ہدف مولانا عبدالقوی یا کچھ اور؟ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-03-28

ہدف مولانا عبدالقوی یا کچھ اور؟

maulana-abdul-qavi
ہم تو سمجھتے تھے کہ مولانا مفتی عبدالقوی صاحب کی گرفتاری کے ساتھ ہی مدارس کے طلبا کا لاکھوں کا ہجوم سڑکوں پر نکل پڑے گا اور ایک ایسا تاریخی احتجاج ہوگا کہ آئندہ کوئی بھی سرکار کسی بے قصور مسلمان عالم پر ہاتھ ڈالنے سے پہلے کئی بار سوچے گی۔ چونکہ سنگھ پریوار اور کانگریس نے مدارس پر ہمیشہ دہشت گردی کے تربیتی مراکز ہونے کا الزام لگایا ہے اسلئے ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ دشمنوں کا بھرم رکھنے کی خاطر ہی سہی کچھ تو ہنگامہ ہوتا۔ لیکن یہ کیا کہ نہ کوئی گھر سے نکلا نہ کوئی احتجاج ہوا۔ تمام علما، لیڈروں اور جماعتوں کی جانب سے سوائے اردو اخبارات میں بیانات اور پرانے شہر میں مسلمان غریب محلوں میں جلسوں کے علاوہ کچھ اور نہ ہوا۔ اور عبدالقوی صاحب کو گرفتار ہوئے تین چار دن سے زیادہ ہوگئے نہ کسی مدرسے کے طلبا سڑکوں پر نکلے، نہ کسی جماعت نے کسی پولیس کمشنر کا گھیراو کیا اور نہ کسی لیڈر نے اسمبلی یا پارلیمنٹ چلو کی تحریک برپا کی۔ دوسرے تو دوسرے خود جمیعت العلما کے مرکزی اور ریاستی قائدین صرف زبانی لعن طعن اور بددعاوں پر اکتفا کرتے نظر آئے۔ البتہ مجلس اور جمیعت نے کچھ وکلا کا فوری انتظام کردیا۔
یہ مدارس جو 1857 کے واقعہ کے بعد محض انگریزوں کا بائیکاٹ اور ان کے خلاف جہاد کے مقصدِ اولین کے ساتھ قائم کئے گئے تھے اور جنہوں نے جنگِ آزادی میں بے مثال قربانیاں پیش کی تھیں آج اتنے بزدل کیوں ہوگئے کہ ان کے ایک بڑے عالم کو مجرم بنادیاگیا اور سارے اپنے مدرسے کی چہار دیواریوں میں مرحوم زبانِ اردو میں بیانات جاری کرنے کے علاوہ کچھ کرنے کی ہمت اور شعور دونوں سے ہاتھ دھو بیٹھے؟ جمہوری جنگ پہلے سڑکوں پر پھر عدالتوں میں لڑی جاتی ہے۔ جانوں کے خوف سے گھر بیٹھے عدالتوں کے فیصلوں کا انتظار کرکے ہم نے بے شمار فسادات اور سینکڑوں بے گناہوں کو سالہا سال میں ملنے والے انصاف کا انجام دیکھ لیا۔ جب تک ایک فساد کی تحقیقات مکمل ہوتی ہیں کئی دوسرے فساد ہوچکے ہوتے ہیں۔ جب تک ایک بے گناہ کو بری کیا جاتا ہے تب تک کئی دوسرے معصوم، فرقہ پرست پولیس اور عدالتوں کے حوالے ہوچکے ہوتے ہیں۔
کیا مدارس کے لاکھوں کی تعداد میں یہ وہی بہادر دینی سپاہی ہیں جو دین کی حفاظت کیلئے سنْی شیعہ، فاتحہ میلاد اور دیگر عقائد کی بنیاد پر ایک دوسرے کو خارج از اسلام کرنے کیلئے مسجدوں اور محلْوں میں جنگیں لڑتے ہیں؟ مسجدیں الگ کرتے ہیں؟ دوسرے عقائد کے لوگوں سے مسجدوں کو پاک رکھتے ہیں؟ کیا ان مدارس کے نصاب میں یہی شامل ہے کہ دشمن کے خلاف نہیں بلکہ اپنے ہی کلمہ گو بھائیوں کے خلاف متحد ہوجاو اور ایک دوسرے کے ساتھ فتوے بازی، تکفیر، تحقیر اور جہاد و قتال کرو۔ اپنا کوئی بھائی دشمن کے ہاتھوں دھر لیا جائے تو تاوقتکہ وہ اپنے عقیدے کا نہ ہو دور سے تماشہ دیکھو؟ کیا وجہ ہے کہ ایک عالمِ دین گرفتار ہوتا ہے اور علما کو سردار اور نائبِ انبیا ماننے والی قوم یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ عالم بے قصور ہے اور دشمن اس کے ساتھ ہی نہیں بلکہ پوری قوم کے ساتھ کبھی انڈین مجاہدین کا جھوٹا ڈرامہ رچا کر اور کبھی کوٹا اور کبھی پوٹا کا سہارا لے کر قانون کا مذاق اڑا رہا ہے، عشرت جہاں، سہراب الدین اور احسان جعفری جیسے بے شمار ثبوت بھی موجود ہیں پھر بھی سارے مدارس، جماعتیں اور قائدین سوائے ‘‘بیوا کی فریاد’’ کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتے؟
اس بے حسی کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ مفتی عبدالقوی کا تعلق جمیعت العلما سے ہے جس کا مرکز دیوپند ہے۔ لیکن ہندوستانی مدارس کی اکثریت بریلوی مدارس کی ہے۔ دونوں کے عقیدوں میں وہی بیر ہے جو بیر کانگریس اور بی جے پی میں ہے۔ ایک بڑی تعداد اہلِ حدیث اور شیعہ مدارس کی بھی ہے جن کے عقائد جمیعت العلما سے میل نہیں کھاتے۔ اسلئے ان تمام کے نزدیک جمیعت کے ایک فرد کی گرفتاری ان کا مسئلہ نہیں ہے۔ جہاں تک جماعتوں کا تعلق ہے چونکہ جمیعت خود بھی ایک سیاسی عمل رکھنے والی جماعت ہے۔ مودی اور کانگریس سے راست اور بالراست دونوں طرح کا تعلق رکھتی ہے۔ اسلئے مسلم سیاسی و دینی جماعتوں کا جمیعت سے مصلحتاً فاصلہ رکھنا ایک اصولی بات ہے۔ لیکن سب اپنی اپنی سیاست میں یہ بھول گئے کہ
میں آج زد پہ اگر ہوں تو خوش گمان نہ ہوں
چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں
اس سے قبل مولانا نصیرالدین اور عبدالعلیم اصلاحی اور دونوں کے افرادِ خاندان کے ساتھ جو کچھ ہوا، کئی سال تک ان بے گناہوں کو گجرات اور بابری مسجد کے واقعات سے جوڑ کر سخت اذیْتوں میں مبتلا کیا گیا اس سے سبھی واقف ہیں۔ لیکن چونکہ ان لوگوں کا تعلق کسی جماعت سے نہیں تھا اسلئے کسی نے بھی ان کا ساتھ نہیں دیا۔ ساتھ کیسے دیتے جبکہ جس جماعت کے لئے ان لوگوں نے اپنی پوری متاعِ حیات لگادی تھی خود اس جماعت نے عین آزمائش کی گھڑی میں بجائے ساتھ دینے کے ان لوگوں کو عاخ کردیا اور دامن جھٹک لیا تاکہ جماعت پر دہشت گردی کا الزام نہ آئے۔ لیکن آج جبکہ عبدالقوی صاحب کا تعلق ایک ایسی جماعت سے ہے جس کے چاہنے والوں کی تعداد پورے ہندوستان میں لاکھوں میں ہے۔ اگر ہر شہر میں صرف دو دو ہزارافراد بھی گھروں سے نکل کر اپنا جمہوری حق مانگنے کیلئے سڑکوں پر آئیں تو ملک کا میڈیا ان پر کیمرے مرکوز کرنے پر مجبور ہوجائے اور پولیس، حکومت اور قانون سارے اپنی غلطیوں کے احتساب پر مجبور ہوجائیں لیکن خود عبدالقوی صاحب کی جماعت کے قائدین نے ابھی تک سوائے بیان بازی کے کچھ نہیں کیا۔ جہاں تک وکیلوں کو بہم پہنچانے کا تعلق ہے قانون کی کچہوے کے چال سے جب تک انصاف ملے گا تب تک مسلمان ووٹوں کو تقسیم کرکے بی جے پی میدان مار چکی ہوگی۔ اس موقع پر اگر تمام جماعتیں متحد ہوکر طاقتور احتجاج کرنے میں ناکام ہوگئیں تو مستقبل میں کسی بھی مسلک کے عالم پر دشمن ہاتھ ڈال سکتا ہے۔ کل جب کسی اور عقیدے یا جماعت کے کسی عالم یا کارکن کے ساتھ ایسا ہوگا تو دوسرے بھی وہی رویْہ اختیار کرینگے جو آج یہ دوسروں کے ساتھ کررہے ہیں۔ اسطرح دشمن اپنی چال میں کامیاب ہوجائیگا۔
کجریوال ہمارے سامنے ایک بہترین مثال ہیں۔ بلکہ مشعلِ راہ ہیں۔ اس شخص نے دکھا دیا کہ جلوس ، دھرنا اور احتجاج ہی جمہوریت میں حق مانگنے کے شعور کو بیدار کرنے کا بنیادی ذریعہ ہیں۔ کجریوال یقیناً بی جے پی اور کانگریس کی بدعنوانیوں کے خلاف اٹھے ہیں لیکن وہ مسلمانوں کی تائید میں کبھی آواز نہیں اٹھاسکتے۔ یہ جنگ مسلمانوں کو کجریوال کا راستہ اپنا کر خود لڑنی ہوگی۔ اگر مدرسے، جماعتیں اور مختلف عقائد و مسالک کے لوگ جان کی بازی لگا کر گھروں سے باہر نہ نکل سکے تو کل ان کی تقدیر کے فیصلے چائے بیچنے والے، دودو دھونے والیاں یا پھر چمہارنیں کرینگی۔ اور اس وقت بھی ہمارے علما ، قائدین اور عوام اسی طرح کی بیان بازیاں کرتے رہیں گے۔
انتخابات سے عین قبل بارہ تیرہ سال پرانے ایک مقدمے میں مولانا کو گرفتار کرنا ایک خاص مقصد رکھتا ہے۔ کیا وجہ ھیکہ ایک ہی وقت میں ایک طرف مولانا کو گرفتار کیا جاتا ہے دوسری طرف ایک نام نہاد انڈین مجاہدین کے نوجوان بھی پکڑے جاتے ہیں اور تیسری طرف مودی کے جلسے پر حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کرنے والے پاکستانی AK-47 کے ساتھ پکڑے جاتے ہیں۔ ان تینوں کڑیوں کو جوڑنے سے جو سازش سمجھ میں آتی ہے وہ صاف ہے کہ یہ Media testing کا ایک تجربہ ہے۔ اس سے پہلے بھی ایسے تجربے کئے جاچکے ہیں۔ اس کے ذریعے عوام کا ردْعمل نوٹ کیا جاتا ہے۔ تاکہ مستقبل کی پالیسی بنائی جاسکے۔ ان گرفتاریوں کا مقصد قانون کی رکھوالی یا ملک کی سلامتی ہرگز نہیں بلکہ کچھ اور ہے۔ عبدالقوی یا دوسرے نوجوان اصل ہدف نہیں ہیں بلکہ ہدف کچھ اور ہے اور وہ یہ ہیکہ یہ اندازہ لگایا جاسکے کہ مسلمان کتنے سو رہے ہیں اور کتنے جاگ رہے ہیں۔ غیرت اور حمیْت کچھ لوگوں میں باقی ہے یا ساری ختم ہوچکی ہے۔ اور اب تک دشمن کو ہی نہیں خود ہمیں بھی یہ اندازہ ہوچکا ہےکہ ہمارے مدارس، اہلِ عقائد و مسالک، جماعتوں اور قائدین میں بے حِسی، پھوٹ، مصلحت اندازی اور خود غرضی میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ اس میڈیا Testing کا ایک اور پہلو سے بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ بی جے پی میں شامل ہونے والوں کی ایک بڑی تعداد ان اعلیٰ عہدے داروں کی ہے جو فوج، پولیس اور دیگر اہم حسْاس اداروں کے اہم عہدے دار رہ چکے ہیں۔ جن کے دورِ ملازمت میں مسلمانوں کے خلاف کئی تجربات کئے گئے ہیں۔ ان تجربات کو آگے بڑھانے کیلئے ملازمت سے سبکدوش ہونے والے ان افسروں کو مزید موقع صرف بی جے پی ہی دے سکتی ہے۔
یہ وقت ہے جب قانونی چارہ جوئی کے ساتھ ساتھ مسلمان جمہوری حق کو استعمال کرتے ہوئے پوری قوت اور اتحاد کے ساتھ سڑکوں پر آئیں۔ کانگریس جیسی رشوت خور اور سنگھ پریوار جیسے فرقہ پرست دہشت گرد جماعتوں جنکا NDA کے تمام شرکا حصہ بننے جارہے ہیں اگر ان تمام کا صفایا کرکے ایک بہتر ہندوستان کی تعمیر کرنی ہو تو کجریوال جیسے لوگوں کو ساتھ لے کر مسلمان ہی یہ کام کرسکتے ہیں۔ کسی اور جماعت یا قائد کا انتظار کرنے کے بجائے شہر شہر مدارس کے لوگ پہلے اٹھیں۔ عام مسلمان تو ان کا ساتھ دینگے ہی دینگے ان کے ساتھ ملک کے کروڑوں سیکولر انصاف پسند ہندو بھی جسطرح کچریوال کا ساتھ دے رہے ہیں مسلمانوں کا بھی ساتھ دینگے۔ اگر یہ کوشش صد فیصد کامیاب نہ بھی ہوسکے تو کم از کم اتنا تو ہوگا کہ مسلمانوں میں خوف و ہراس پیدا کرنے کے یہ جو تجربات کئے جارہے ہیں وہ تجربات مزید آگے نہیں بڑھیں گے۔

***
aleemfalki[@]yahoo.com
ویب سائٹ: socioreforms.com | aleemkhanfalaki.com
موبائل : 00966504627452
علیم خان فلکی

Targeting muslim clergies and community's cold reaction. - Article:Aleem Khan Falaki

1 تبصرہ:

  1. you indicated valid points in the article, this is need of the hour but in a very peaceful way.

    please refrain from using words like 'chai wala, doodhwala ' etc as we need to respect the dignity of labour. people from any walk of life can set excellent example of humanity and reach any heights.

    جواب دیںحذف کریں