تلنگانہ بل اور صدر راج کے نفاذ کو صدر جمہوریہ کی منظوری - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-03-02

تلنگانہ بل اور صدر راج کے نفاذ کو صدر جمہوریہ کی منظوری

صدرجمہوریہ پرنب مکرجی نے ریاست کی تقسیم کے ذریعہ تلنگانہ تشکیل دینے پارلیمنٹ میں منظورہ بل کی توثیق کردی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے ریاست میں صدر راج کے نفاذ کی سفارش بھی قبول کرلی ہے۔ اس طرح ریاست میں مرکز کی حکمرانی قائم ہوگئی ہے۔ آندھراپردیش کی تنظیم جدید بل 2014ء کو پارلیمنٹ میں20فروری کو منظوری حاصل ہوئی تھی حالانکہ سیما آندھرا قائدین نے انتہائی سختی کے ساتھ بل کی مخالفت کی تھی۔ اس بل کو صدرجمہوریہ کی توثیق حاصل ہوچکی ہے اور اس طرح ملک میں 29ویں ریاست کی تشکیل کی راہیں پوری طرح ہموار ہوگئیں۔ تلنگانہ کی تشکیل کے بعد بچ جانے والی ریاست آندھراپردیش 13اضلاع پر مشتمل ہوگی جبکہ علیحدہ تلنگانہ 10اضلاع پر مشتمل رہے گا جس میں شہر حیدرآباد بھی شامل ہے۔ علاقہ سیما آندھرا کی تشویش دور کرنے کیلئے حکومت نے پہلے ہی اسے خصوصی زمرہ کا موقف عطا کیا جس میں ٹیکس مراعات کی فراہمی اور 6 نکاتی ترقیاتی پیکیج بھی شامل ہے۔ صدرجمہوریہ نے ریاست میں صدر راج کے نفاذکی سفارش بھی قبول کرلی ہے۔ مرکزی کابینہ نے کل اس کا فیصلہ لیتے ہوئے صدرجمہوریہ کو سفارش روانہ کی تھی۔ پرنب مکرجی نے ریاستی اسمبلی کو حالت معطلی میں رکھنے کے فیصلے کو بھی منظوری دے دی۔ اسمبلی کی معیاد 2جون کو ختم ہونے والی ہے۔ چیف منسٹر کے عہدہ سے این کرن کمار ریڈی کے استعفیٰ کے بعد مرکز کو ریاست میں صدر راج نافذ کرنا پڑا۔ ریاستی گورنر ای ایس ایل نرسمہن نے 19 فروری کو اسی دن کرن کمار ریڈی کا استعفیٰ قبول کرتے ہوئے مرکز سے سفارش کی تھی کہ ریاست میں صدر راج نافذ کردیاجائے۔ آندھراپردیش کی تقسیم کے ذریعہ علیحدہ تلنگانہ تشکیل دینے کا بل 20فروری کو پارلیمنٹ میں منظور کیا گیا۔ اس طرح علاقہ تلنگانہ کے عوام کا 6 دہے قدیم مطالبہ پورا ہوا اور صدرجمہوریہ کی منظوری کے ساتھ ہی انہیں اپنے خوابوں کی تعبیر مل گئی۔ تلنگانہ کے عوام گذشتہ 6دہوں سے اپنی علیحدہ ریاست کیلئے جدوجہد کررہے تھے۔ اس دوران 1500 طلباء اور نوجوانوں نے اپنی جانیں قربان کیں۔ 1969ء کی تلنگانہ تحریک اور ٹی آرایس سربراہ کے چندر شیکھر راؤ کی زیر قیادت گذشتہ 13 بروں سے جاری تحریک کے دوران کئی طلباء اور نوجوانوں نے جانوں کی قربانی دی۔ عثمانیہ یونیورسٹی کے ایک استاد پروفیسر ایم کودنڈا رام نے جوائنٹ ایکشن کمیٹی تشکیل دیتے ہوئے طلباء، ملازمین، وکلاء، سیاسی جماعتوں اور عوام کے کئی طبقات کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرکے تحریک تلنگانہ کو ایک نئی طاقت عطا کی۔ عثمانیہ یونیورسٹی اور کاکتیہ یونیورسٹی، تحریک تلنگانہ کے مرکز بن گئے تھے۔ دونوں یونیورسٹیوں کے طلبا نے حصول مقصد کیلئے تحریک میں اہم رول ادا کیا۔ تحریک تلنگانہ کی ایک عظیم بات یہ رہی کہ پوری تحریک پرامن رہی۔ مخالف فریق کی جانوں اور املاک کو کبھی کوئی نقصان نہیں پہنچایا گیا۔ اس کے برعکس مرکز نے جیسے ہی تلنگانہ تشکیل دینے کا اعلان کیا، سیما آندھرا عوام نے پرتشدد مظاہرے شروع کردئیے۔ ریاست میں پہلی مرتبہ سال 1973ء کے دوران اس وقت صدر راج نافذ کیا گیا جب جئے آندھا تحریک زوروں پر پہنچ گئی تھی۔ آندھرا کے عوام نے اس وقت تلنگانہ میں ملکی رول دوبارہ متعارف کرانے کے فیصلہ کی سختی سے مخالف کی اور ان کا مطالبہ اس حد تک پہنچ گیا کہ انہوں نے علیحدہ آندھرا ریاستکا مطالبہ کردیا پھر ملکی رول برخواست کرنے پر زوردیا۔ اس وقت کی حکومت نے آندھرا عوام کے مطالبہ کے آگے سرجھکاتے ہوئے ملکی رول برخواست کردیا اور اس کی جگہ ایک متبادل 6نکاتی فارمولہ نافذ کیاگیا۔ (فارمولہ کے تحت ریاست کو6زونس میں تقسیم کیا گیا اور ملازمتوں میں مقامی افراد کو ترجیح دینے کی بات کہی گئی تھی)۔ تاہم اس فارمولہ پر کبھی بھی عمل درآمد نہیں ہوا اور کھلے بندوں اس کی خلاف ورزی ہوتی رہی۔ آندھرائی حکمرانوں نے کبھی بھی اس فارمولہ کو قابل اعتنا نہیں سمجھا۔ بعدازاں این ٹی راما راؤ تا وائی ایس راج شیکھر ریڈی کی حکومتوں نے اس پر عمل کرنے کی کوشش کی لیکن خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے۔ اس طرح ایک اور تحریک شروع ہوئی جس کی قیادت کے چندر شیکھر راؤ کررہے تھے۔ اسے تلنگانہ تحریک کا نام دیا گیا اور آہستہ آہستہ یہ بام عروج پر پہنچ گئی کیونکہ تلنگانہ عوام کے ساتھ نا انصافیاں بھی انتہائی شدید ہوگئی تھیں۔ ریاست میں صدر راج نافذ کرنے کے فیصلہ کو صدرجمہوریہ نے جیسے ہی منظوری دی یہاں مرکز کی حکمرانی قائم ہوگئی۔ سکریٹریٹ اور نظم و نسق و اختیارات راج بھون پہنچ چکے ہیں۔ انتظامیہ پر ریاستی گورنر ای ایس ایل نرسمہن کا کنٹرول ہوگا۔ چیف سکریٹری ڈاکٹر پی کے موہنتی نے تین آئی اے ایس عہدیداروں پر مشتمل ایک اعلیٰ کمیٹی تشکیل دی جو ان 15کمیٹیوں کے کام کاج کی نگرانی کرے گی جنہیں ریاست کی تقسیم کے سلسلہ میں اثاثوں اور ذمہ داریوں کی محکمہ واری تقسیم کیلئے قائم کیاگیا۔ سہ رکنی کمیٹی کی قیادت خود چیف سکریٹری کریں گے۔ ریاست میں صدر راج کے نفاذ کے لئے صدرجمہوریہ کی منظوری کی اطلاع جیسے ہی حاصل ہوئی، سکریٹریٹ میں تعینات سکیورٹی فورسس نے حفاطتی انتظامات راج بھون منتقل کرنے شروع کردئیے۔ سکریٹریٹ کے سامنے کھڑی کردہ رکاوٹیں بھی جزوی طورپر ہٹادی گئی ہیں۔

President signs Telangana Bill, gives assent to President's Rule in AP

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں