ممتاز ادیب و نقاد پروفیسر محمود الہٰی کا انتقال - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-03-20

ممتاز ادیب و نقاد پروفیسر محمود الہٰی کا انتقال

prof-mahmood-ilahi
شرافت علمی و شرافت نفسی کے حامل اردو کے معروف دانشور، نقاد و ادیب و شاعر پروفیسر محمود الہیٰ نے بدھ کو مختصر علالت کے بعد لکھنو میں داعی اجل کو لبیک کہا۔ ان کی عمر 84 برس تھی۔ وہ 2ستمبر 1930ء کو ٹانڈہ فیض آباد(اب امبیڈکر نگر) میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے گورکھپور یونیورسٹی میں شعبہ اردو قائم کیا اور اس کے صدر کے عہدہ پر سے 1990ء میں سبکدوش ہوئے۔ ان کی نگرانی ملک کے متعدد مشہور و معروف شخصیات نے تحقیقی کام مکمل کرکے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی جو آج بھی ملک کے مختلف اداروں میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ مجروح سلطان پوری ان کی دو طفلی کے ساتھی تھے، پروفیسر محمود الہیٰ نے متعدد کتب قلم بند کیں، جو اردو ادب کا خزانہ کا اہم جز ہیں۔ جن میں اردو میں قصیدہ نگاری کا تنقیدی جائزہ، فسانہ عجائب کا بنیادی متن، اردو کا پہلا ناول خط تقدیر کی بازیافت ، افادیت مہدی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ پروفیسر محمود الہیٰ تین مدت تک ملک کی سب سے بڑی اور سب سے پہلی اترپردیش اردو اکادمی کے چیئرمین رہے۔ ان کا دور سنہرا دور کہا جائے تو مبالغہ نہیں ہوگا۔ انہوں نے اکادمی کے چیرمین کے چیئرمین رہتے ہوئے اکادمی کے دیگر اشاعت کے فروغ دینے کے علاوہ مولانا ابوالکلام آزاد کے معرکۃ آراء اخبار الہلال اور البلاغ کو تدوین و تربیت دے کر کتابی شکل میں شائع کیا۔ اس کے علاوہ مولانا آزاد کے یوم پیدائش کی صدسالہ تقاریبات کے تحت انہوں نے ملک بھر میں مشاہیر قلمکاروں سے 100 کتب تحریر کرائیں اور انہیں اکادمی سے شائع بھی کرایا۔ پروفیسر محمود الہیٰ کی سادگی کا عالم یہ تھا کہ وہ اکادمی کے چیئرمین ہونے کے باوجود جب لکھنؤ آتے تھے تو چار باغ واقع مسلم مسافر خانہ میں عام مسافروں کی طرح قیام کرتے تھے۔ دن بھر اکادمی کا کام نپٹانے کے بعد شام کو مسافر خانہ میں بھی شہر کے متعدد ادیب، شاعر، صحافی و قلمکار جمع ہوتے اور وہیں پر ادبی محافل سجتی تھیں۔ مرحوم کے پسماندگان میں بیوہ کے علاوہ چھ بیٹیاں اور ایک بیٹاہے، جن میں لڑکیاں مہیلا پی جی کالج امین آباد میں لیکچرر ہیں۔ پروفیسر محمود الہیٰ گذشتہ کافی دنوں سے اپنی بیٹی کے یہاں لکھنؤ میں قیام پذیر تھے اور یہیں پر ان کا علاج چل رہا تھا۔ گذشتہ منگل کی شام ان کی طبعیت اچانک خراب ہوگئی اور انہیں فوری طورپر ٹھاکر گنج واقع لمرا نرسنگ ہوم میں داخل کرایاگیا۔ جہاں انہیں افاقہ نہیں ہوا، بدھ کی صبح متعلقین انہیں سرفراز گنج واقع گھر لے گئے جہاں آج سہ پہر تین بجے پروفیسر محمود الہیٰ نے آخری سانس لی۔ ان کا جسدخاکی مرحوم کے آبائی وطن ٹانڈہ، امبیڈکر نگر لے جایا گیا۔ جہاں صبح 9 بجے تدفین عمل ہوگی۔ ان کے انتقال پر متعدد تنظیموں، اداروں نے اظہار تعزیت کرتے ہوئے پسماندگان سے اظہار ہمدردی کیا ہے۔

(رابطہ عامہ سیل، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان)
ممتاز ادیب و نقاد پروفیسر محمود الٰہی کے سانحہ ارتحال پر فروغ اردو بھون میں تعزیتی نشست
نئی دہلی۔
اردو کے نامور نقاد و ادیب پروفیسر محمود الٰہی کے انتقال پر قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ، حکومت ہند کے زیر اہتمام ایک تعزیتی جلسے کا انعقاد کیا گیا جس میں اردو زبان و ادب کے تئیں ان کی نمایاں خدمات کو یاد کیا گیا، ان کے اہل خانہ سے اظہار ہمدردی اور ان کے لیے دعائے مغفرت کی گئی۔ اس موقعے پر کونسل کے ڈائرکٹر پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین نے کہا کہ پروفیسر محمود الٰہی عہد حاضر کے ایک بڑے اور معتبر نقاد تھے۔ انھوں نے ہر سطح پر اپنے فن اور اسلوب سے اردو زبان و ادب کو ایک نئی سمت عطا کی۔ انھوں نے ان کی موت کو اردو زبان و ادب کے لیے ایک بڑا خسارہ قراردیا اور کہا کہ یہ ایک ایسا خسارہ ہے جس کی تلافی مستقبل قریب میں ممکن نہیں۔ انھوں نے کہا کہ پروفیسر محمود الٰہی کے متعدد تصانیف ہیں جن میں اردو میں قصیدہ نگاری کا تنقیدی جائزہ، فسانۂ عجائب کا بنیادی متن، اردو کا پہلا ناول ، خط تقدیر کی بازیافت، افادات مہدی قابل ذکر ہیں۔ کونسل کے وائس چیئرمین پروفیسر وسیم بریلوی نے اپنے تعزیتی پیغام میں کہا کہ پروفیسر محمود الٰہی ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے اردو ادب کے تئیں ان کی خدمات قابل احترام ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ ان کی ذات صاف گوئی اور سادگی سے عبارت تھی۔ اس تعزیتی جلسے میں کونسل کے دوسرے اراکین نے بھی رنج و غم کا اظہار کیا۔ اس موقعے پر ڈاکٹر کلیم اللہ، محمد عصیم، شاہنواز محمد خرم، اجمل سعید، فیروز عالم ،انتظامی امو رکے افسر محمد احمد ، ڈاکٹر عبد الحئی اور ڈاکٹر شاہد اختر نے بھی اظہار تعزیت کیا۔

Renown writer & Critic Prof Mahmood Ilahi passes away

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں