ترنمول حکومت مسلمانوں کی مجموعی ترقی کی سچائی بتائے - کانگریس - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-03-25

ترنمول حکومت مسلمانوں کی مجموعی ترقی کی سچائی بتائے - کانگریس

کولکتہ۔
(ایس این بی)
شمالی کولکتہ پارلیمانی حلقہ سے کانگریس کے امیدوار سومن مترا نے ترنمول کے انتخابی منشور کو کھوکھلا بتاتے ہوئے سوال کیا ہے کہ ڈھائی برس قبل جن وعدوں کی بنیاد پر ترنمول کانگریس کو عوام نے ووٹ دے کر اقتدار سونپا تھا کیا وہ پورا کیا گیا ہے؟ خاص طورپر اقلیتوں کے تعلق سے ریاستی حکومت کے اقدامات لالی پاپ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دیا گیا ہے وہاں اردو والوں کو کتنی ملازمتیں فراہم کی گئی ہیں۔ کیا سبھی سرکاری محکموں میں اردو میں سرکاری کام کاج کیلئے اہلکاروں کی تازہ تقرری کردی گئی ہے؟ دراصل وہاں نتیجہ صفر ہے۔ سومن مترا نے بیان میں کہاکہ اقتدار ملتے ہی عالیہ یونیورسٹی کے نام میں مدرسہ جوڑنے کا وعدہ کیاتھا مگر کیا ہوا؟ یونیورسٹی کیلئے زمین الاٹ کئے جانے کا دعویٰ کیا گیا ہے مگر وہ زمین کہاں اور کیسی ہے کیا اس کے متنازعہ زمین ہونے کی حقیقت مسلمانوں کو بتائی گئی ہے؟ ٹھیک اسی طرح جب کلکتہ میونسپل کارپوریشن میں پہلی بار ترنمول کانگریس کا بورڈ قائم ہونے کے دوران اعلان کیا گیا تھا کہ کلکتہ کے مسلمانوں کی بڑھتی آبادی کے پیش نظر نئے قبرستان کی جگہ الاٹ کردی گئی ہے۔ مگر نتیجہ صفر ہے کیونکہ وہ زمین کا مالک کوئی اور ہے لہذا کوئی نیا قبرستان نہیں ملا۔ نتیجتاً مسلمانوں کو قبر میں بھی سکون نہیں رہا ہے اور مقررہ معیاد سے قبل دوبارہ قبروں کو کھودا جاتا ہے۔ سومن مترا نے کہاکہ ترنمول کی حکومت بتائے کہ بنگال چھوڑئیے صرف کلکتہ میں کتنے نئے اردو اسکول قائم کئے ہیں؟ ریاستی حکومت نے ہزار مدرسوں کو منظوری دینے کا اعلان کیا مگر ڈھائی سال میں صرف ایک مدرسہ کو منظوری ملی ہے جس کے اساتذۃ کی تنخواہ حکومت فراہم کرتی ہے جبکہ بغیر امداد والے تقریباً ڈھائی سو مدرسوں کو منظوری ملی۔ جنہیں مرکزی حکومت سے فنڈ حاصل ہوتا ہے۔ اردو میڈیم اسکولوں میں مارکسی دور کی لعنت شیڈول کاسٹ اور شیڈول ٹرائب (SC/ST) کا کوٹہ مسلمانوں کی نئی نسل کو تعلیمی طورپر اپاہج بنارہا ہے۔ ڈھائی میں بھی اس کا حل نہیں نکالا گیا۔ مارکسی دور مے سی پی ایم کو نشانہ بناتے ہوئے اس کے حل کیلئے ترنمول لیڈران نے بڑی باتیں بنائی تھی۔ مگر مسئلہ جوں کا توں ہے۔ عالیہ یونیورسٹی کا ڈھانچہ کا جائزہ لیا جائے تو وہ کسی معیاری کالج کی مناسب سے ڈھانچہ بھی حاصل نہیں کرسکا ہے۔ معمر کانگریسی رہنما سومن مترا نے کہاکہ گذشتہ ہفتہ کلکتہ ہائی کورٹ نے مدرسہ سروس کمیشن کو غیر دستروی قراردیتے ہوئے مدرسہ کو اپنی شناخت رکھتے ہوئے اسے چلانے کا اختیار ہے۔ پچھلی سی پی ایم کی حکومت اس کے خلاف تھی اور اب ترنمول حکومت بھی اس کے خلاف عدالت جارہی ہے۔ کیا اس سے عیاں نہیں ہورہا ہے کہ پریورتن کے نام پراقتدار کی تو تبدیلی ہوگئی مگر ذہنیت نہیں بدلی ہے اور مسلمانوں کو اختیار سونپنے کو تیار نہیں جبکہ دوسری اقلیتوں کو اس سلسلے میں اختیار سونپ دیا گیا ہے۔ اردو اسکولوں کو بھی اسی لئے اپاہج بنائے رکھا گیا ہے۔ وزیراعلیٰ کے مسلمانوں کو سرکاری ملازمتوں میں نمائندگی بڑھانے کا دعویٰ انتہائی پسماندہ طبقوں میں کئی برادریوں کو شامل کرنے کا دعویٰ کئے جانے کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ حکومت وائٹ پیپر جاری کرکے بتائے کہ اس اعلانیہ کے بعد مختلف محکموں کو سرکاری ملازمتوں میں کتنے مسلمانوں کو ملازمت ملی؟ دراصل مارکسی دور کی طرح اب بھی ان کیلئے حالات نہیں بدلے ہیں۔ جبکہ دعویٰ کیا جاراہ ہے کہ سرکاری ملازمتوں میں مسلم نمائندگی بڑھی ہے اگر یہ سچائی ہے تو اس کے اعداد و شمار کیوں نہیں جاری کئے گئے۔ سومن مترا نے مرکز سے اقلیتی علاقوں کی مجموعی ترقی کیلئے بنگال کو ملنے والے فنڈ پر کہاکہ ریاست کو فنڈ ملتا رہا مگر عدم اعتماد استعمال کے سبب واپس لوٹنے کی روایت برقرار ہے۔ مسلم اسکالرشپ کیلئے مرکز سے فنڈ فراہم کی جارہی ہے مگر متعدد اسکولوں میں اسکالرشپ لوٹادی جارہی ہے اور ریاستی حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ خود روزگار اسکیموں کے تحت مرکز اقلیتوں کیلئے فنڈ فراہم کرتی ہے مگر مغربی بنگال اقلیتی و مالیاتی و ترقیاتی کارپوریشن تقریباً مفلوج ہوکر رہ گیا ہے۔ ضرورتمندوں تک اسکیم کا فائدہ نہیں پہنچ رہا ہے۔ سومن مترا نے کہاکہ مجموعی طورپر مارکسی اور ترنمول حکومت میں زیادہ فرق نہیں ہے۔ اب عوام کو زبانی وعدوں پر مزید گمراہ نہیں کیا جاسکے گا اور عام چناؤ ایک نئی سیاسی کروٹ لائے گا۔ سی پی ایم نے بھی اسی طرح کا استحصال کیا تھا اور نتیجہ سامنے ہے۔ دوسروں کو بھی اس کا احساس کرلینا چاہئے۔ ہوا کار رخ بدل گیا ہے اور اس کی شروعات کلکتہ سے ہورہی ہے۔

--

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں