انجمن ترقی اردو ہند کے سہ روزہ بین الاقوامی سمینار کا اختتام - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-03-09

انجمن ترقی اردو ہند کے سہ روزہ بین الاقوامی سمینار کا اختتام

8/مارچ 2014
انجمن ترقی اردو (ہند) کے سہ روزہ بین الاقوامی سمینار کے دوسرے دن کا پہلا اجلاس صبح ساڑھے دس بجے ممتاز مورّخ ڈاکٹر ہتیندر پٹیل (کولکاتا) کی صدارت میں منعقد ہوا، جس میں علم و ادب اور تاریخ کی اہم شخصیتوں نے مقالے پیش کیے۔ اجلاس کا پہلا مقالہ ممتاز اسکالر پروفیسر تصدق حسین نے صوفی ازم اور اردو کے موضوع پر پڑھا، جس میں انھوں نے بہت ہی جامع اور واضح طریقے سے صوفی ازم کی تشکیل، نیز اس کے آغاز و ارتقا نیز اس کے مختلف سلسلوں پر بہت عمدہ روشنی ڈالی اور کہا کہ اردو کی ترویج و اشاعت میں صوفیاے کرام کا بھی اہم رول رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہندستان کے مختلف شہروں کے علاوہ دوسرے ممالک سے بھی صوفیاے کرام ہمارے ملک میں آئے اور تبلیغ و اشاعت کے لیے یہاں کی مقامی بولیوں اور زبانوں، خاص طور سے اردو سے بھی استفادہ کیا۔ انھوں نے ’کشف المحجوب‘ کو صوفی ازم کی بہت اہم کتاب قرار دیا۔ڈاکٹر شاہد حسن کمال (پاکستان) نے ’ہمارے ادب کا المیہ‘ کے عنوان سے بہت ہی عمدہ اور اہم مقالہ پیش کیا، جس میں انھوں نے کہا کہ اردو ادب خاص طور سے اردو شاعری میں ایسی بہت سی باتیں کہی گئی ہیں جن کا زندگی اور زمین سے تعلق نہیں۔ کبیر داس پہلا شاعر تھا جو ارتباط اور مذہبی اتحاد کا حامی رہا ہے۔ امیر خسرو کی بھی خاص بات یہی ہے کہ ان کی شاعری زمین سے ہم آہنگ تھی۔ اردو میں ہمیں نظیراکبرآبادی ایسے شاعر نظر آتے ہیں جنھوں نے بہت ہی سہل اور سادہ زبان میں زمین سے جڑے موضوعات کو شاعری کا حصّہ بنایا، یہی وجہ ہے کہ وہ آج بھی ہر خاص و عام کے پسندیدہ شاعر ہیں۔ڈاکٹر گریش چند پانڈے (بنارس) نے اپنا مقالہ ’وہابی تحریک ‘ کے موضوع پر پڑھا، جس میں انھوں نے اس تحریک کے قائدین سیّد احمد شہید اور دوسرے عالموں کی قربانیوں کا تذکرہ کیا۔ انھوں نے سبھی زبانوں کو آسان اور سہل بنانے کی ضرورت پر زور دیا اور ہندستان کی مشترکہ تہذیب کی دَین اردو زبان ہے، اس لیے اردو کی بقا اور تحفظ کا مطلب مشترکہ تہذیب کا تحفظ ہے۔بچوں کے ادیب ڈاکٹر راجیش کھر نے کہا کہ سمینار کے مختلف اجلاسوں میں مشترکہ تہذیب، روایات اور اقدار کی نہ صرف بات کی گئی بلکہ اس کا عملی نمونہ آج کے اس اجلاس کا اسٹیج ہے جہاں مختلف زبانوں اور کلچرز سے وابستہ حضرات براجمان ہیں۔ یہ بڑی اہم اور خوشی کی بات ہے۔ انھوں نے بچوں کے مختلف قلم کاروں کی تحریروں کے حوالے سے بچّوں کی نفسیات کا بہت عمدہ تجزیہ کیا اور بتایا کہ بچّے فطرتاً انصاف پسند ہوتے ہیں اور وہ ذات، مذہب اور زبان کی بنیاد پر تفریق کے قائل نہیں۔ وہ رائی کو پہاڑ نہیں بناتے۔ راجیش کھر صاحب نے زبان کی ترقی اور فروغ کے لیے اسے اپنے گھروں میں رائج کرنے پر زور دیا۔آخر میں جلسے کے صدر پروفیسر ہتیندر پٹیل نے پیش کیے گئے تمام مقالوں پر عالمانہ گفتگو کی اور بتایا کہ خوشی کی بات ہے کہ ان مقالوں سے علم و ادب کے بہت سے دریچے وا ہوئے ہیں اور امید ہے کہ بعد کے اجلاسوں میں بھی کئی اور اہم موضوعات زیرِ بحث آئیں گے۔ اس اجلاس میں کئی مقالوں پر کھل کر بحث و مباحثہ بھی ہوا اور مقالہ نگاروں سے سوالات بھی کیے گئے جن کا انھوں نے بہت ہی متانت اور سنجیدگی سے جواب دیا۔
اس کے بعد دوسرا اجلاس شروع ہوا، جس میں پہلا مقالہ ڈاکٹر گیتا پٹیل (امریکہ) نے ’میرا جی اور جدید اردو‘ کے عنوان سے پڑھا۔ انھوں نے کہا کہ میرا بائی اور میراجی جو کسی حد تک اپنے نام کی وجہ سے مماثلت رکھتے ہیں، مختلف زمانوں کے ہوتے ہوئے ان کے کلام میں بھی مماثلت ملتی ہے۔ انھوں نے اپنی چیزوں کو امریکی آنکھوں سے دیکھنے کے بجاے خود اپنی یعنی ہندستانی آنکھوں سے دیکھنے پر زور دیا۔
’نظیر اکبرآبادی اور اُن کی خدمات‘ کے عنوان سے ڈاکٹر باراں فاروقی نے اپنا مقالہ پڑھا۔ انھوں نے نظیر کی نظمیں ’بلدیو‘، ’آدمی نامہ‘ اور ’ریچھ کا بچہ‘ پر روشنی ڈالتے ہوئے آگرے شہر کے پس منظر میں ان کی تربیت و نشوونما پر خاص توجہ دی۔ انھوں نے نظیر اکبرآبادی کو محض بازاروں کا شاعر کے بجاے عوامی شاعر قرار دیا۔محترمہ ثانیہ اقبال ہاشمی نے’عورتوں کی لڑائی ملّا سے اور محلّے میں‘ کے عنوان سے اپنا مقالہ پیش کیا اور عطیہ حسین اور قرۃ العین حیدر کے حوالے سے اپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ موجودہ دور میں عورتیں کہیں بھی محفوظ نہیں ہیں، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اب عورتیں اپنے حقوق کی لڑائی کے لیے پہلے سے کہیں زیادہ منظم ہوکر لڑ رہی ہیں اور انھیں اپنی لڑائی میں کامیابی مل رہی ہے۔جناب انڈریو ایمسٹنز نے اپنے مقالے میں بہت ہی خوب صورتی سے اردو زبان کے ارتقا پر روشنی ڈالی اور مستقبل میں اس کے برصغیر میں ابھرنے کے روشن امکانات کے لیے اپنی امیدیں ظاہر کیں۔آخر میں صدرِ جلسہ پروفیسر سچن تیواری نے اپنے صدارتی کلمات میں تمام مقالوں پر مختصراً روشنی ڈالی اور کہا کہ تمام مقالے اپنی نوعیت کے اعتبار سے بہت اہم اور عالمانہ تھے۔آج کے تیسرے اور آخری اجلاس کی صدارت پروفیسر ہتیندر پٹیل نے فرمائی اور جس میں چھے مقالے پیش کیے گئے۔ پہلا مقالہ ڈاکٹر محمد سجاد نے ’بہار کے سوانحی ادب میں مشترکہ ادب کی عکاسی‘ کے موضوع پر پڑھا۔ دوسرا مقالہ ڈاکٹر مظفر حسین سیّد نے پڑھا جس میں انھوں نے ہندستان میں اردو کے مسائل پر نہ صرف روشنی ڈالی بلکہ ان کے حل کے لیے بہت ہی مفید تجاویز بھی پیش کیں۔ تیسرا مقالہ ڈاکٹر جاوید رحمانی نے ’اردو شاعری کا قلندرانہ آہنگ‘ کے عنوان سے پڑھا، جس میں انھوں نے کہا کہ قومی یکجہتی کے فروغ کے لیے اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں جس خلوص اور جذبے سے کام کیا گیا آج ان کا فقدان ہے۔ ڈاکٹر قمر عالم کے مقالے کا عنوان ’ہندستان کی مشترکہ تہذیب میں غیر مسلم نعت گو شعرا کا حصہ‘ تھا، جس میں انھوں نے کہا کہ ہندستان کی مشترکہ تہذیب کے فروغ میں غیر مسلم نعت گو شعرا کی خدمات کو کسی بھی صورت میں فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ جناب عبدالسمیع نے مرزا محمد رفیع سودا کا تصورِ انسان‘ کے عنوان سے مقالہ پڑھا، جس میں انھوں نے سوداؔ کی شاعری میں مذہبی رواداری اور انسان دوستی کے عناصر پر بہت عمدہ روشنی ڈالی۔ آخری مقالہ جناب نوشاد منظر نے ’ولی دکنی کی شاعری میں ہندستانی عناصر‘ کے عنوان سے پڑھا، جس میں انھوں نے کہا کہ ولی دکنی نے اپنی شاعری میں ہندستانی عناصر کی ترجمانی بڑی عمدگی سے کی ہے۔آخر میں صدرِ جلسہ نے تمام مقالوں پر گفتگو کی اور خوشی کا اظہار کیا کہ ان نوجوان اسکالروں نے بڑی محنت سے اپنے مقالے تحریر کیے اور اپنے موضوع کے ساتھ پورا پورا انصاف کیا۔اس موقع پر اہم شخصیات میں ڈاکٹر اطہر فاروقی جنرل سکریٹری انجمن ترقی اردو (ہند)،شاہد خان، مظہر عباس نقوی،ثاقب صدیقی جاوید رحمانی میڈیا کورڈینیٹرانجمن ترقی اردو (ہند)، انیس احمد وارثی، محمد عارف خان،نثار اختر وارثی اورشکیل پٹیل کے علاوہ بڑی تعداد میں ادیبوں، شاعروں، صحافیوں اور محبانِ اردو نے شرکت کی۔

anjuman-taraqi-urdu-seminar
9/مارچ 2014
انجمن ترقی اردو (ہند) کے زیرِ اہتمام منعقد سہ روزہ (۷ تا ۹؍مارچ) بین الاقوامی سمینار کا آخری دن اس لحاظ سے بہت اہم رہا کہ اِس کے پہلے اجلاس میں جو اردو تھیٹر کے لیے مخصوص تھا، تھیٹر کی دنیا کی ممتاز شخصیت جناب ٹوم آلٹر نے نہ صرف شرکت کی بلکہ بہت ہی شستہ زبان میں تھیٹر اور فلم کی دنیا کے اپنے بہت سے تجربات اور مشاہدات سے روبر کرایا اور کہا کہ تھیٹر اور فلم سماج اور معاشرے میں بیداری لانے کا بہت اہم ذریعہ ہیں۔ اس موقعے پر انھوں نے اپنے حالاتِ زندگی بیان کرتے ہوئے کہا کہ میری پیدائش مسوری کی ہے اور میرا بچپن اردو ماحول میں گزرا۔ انھوں نے اپنے آپ کو مولانا ابوالکلام آزاد کا مداح بتاتے ہوئے کہا کہ مجھے اُن کی کچھ چیزیں پسند ہیں تو کچھ چیزیں ناپسند بھی۔ اردو، ہندی تنازع کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ زبان کے معاملے میں ہمیں تھوڑا وسیع النظر بننا پڑے گا اور جس زبان کی وکالت گاندھی جی اور مولانا ابوالکلام آزاد نے کی یعنی ہندستانی کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ اردو اور ہندی کو لے کر ہمیں بہت زیادہ جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں۔ انھوں نے اردو رسمِ خط سیکھنے کی بھی پُرزور وکالت کی۔اس سے پہلے پروفیسر سچن تیواری نے مقالہ پیش کیا، جس میں انھوں نے کہا کہ زبان، کلچر اور ادب کی بنیاد ہے۔ انھوں نے تھیٹر کی اہمیت اور افادیت پر روشنی ڈالتے ہوئے اسے سماج کے لیے بہت اہم قرار دیا اور کہا کہ ڈرامے کے کردار کے مطابق زبان میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔ انھوں نے اردو ہندی کے باہمی اشتراک پر بھی زور دیا۔تھیٹر کی دنیا کی دوسری اہم شخصیت جناب دانش اقبال، جنھوں نے دارا شکوہ پر بہت ہی اہم ڈرامہ تحریر کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں مشکل حالات کے باوجود زبان، کلچر اور ڈرامے کے بقا اور تحفظ کے لیے جدوجہد کرنی ہی پڑے گی، انھوں نے اس موقعے پر ’چند روز اور میری جان‘ جو فیضؔ اور ان کی بیوی کے خطوط کی بنیاد پر تحریر کردہ اہم ڈراما ہے، اس کے مشتملات پر بہت عمدہ روشنی ڈالی۔دانش اقبال صاحب نے ڈراما نگاری کے میدان میں انھیں جن مسائل اور تجربات سے دوچار ہونا پڑتا ہے، ان کا بھی تذکرہ کیا۔اس اجلاس کے آخری مقالہ نگار ڈاکٹر اشلے این. پی. نے تھیٹر کے میدان میں سرگرم مختلف تھیٹر مراکز خاص طور پر اردو ڈراموں اور ڈرامانگاروں کا ذکر کیا اور کہا کہ سیاسی وجوہ کی بنا پر اردو اور ہندی کے درمیان فاصلے قائم کیے گئے ورنہ زبانیں تو باہمی میل جول اور ارتباط کا ذریعہ ہیں۔ انھوں نے بہت تفصیل سے اس موضوع پر اظہارِ خیال کیا ہے۔ اس اجلاس کی صدارت ورجینیا یونیورسٹی (امریکہ) کی ڈاکٹر گیتا پٹیل نے فرمائی۔اس اجلاس میں ’اردو، ہندی اور ہندستانی‘ کے موضوع پر بہت ہی عمدہ اور مفید گفتگو کی گئی اور اس سلسلے میں کئی سوالات بھی قائم کیے گئے جن کے جناب ٹوم آلٹر اور جناب دانش اقبال نے بہت ہی نرم لب و لہجے میں تسلّی بخش جواب دیے۔
بین الاقوامی سمینار کے آخری دن کا دوسرا اجلاس پروفیسر علی احمد فاطمی کی صدارت میں شروع ہوا، جس میں سب سے پہلے جناب سیف الدین احمد صاحب نے مغلوں کے زمانے میں اردو زبان و ادب کی ترقی و ترویج کے بارے میں روشنی ڈالی اور کہا کہ اردو کا خمیر ہی مشترکہ کلچر سے پیدا ہوا ہے۔ نظیر اکبرآبادی کی نظم گرونانک جی کے حوالے سے اور نوابانِ رام پور کے کردار کو بھی اردو زبان کی ترویج و اشاعت کے سلسلے میں اہم قرار دیا۔محترمہ رعنا صدیقی زماں نے، جو انگریزی روزنامہ اخبار ’دی ہندو‘ میں آرٹ اینڈ کلچر شعبے کو دیکھتی ہیں، اپنے مقالے میں میڈیا کے ذریعے آرٹ اینڈ کلچرل پروگرام اور خاص طور سے اردو اداروں کے ذریعے آرگنائز کیے گئے پروگراموں کو نظر انداز کیے جانے کی طرف توجہ دلایا اور کہا کہ ہمیں مسلسل اس مسئلے کو اٹھاتے رہنا چاہیے اور اپنی آمدنی کا کچھ حصہ پبلسٹی کے لیے بھی خاص کرنا چاہیے اس کے بغیر ہم اپنی پبلسٹی نہیں کرسکتے۔پروفیسر ہتیندر پٹیل صاحب جو دو دنوں سے اس سمینار کو دیکھ رہے ہیں، اس اجلاس میں ان کو بھی مقالہ پڑھنا تھا، لیکن انھوں نے مقالے کی بجاے اپنے تاثرات کو بہت ہی دکھ درد کے ساتھ بیان کرتے ہوئے کہا کہ ہم کو اپنے محدود دائرے سے باہر نکلنا چاہیے۔ ہم ابھی تک انیسویں صدی ہی کے جھگڑے میں پھنسے ہوئے ہیں اور تناؤ کے شکار ہیں۔ جب اردو زبان کی بات ہم کرتے ہیں تو ہندی سے مقابلہ کرنے لگتے ہیں۔ پروفیسر موصوف نے اپنی تقریر میں مزید کہا کہ یہاں دو تاریخیں ہیں، ایک تاریخ وہ ہے جو کتابوں میں ہے اور دوسری تاریخ وہ ہے جو ہمارے اور عوام کے ذہنوں میں ہے اور یہی اہم ہے۔ ہم اپنے اندر کئی تاریخوں کو سمیٹے ہوئے ہیں اس لیے آپس میں ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم حال سے ماضی کی طرف جائیں اور جب ہم ماضی میں جائیں گے تو دیکھیں گے کہ ۱۸۵۰ء سے قبل ہم آپس میں کبھی نہیں لڑے ہیں۔ یہ تمام جھگڑے ۱۸۵۰ء کے بعد کے پیداور ہیں، اس لیے ہمیں انیسویں صدی کو پیچھے چھوڑکر اکیسویں صدی کی طرف بڑھنا ہوگا تبھی ہم امن و سلامتی سے رہنا سیکھ پائیں گے۔عنایت علی زیدی اور سنیتا زیدی صاحبان نے جو دونوں میاں بیوی ہیں، ایک ہی مقالے کو نصف نصف کرکے پڑھا، جس میں ان دونوں نے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے حوالے سے اردو زبان اور مشترکہ کلچر کے فروغ کا ذکر کیا اور کہا کہ مشترکہ کلچر کے بغیر اردو زبان پروان چڑھ ہی نہیں سکتی تھی۔آخر میں صدرِ جلسہ پروفیسر علی احمد فاطمی نے جو کسی وجہ سے اپنا مقالہ پہلے اجلاس میں نہیں پڑھ پائے تھے، اس اجلاس میں پڑھا، جس میں انھوں نے کہا کہ ایک تاریخ وہ ہے جس کو حاکمِ وقت اپنی نگرانی میں لکھواتا ہے، لیکن ان تاریخوں میں عوامی تاریخ نہیں ہوتی، عوامی تاریخ تو ادب میں پائی جاتی ہے، اس لیے ادب کو کسی بھی قیمت پر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ فاطمی صاحب نے مزید کہا کہ اردو زبان و ادب کا خمیر ہی مشترکہ تہذیب و کلچر کی بنیاد پر قائم ہوا ہے۔انجمن ترقی اردو (ہند) کے سہ روزہ بین الاقوامی سمینار کے اختتامی اجلاس میں ممتاز مورخ اور ٹفٹس یونی ورسٹی، امریکہ کی پروفیسر عائشہ جلال نے اختتامی خطبہ پیش کیا، جس میں انھوں نے اردو زبان کی تشکیل، آغاز اور بتدریج ارتقا اور پھر آزادی اور تقسیم کا وقوع ہونا نیز آزادی کے بعد کی خو ں ریز اور ہولناک صورتِ حال کا بہت عمدہ تاریخی جائزہ لیا۔ انھوں نے زبان کو مذہب اور فرقے سے جوڑنے کو خطرناک قرار دیا اور کہا کہ زبان کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ انھوں نے تاریخی حوالوں سے اردو اور ہندی تنازع کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ اس تنازع کو آگے بڑھانے میں فرقہ وارانہ سیاست اور مفاد پرستوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔سمینار کے آخری دن ۷ بجے ایک نہایت ہی اہم اور دل چسپ پلے ’مولانا آزاد‘ تھیٹر کی دنیا کی مشہور شخصیت ٹوم آلٹر کی اداکاری اور ڈاکٹر ایم. سعید عالم کی ہدایت کاری میں پیش کیا گیا۔ اس پلے کی مقبولیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کے اب تک دنیا بھر میں 135 شوز ہوچکے ہیں اور یہ 136واں شو ہے۔ اِس پلے کو لوگوں نے بہت ہی سنجیدگی اور دل چسپی سے دیکھا۔اس موقع پر اہم شخصیات میں ڈاکٹر اطہر فاروقی جنرل سیکریٹری انجمن ترقی اردو (ہند)،پروفیسر سید شاہد مہدی، کلدیپ نیّر،ڈاکٹر محمد کاظم، جاوید رحمانی میڈیا کارڈینیٹر ا نجمن ترقی اردو (ہند)،سنجیو سراف، ڈاکٹر عبدالنبیل صدیقی،ثاقب صدیقی، سید مظفر حسین ،محمد ساجد و دیگرموجود تھے۔

Anjuman Taraqi Urdu Hind int'l 3-days seminar ends

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں