(پی ٹی آئی)
آندھراپردیش میں 41 برس کے طویل عرصہ کے بعد صدر راج نافذہونے جارہا ہے۔ ریاستی گورنر ای ایس ایل نرسمہن کی سفارش پر مرکزی کابینہ نے ریاست میں صدر راج نافذ کرنے کے فیصلہ کو جو منظوری دی ہے وہ کسی دستوری بحران کی وجہہ سے انہیں بلکہ چیف منسٹر این کرن کمار ریڈی کے استعفیٰ کے بعد پیدا شدہ سیاسی بحران سے نمٹنے کیلئے کیا گیا ہے۔ کرن کمار ریڈی نے 19 فروری کو کانگریس پارٹی کی رکنیت سے بھی استعفیٰ دے دیا تھا۔ گورنر نے تاہم انہیں اور مجلس وزراء کو متبادل انتطامات تک اپنے عہدوں پر برقرار رہنے کی ہدایت دی۔ اس دوران کانگریس ہائی کمان نے ریاست میں ایک نئی حکومت کی تشکیل کیلئے کافی کوشش کی تاہم پارٹی سے کئی ارکان مقننہ کے اخراج کے باعث اسے نئی حکومت تشکیل دینے کی توقعات چھوڑدینی پڑی۔ کانگریس ہائی کمان نے کرن کمار ریڈی کا جانشین مقرر کرنے کیلئے تلنگانہ اور سیما آندھرا کے کئی سینئر قائدین کو "کام پر"لگایا تھا تاہم وہ بھی ناکام رہے۔ ایک مرحلہ پر مرکزی وزیر سیاحت کے چرنجیوی کا نام بھی آیا کہ انہیں غیر منقسم آندھراپردیش کا نیا چیف منسٹر بنایاجاسکتا ہے تاہم اس پر اتفاق رائے پیدا نہیں کیاجاسکا۔ کرن کمار ریڈی کے استعفیٰ سے حکمراں پارٹی بحران کا شکار ہوگئی کیونکہ اس کے 3وزراء نے اصل اپوزیشن تلگودیشم پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی اور دیگر 2 کرن کمار ریڈی کی مجوزہ سیاسی جماعت میں شامل ہونے کا فیصلہ کرچکے ہیں۔ اس کے علاوہ سیما آندھرا کے کئی ارکان اسمبلی نے کانگریس چھوڑ کر تلگودیشم میں شمولیت اختیار کرلی۔ پارٹی میں پیدا شدہ داخلی بحران کے پیش نظر کانگریس کو یقین ہوگیا تھا کہ اسمبلی میں اسے ضروری تائید کیلے ارکان کی تعداد کم پڑے گی۔ اس طرح ریاست میں صدر راج کے نفاذ کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں رہ گیا تھا اور انتخابات بھی بالکل سر پر ہیں اور اپریل، مئی میں ان کا انعقاد یقینی ہے۔ ریاست میں جنوری 1973ء کے دوران اس وقت صدر راج نافذ کیا گیا تھا جب جئے آندھرا تحریک زوروں پر تھی۔ پی وی نرسمہا راؤ نے چیف منسٹر کے عہدہ سے استعفیٰ دے دیا تھا جبکہ 10ماہ کیلئے ریاست میں صدر راج نافذ کیاگیاتھا۔ دریں اثناء پی ٹی آئی کی ایک علیحدہ اطلاع کے بموجب تلنگانہ کے صنعتکاروں اور تجارتی اداروں نے مرکزکی جانب سے سیما آندھرا کو خصوصی موقف دینے کے اعلان کی مخالفت کی ہے۔ انہوں نے تلنگانہ کو بھی مماثل موقف دینے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہاکہ خصوصی موقف کے تحت سیما آندھرا کی صنعتوں کو کئی مراعات اور ٹیکس سے چھوٹ حاصل ہوگی جس کے نتیجہ میں تلنگانہ پر منفی اثرات مرتب ہوں گے کیونکہ سیما آندھرا صنعتوں کو حاصل ٹیکس مراعات کے باعث وہ اپنا مال کم قیمت پر فروخت کرسکیں گے اور علاقہ تلنگانہ کی صنعتوں کیلئے مسابقت دشوار ہوجائے گی۔ حیدرآباد میں قائم پینار گروپ کے صدرنشین جے نروپیندر راؤ نے کہاکہ ٹیکس مراعات کمپنی کی فروخت آمدنی کا جملہ 15 فیصد ہوتے ہیں۔ اگر پڑوسی ریاست ٹیکس چھوٹ کا اعلان کرتی ہے تو تلنگانہ میں کوئی اپنی صنعتیں لگانے آگے نہیں آئے گا۔ اس کے علاوہ ٹیکس چھوٹ سے فائدہ اٹھانے کیلئے تلنگانہ میں قائم صنعتیں سیما آندھرا کو منتقل ہونے کی کوشش کریں گی۔ مائی ہوم گروپ کے صدرنشین رامیشور راؤ نے کہنا ہے کہ سیما آندھرا کو خصوصی موقف دےئیے جانے سے صرف تلنگانہ ہی نہیں بلکہ پورا جنوبی ہند متاثر ہوگا۔ تلنگانہ میں صنعتی ترقی کے موضوع پر منعقدہ سمینار سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے یہ بات کہی۔
President's rule imposed in Andhra Pradesh after 41 years
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں