جناب شاہد ماہلی نے کہا کہ صغریٰ مہدی صاحبہ کے انتقال کی خبر اردو والوں کے لیے سخت تکلیف دہ ہے۔ انھوں نے ساری زندگی اردو کی خدمت کی۔ درس و تدریس کے ساتھ ہی انھوں نے بہت اچھے افسانے اور ناول تحریر کیے ہیں جنھیں اردو ادب کے قاری بڑی قدر و منزلت کے ساتھ دیکھتے ہیں۔ وہ مشہور فکشن نگار قرۃ العین حیدر کے قریب تھیں، اس لیے ان کے اثرات صغریٰ مہدی کی تحریروں میں بھی ملتے ہیں۔ میری دعا ہے کہ خدا انھیں جوارِ رحمت میں جگہ دے!
ڈاکٹر اسلم پرویز نے کہا کہ پروفیسر صغریٰ مہدی اردو کی خواتین فکشن نگاروں میں ایک ممتاز حیثیت کی مالک تھیں اور ان کو یہ دولت ایک طرح سے وراثت میں ملی تھی۔ وہ اردو ادب کی استاد تھیں اور اس کے ساتھ ساتھ ایک تخلیقی نثرنگار بھی اور ان کا خاص میدان فکشن تھا۔ ہمارے یہاں اردو میں اب ایسی خاتون فکشن نگار بہت کم رہ گئی ہیں اور نئی نسل میں کوئی بہت نمایاں نام نظر نہیں آتا اس اعتبار سے اُن کا دم غنیمت تھا۔ لیکن آج ہم ان کی شخصیت سے محروم ہوگئے۔ میں دعا گو ہوں کہ خدا ان کی مغفرت کرے اور ان کی روایت کو تازہ کرنے والی نئی فکشن نگار اردو میں نمودار ہوں۔
ڈاکٹر خلیق انجم نے اپنے تعزیتی پیغام میں پروفیسر صغریٰ مہدی کو اردو کی ممتاز افسانہ نگار قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کے تخلیق کردہ افسانوں اور ناولوں میں اعلا انسانی اقدار کا احترام اور سماجی اصلاح کا مثبت تعمیری جذبہ ہر جگہ نمایاں نظر آتا ہے۔ صغریٰ مہدی صاحبہ ایک اعلا تعلیم یافتہ تخلیق کار تھیں۔ انھوں نے انسانی معاشرے کے مختلف پہلوؤں کو موضوع بناکر خوب صورت اور بامقصد افسانے تخلیق کیے۔ بلاشبہ ان کے انتقال سے جو خلا پیدا ہوا ہے وہ آسانی سے پُر نہیں ہوگا۔
جناب سیّد شریف الحسن نقوی نے خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ پروفیسر صغریٰ مہدی نے درس و تدریس کے فرائض انجام دینے کے ساتھ ساتھ متعدد تحقیقی اور تنقیدی مقالے بھی قلم بند کیے۔ اُن کی سب سے بڑی خو بی یہ تھی کہ انھوں نے ہمیشہ اپنے آپ کو علمی و ادبی کاموں میں مصروف رکھا اور یہی وجہ ہے کہ افسانے، ناول، تحقیق و تنقید اور سفرنامے پر مشتمل اُن کی کئی اہم کتابیں منظرِ عام پر آئیں جنھیں ادب کی دنیا میں خوب پذیرائی بھی حاصل ہوئی۔
پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے اپنے صدارتی کلمات میں کہا کہ پروفیسر صغریٰ مہدی اِس زمانے کی مشہور و ممتاز افسانہ نگار اور ناول نگار تھیں۔ انھوں نے سفرنامے، یادداشتیں بھی لکھیں۔ وہ جامعہ میں تمام عمر رہیں، یہیں طالبِ علم رہیں اور یہیں پروفیسر ہوئیں۔ ان کا خاندان علم و ادب کا گہوارہ تھا اور اس روایت کی انھوں نے پاسداری کی۔ وہ ڈاکٹر عابد حسین اور صالحہ عابد حسین صاحبہ کی صاحبزادی تھیں، انہی کی زیرِ تربیت ان کے علم و ادب کے مذاق کو فروغ حاصل ہوا۔ اُن کے انتقال سے ہم عصر اردو ادب خصوصاً فکشن کو ناقابلِ تلافی نقصان ہوا۔ مجھے امید ہے کہ ان کی متعدد کتابیں زندہ رہیں گی اور وہ یاد کی جاتی رہیں گی۔
Condolence meeting at Urdu ghar delhi on demise of Professor Sughra Mehdi
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں