصہ داری 67 فیصد ہوجاتی ہے۔ صوبائی حیثیت سے آسام میں 35،بنگال میں 32، اترپردیش اور دلی میں 21، جھارکھنڈ ، بہار اور مہاراشٹر میں 22فیصد مسلمانوں کی آبادی ہے۔ ایک حقیقت اور بھی ہے کہ پورے ملک میں 55سے 65فیصد مسلمانوں کا نام ووٹر لسٹ میں درج نہیں ہے۔
میں کہنا یہی چاہتا ہوں کہ قیادت مشکل نہیں ہے۔ اور میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ ڈاکٹر ایوب کو قیادت کی لالچ نہیں ہے۔ مسلمان آگے بڑھیں اور قیادت کریں۔ اور اس لیے جب میں نے پیس پارٹی کی بنیاد رکھی تو یہ نعرہ بھی دیا۔ 'اپنی سیاست' اپنی قیادت۔ میں ایک مکمل مشن اور اعداد و شمار کے ساتھ ایک بھرپور اسٹریٹجی لے کر آیا تھا۔ اور سیاسی پارٹیاں بخوبی واقف تھیں کہ مسلمان قوم ، اتی دلت اور اتی پچھڑوں کے ساتھ مل کر حکومت کا قیام کر سکتی ہے۔ اور اسی لیے تمام سیاسی پارٹیوں نے اپنا نشانہ بنانے کی کوشش۔
اقبال نے کہا تھا۔
کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق
میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند
یہاں میں کہنا چاہوں گا کہ میرا مشن اور تھا۔۔۔ میری فکر دوسروں سے مختلف تھی۔ میں سیاست برائے سیاست سے الگ ایک مشن لے کر چلاتھا۔۔۔ اور مجھے امید تھی۔
کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی دیتے ہیں
ڈھونڈھنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں۔
میں آزادی کے 9برس بعد پیدا ہوا۔ آنکھیں کھولیں اور ہوش سنبھالا تو احساس ہوا۔ آزادی اپنے ساتھ مسلمانوں کے مستقبل کو بھی بھی بہا کر لے گئی ہے۔ 1983میں آئی۔اے۔ایس(الائیٹڈ)میں کامیابی حاصل کی۔ لیکن چھ مہینے بعد ہی استعفی دے کر اپنے لیے میڈیکل کی ایک نئی دنیا تلاش کر لی۔ یہ مضبوط زمین در اصل میرے مشن کا حصہ تھی ۔ میں الزامات سے کبھی نہیں گھبرایا۔ میں نے سیاست کا گہرائی سے مطالعہ کیا تو مسلمانوں کی پسماندی کی وجوہات ایک ایک کر کے سامنے آتی گئیں۔ 10اگست 1950جواہر لعل نہرو نے پوری سوجھ بوجھ کے ساتھ مسلم ریزرویشن کا قتل کر دیا گیا۔ آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے یہ مسلمانوں کو حاشیہ پر ڈالنے کی پہلی کوشش تھی۔ اس سے مسلمانوں کی بنیاد کمزور ہوئی اور وہ سماج کے دوسرے طبقوں سے بھی پچھڑتا ہوا پسماندگی کی سب سے نچلی پائیدان پر پہنچ گیا۔ پنڈت نہرو یہ نفسیات جانتے تھے کہ مسلمانوں کو اقتصادی طور پر کمزور کردو تو ان پر حکومت آسانی سے ہو سکتا ہے۔ اور یہیں سے میرا مشن شروع ہوا کہ حکومت مسلمان کیوں نہیں کر سکتے؟ اور یہیں سیاست کا دوہرا معیار اور دوغلا چہرہ بھی نظر آیا۔ سیاسی پارٹیاں جن مسلم امیدواروں کو انتخاب میں کھڑا کرتی تھیں، در اصل ان کی حیثیت کسی 'بچولیے' سے زیادہ نہیں ہوتی تھی۔ سیاسی پارٹیاں ان مسلم امیدواروں کو مسلمانوں کا ووٹ لینے کے لئے استعمال کرتی تھیں۔ پھر مطلب نکل جانے کے بعد انہیں ڈسٹ بین میں ڈال دیتی تھیں۔ان میں سے کسی نے بھی نہ اردو کی لڑائی لڑی نہ مسلمانوں کے مسائل کو سنجیدگی سے اٹھایا۔ نہ رنگناتھ مشرا کی سفارشات کو نافذ کرنے پر ہی زوردیا۔ در اصل مسلم ووٹ کی تقسیم کے لٹیرے یہ ہیں۔ مسلمانوں کو ان سے بچنے کی ضرورت ہے۔
کچھ اخبارات یہاں تک لکھتے ہیں کہ اگر واقعی مودی کو روکنا ہے تو مسلم پارٹی نہیں، لیگ مسلمانوں کے حقوق جس پارٹی سے مل سکیں، اس پارٹی کا انتخاب کرنا ہے۔ کیا کانگریس، سپا، بسپا سے حقوق ملے؟ یا مستقبل میں ابھی بھی ملنے کی امید ہے؟ کانگریس کے پرانے کارناموں کو بھول بھی جائیے تو یہی راہل گاندھی ہیں جنہوں نے مظفر نگر جاکر کیمپ کے پناہ گزیں مسلمانوں کو آئی ایس آئی سے تعلق رکھنے والا بتایا تھا۔ سپا کی بات کیجئے تو ملائم سنگھ شہید بابری مسجد پر پہلا ہتھوڑا چلانے والے ساکشی مہاراج کو راجیہ سبھا میں بھیجتے ہیں۔ کبھی وشنو ہری ڈالمیا کے گلے لگتے ہیں اور کبھی اڈوانی کی شان میں قصیدے پڑھتے ہیں اور جب مظفر نگر جل رہا تھا، سفی جاکر جشن مناتے ہیں_ بسپا کی بات کیجئے تو مایاوتی تین بار بھاجپا کے ساتھ مل کر سرکار بنا چکی ہیں اور ان کی حکومت میں مسلم شہر کے نام تک تبدیل کردیئے جاتے ہیں_ عام آدمی پارٹی اپنے ایجنڈے میں سکھ دنگے 1984 کو تو جگہ دیتی ہے لیکن بٹلہ ہاؤس کا تذکرہ تک نہیں ہوتا۔
میں نے کچھ دن پہلے یہ بات اٹھائی تھی کہ اگر مودی کو شکست دینا ہے تو سیکولر کہے جانے والی یہ پارٹیاں مل کر انتخاب کیوں نہیں لڑتیں۔ اگر واقعی ملک کی حفاظت اور فرقہ واریت کو روکنا ان کا منشا بنے تو سیاست میں کوئی کام مشکل نہیں ہوتا۔ میں خود آگے بڑھ کر اس مہم میں ان کا ساتھ دیتا مگر آہستہ آہستہ یہ تمام سیاسی پارٹیاں بے نقاب ہو چکی ہیں۔ اور اس مغالطے میں نہ رہیے کہ یہ پارٹیاں مسلمانوں سے ہمدردی رکھتی ہیں_ ان کا مقصد مودی کو بڑا خطربتاکر آپ کو گمراہ کرکے، آپ کو خوفزدہ کرکے آپ سے ووٹ لینا چاہتی ہیں۔ غور کیجئے وہ کانگریس جس نے بابری مسجد کا تالا کھلوایا، جس کی حکومت میں مورتیاں رکھی گئیں جس کی حکومت میں بابری مسجد شہید ہوئی، وہ آپ کی کیسے ہوسکتی ہے؟ جس کی حکومت میں بٹلہ ہاؤس جیساخوفناک حادثہ سامنے آتا ہے۔ جب گجرات جلتا ہے تو سونیا گاندھی مسلمانوں کے زخموں پر مرحم رکھنے کے لیے گجرات کا دورہ کرسکتی تھیں۔ مگر کیوں امید رکھیں؟ سب سے زیادہ فسادات تو کانگریس کی حکومت میں ہوئے۔
سپا اکثریتوں کو خوش کرنے کے لیے اپنے آفیسر کی مٹنگ طلب کرتے ہیں۔ اور سومناتھ کے طرز پر رام مندر بنانے کا اعلان کرتے ہیں اور یہ خبر اخباروں کی زینت بنتی ہیں۔ ملائم کب سے مسلمانوں کے ہوگئے۔ سپا سے کیوں ہمدردی کی جائے۔
بسپا عام آدمی پارٹی کی کہانی بھی کچھ اس سے مختلف نہیں کہ ان سب کو مسلمانوں کے ووٹ کی ضرورت ہے۔
اور یہیں پر میرا سوال ہے کہ یہ سب کیا مودی کو روکنے کے لیے ہے؟ فرض کیجئے کہ مودی آجاتے ہیں تو خطرہ کس پر ہے؟ مسلمانوں پر؟ کیا گجرات کے قاتل کو مسلمانوں معاف کردیں گے؟
اس کا جواب ہے_ نہیں۔
پھر مودی کو دور رکھنے کے لیے آپ جن سیکولر پارٹیوں کو اپنی حمایت دینا چاہتے ہیں، ذرا ان کی تاریخ میں جاکر غور کیجئے تو یہ پارٹیاں بھی کہیں زیادہ خطرناک ہیں۔
یعنی خطرہ مودی سے بھی ہے اور خطرہ باقی سیاسی پارٹیوں سے بھی ہے۔
یعنی کوئی بھی سیاسی پارٹی آجائے، مسلمان حاشیہ پر ہی رہے گا۔ اور محض ووٹ بینک بن کر رہے گا۔
پھر اگر ڈاکٹر ایوب نے یہ مشن اپنے ہاتھوں میں لیا کہ مسلمانوں کی قیادت کیوں نہیں؟ تویہ جرم کیونکر اور کیسے ہوا؟ اتی دلت اور اتی پچھڑوں کو شامل کرلیں تو اس خواب کی تعبیر آسانی سے نکل سکتی ہے۔ اس لیے کہ اب محض مودی کو نہیں روکنا ہے، بلکہ اپنی سیاست اور اپنی قیادت کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنا ہے۔
جب دارالحرم کی طرف دشمنوں کی ناپاک نظریں لگی تھیں، ایک آواز گونجی۔ ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے۔ اور دنیا اس حقیقت سے واقف ہے کہ مسلمان ایک ہوں تو کس کی مجال کہ حرم کی طرف نگاہ بھی اٹھاکر دیکھ سکے۔ ذرا غور کیجئے تو ہندوستان کے مسلمان اگر مسلک اور برادری سے اوپر اٹھ کر متحد ہو جائیں اور سیاسی قیادت کی ٹھان لیں تو یہ کیونکر ممکن نہیں؟ مگر اس کے لیے آپ سب کی ضرورت ہے۔ مدارس کی۔ علماء کی۔ مسلم تنظیموں کی۔ مسلم نوجوانوں کی، اردو اخباروں کی۔۔۔ ہم ایک ہو جائیں تو کس کی ہمت جو ہماری حب الوطنی پر سوالیہ نشان اٹھا سکے؟ ہماری غیرت کو للکار سکے؟ ہمیں دہشت گرد ٹھہرا سکے؟ ہمیں فرضی انکاؤنٹر میں ہلاک کر سکے۔ ہمیں فرقہ وارانہ فسادات میں موت کا نوالا بننے کے لیے جھونک سکے۔ ہم ایک ہوں تو سیاسی حصہ داری، شناخت اور قیادت سے ہمیں کون روک سکتا ہے؟
اور میرا جرم یہ ہے کہ آزادی کے 67برسوں کے لہو لہو موسم کو دیکھتے ہوتے ہوئے میں نے ایک مشن کے طور پر پیس پارٹی کی بنیاد ڈالی اور مسلم قیادت اور سیاسی مضبوطی کا خواب دیکھا۔
مجھے بس یہ جاننا ہے کہ مجھے ڈاکٹر محمد ایوب کو یا کسی بھی مسلمان کو یہ خواب دیکھنے کا حق کیوں نہیں؟

**
ڈاکٹر محمد ایوب
قومی صدر، پیس پارٹی

To dream about a Muslim leadership is crime?

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں