امریکی تنظیم تقسیم ہند کی دھندلاتی یادوں کا ریکارڈ جمع کرنے میں سرگرم - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-03-10

امریکی تنظیم تقسیم ہند کی دھندلاتی یادوں کا ریکارڈ جمع کرنے میں سرگرم

india-partition
جنوبی ایشیا میں 1947ء میں انتہائی پرتشدد تقسیم اور ہندوستان اور پاکستان کے مورد وجود میں آنے کی داستان اور تفصیلات میں اقطاع عالم میں آباد لاکھوں افراد کی دلچسپی ہنوز برقرار ہے اور اسے اکٹھا کرنے اور ان تفصیلات کو محفوظ کرنے کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ برکلے کی یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں والینٹرس کی ایک مختصر سی ٹیم اور ان کی نئی تنظیم دی 1947ء پارٹیشن آرکائیوز اس سانحہ کی تاریخ کو محفوظ رکھنے میں تعاون کررہی ہے۔ گروپ، کراؤڈ سورسنگ کے ذریعہ عینی شاہدین کے بیانات اور زبانی سنی سنائی تفصیلات کے علاوہ دل دہلادینے والے واقعات و تجربات سے گذرنے والوں کی ایک ایک بات کو جمع کرکے انہیں محفوظ رکھ رہا ہے۔ گذشتہ سال 20ممالک سے 500 افراد کو شہری مورخین کی حیثیت سے مفت آن لائن ورکشاپس کے ذریعہ تربیت دی گئی اور انہوں نے انٹرویوز پر مشتمل تقریباً ایک ہزار ویڈیو جمع کئے جو ایک تا 9گھنٹوں پر مشتمل ہیں۔ دی 1947 پارٹیشن آرکائیو کی بانی گنیتا سنگھ بھلا نے بتایاکہ ہم کراؤڈ سورسنگ اور بنیادوں تک رسائی حاصل کرکے معلومات اکٹھا کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ لہذا ہم نے اپنے کام کی انجام دہی کیلئے یہی راہ اختیارکی۔ اس راہ کے اختیار کرنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ کوئی بھی شخص دنیا کے کسی بھی خطہ، کسی بھی گوشہ سے اس کام میں ہمارے ساتھ تعاون کرسکتاہے اور ہمیں معلومات فراہم کرسکتا ہے۔ بھلا نے دسمبر 2012ء میں تحقیق کے عہدہ سے دستبرداری حاصل کرلی تھی تاکہ وہ اس پراجکٹ پر کل وقتی توجہ مرکوز کرسکیں۔ اپنی ان کوششوں کے ذریعہ گروپ کے والینٹرس ایک ہزار عام شہریوں کو تاریخ نویسی کی تربیت دینے اور 2014ء میں 3 ہزار شاہدین کے بیانات کا ریکارڈ محفوظ کرنے سے حیوصلہ مند ہیں۔ پارٹیشن (تقسیم ہند) کے جاں کاہ مصائب اور دل شکن حادثات سے گذرسے زندہ افراد کی عمر اس وقت 80اور 90سال کے درمیان ہے۔ پارٹیشن آرکائیوز کے ارکان نے ان افراد کے علاوہ ایک مہم کے تحت ہجوم کو اکٹھا کرکے ان سے بھی عطیہ لیا ہے اور اب یہ مجموعی رقم تقریباً 35ہزار ڈالر ہوگئی ہے۔ ہم نے اس کام کو بہتر ڈھنگ سے انجام دینے کیلئے Indie go go سائٹ بھی قائم کی ہے جس کے ذریعہ رقم اکٹھا کرنے میں آسانی ہوگی۔ راتوں رات بے گھر ہونے والے اور تقسیم ہند سے متاثر ہوکر ہجرت پر مجبور ہونے والے زیڈ انصاری نے تحریر کیا کہ میں بوتل میں بند پودا(موبائیل پلانٹ) ہوں اور جس کا جی جہاں چاہے مجھے رکھ دے سکتا ہے۔ میں بے گھری اور بے وطنی کا شکار ہوں۔ میں جڑوں سے محروم ہوں لہذا جہاں چاہو وہیں رکھ دو۔ اپنی لاکھوں کی غیر منقولہ جائیدادوں اور منقولہ املاک سے محروم ہونے کے بعد وہ اپنی اور اپنے خاندان کی جان بچانے کیلئے لاکھوں دیگر مسلم خاندانوں کی طرح پاکستان منتقل ہوگئے تھے۔ ٹھیک ایسے ہی احساسات و تجربات سے گذرے جے ہیمراجنی نے سندھ (پاکستان) کے ایک چھوٹے سے ٹاون سے دہلی پہنچنے کے بعد محسوس کیا کہ آسمان اور اس میں بکھرے ہوئے ستارے ہو بہو ویسے ہی تھے جیسے پاکستان میں دکھائی دیتے تھے۔ پھر بھی یہ ہندوستان تھا۔ ایک اور مہاجر جی ایس سیکھون نے بتایاکہ مجھے ہجرت پر زبردستی مجبور کیا گیا۔ میرا جرم یہی تھا کہ میں بے قصور تھا اور یہ ہجرت کوئی قصور نہ کرنے کی سزا تھی۔ پارٹیشن آرکائیو ماقبل تقسیم کے حالات، طرز زندگی اور ثقافت کے علاوہ مابعد تقسیم ہجرتوں اور طرز زندگیوں میں تبدیلیوں کا بھی ریکارڈ جمع کرکے انہیں محفوظ رکھتا ہے اور اس عمل میں نسلی، مذہبی اور معاشی امتیاز کی کوئی گنجائش نہیں۔ ویڈیو یا بعض اوقات آڈیو بیانات کی شکل میں سب کچھ محفوظ کرلیا جاتا ہے۔ انٹرویو صرف اسی زبان میں لیا جاتا ہے جس میں متاثر شخص کو مہارت حاصل ہوا اور اس سلسلہ میں مادری زبان کو ترجیح دی جاتی ہے۔ علاوہ ازیں بات چیت انگریزی، اردو، بنگالی، ہندی، گجراتی، سندھی اور دیگر زبانوں میں بھی ریکارڈ کی جاتی ہے۔ گذشتہ سال آرکائیو نے جنوبی ایشیا میں 4اسٹوری اسکالرس کو فنڈس بھی فرائم کئے۔ اب اس مرحلہ میں بھلا امریکہ میں مقیم ہندوستانیوں سے بھی ان کے تجربات اور ان حالات میں ان پر گذرے واقعات کی تفصیلات بھی اکٹھا کررہی ہیں۔ انہوں نے بتایاکہ میں صرف غیر مقیم ہندوستانیوں سے ہی نہیں بلکہ دنیا کے ہر خطہ میں آباد دیگر افراد سے بھی ہمیں اپنے تجربات سے آگاہ کرنے کی درخواست کرتی ہوں۔ تقسیم ہند سے صرف ہندو یا مسلم ہی نہیں افغانستان کی سرحدوں سے برما (میانمار) تک کے افراد متاثر ہوئے ہیں، حتی کہ متاثرین میں برطانوی بھی شامل ہیں۔ بھلا نے خود اپنی کہانی سناتے ہوئے کہاکہ میرے آباد و اجداد کا تعلق لاہور سے تھا۔ میرے والد بھی لاہور کے تھے اور تقسیم کے وقت شیر خوار بچہ تھے۔ اپنے بھائیوں اور میری دادی کے ہمراہ امرتسر پہنچے۔ لہذا یہ میرے وجود کا ایک حصہ ہے۔

U.S. group preserves fading memories of 1947 partition

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں