ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا بات بنے - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-03-02

ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا بات بنے

Pre-Election-2014-scenario
اب 2014 انتخابات کے لئے بس تقریبا ڈیڑھ مہینہ رہ گیا ہے ، ہر سیاسی پارٹی اس الیکشن میں بازی لے جانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگار ہی ہے ، ملک کا سیاسی منظر نامہ بالکل پیچیدہ نظر آرہاہے ، اونٹ کس کروٹ لے گا کچھ نہیں کہا جاسکتاہے ، سیاسی وفاداریاں اور گٹھ جوڑ آئے دن بدل رہے ہیں ، بی جے پی کی جانب سے مودی کے بحیثیت وزیر اعظم امیدوار کے انتخاب سے لے کر پھر پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات اور اس کے نتائج ، پھر دلی کے اسمبلی انتخابات میں عام آدمی پارٹی کا ظہور ، پھر مظفر نگر فسادات کی سیاست ، مختلف 13پارٹیوں کی جانب سے تیسرے محاذ کی تشکیل ، پھر اناہزارے کا ترنمول کانگریس کے ساتھ ہاتھ ملانا،اور آندھرا پردیش میں تلگو دیشم کا اور بہار میں رام ولاس پاسوان کا بی جے پی کے ساتھااتحاد ، ملک کا یہ سیاسی منظر نامہ نہایت پیچیدہ ہے ، انتخابات کے بعد کونسی پارٹی اقتدار بنائے گی یہ کہنا قبل از وقت ہوگا ، لیکن ایک بات ضرور ہے کہ مسلمان اس ملک میں بادشاہ نہیں تو بادشا گر ضرور رہے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ آزادی ہند کے بعد ملک کی سیاست میں جس قدر کانگریس نے اقتدار کے مزے لوٹے ہیں بہت کم ہی بی جے پی یا دیگر پارٹیوں کو حکومت بنانے کا موقع ملا ہے ، اس لئے ہر پارٹی خواہ مسلمانوں سے کس قدر اپنی بے رخی اور بے اعتنائی برتے ، ان کے ساتھ کس قدر کھن اور نفرت کا ثبوت دے ، ان کی وفاداری پر سوالیہ نشان اٹھائے ؛ لیکن یہ بات ضرو ر ہے کہ ہر پارٹی کو خواہ وہ پارٹی فرقہ پرست یا ہو سیکولر امیج کی حامل انتخابات کے قریب مسلمانوں کی یاد ستانی لگتی ہے ، اور وہ مسلمانوں کو رجھانے لبھانے ، ان کو اپنا ہمنوا بنانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگاتی ہے ، وعدوں پر وعدے کئے جاتے ہیں ، مسلمانوں کے مسائل کے حل کے کمیٹیاں اور کمیشنس تشکیل دیئے جاتے ہیں ، اب اس وقت بھی یہی صورتحال دیکھنے کو آرہی ہے ،ہر پارٹی مسلمانوں کو رجھانے اور ان کو ہمنوا بنانے کے لئے وعدوں پہ وعدے اور اپنے پچھلے کئے پر پچھتاکا اظہار اور اپنے سیکولر مکھٹے کو ظاہر کرنے کے لئے فرقہ پرست پارٹیوں پر طعنہ زنی کرتی نظر آرہی ہے ، کونسی پارٹی مسلمانوں کے حق میں ہمدرد ، خیرخواہ اور ان کے مسائل ومشکلات کے حل کے لئے کوشاں ہے ، اس کے لئے مسلمانوں نے خوب اندازہ کر لیا ہے ، کانگریس کو مسلمانوں نے ہمیشہ سیکولر باور کر کے اس کے ووٹ بنک کو مضبوط کیا ہے اور اس کو اقتدار کی کرسی تک پہنچایا ہے ، لیکن کانگریس حکومت میں بھی مسلمان خوف دہشت کے سائے تلے جینے پر مجبور ہیں ، یوپی میں مظفر نگر مسلمانوں کے ساتھ فساد اور ظلم وزیادتیاں یہ سیکولر کہلانے والے پارٹیوں سماج وادی اور کانگریس حکومت کے ماتحت ہوئے ہیں اور ان پارٹیوں کے اس موقع سے بیانات بھی مسلم دشمن رہے ، راہل گاندھی کا فسادات کیمپس میں لوگو ں کا پاکستان کی آئی ایس آئی سے روابط کی بات اور سماج وادی کا فسادات کیمپ کو بلڈوزر سے اکھاڑ پھینکنے کی بات بھی مسلمانوں کے لئے قابل ہضم اور قابل برداشت نہ تھی ، اب اس وقت کئی بے قصور مسلم نوجوان جیلوں میں محروس ہیں ، اگرچہ کانگریس کچھ ہفتے قبل محروس نوجوانوں کی رہائی کا بھی عندیہ دیا ہے ، کانگریس پارٹی یہ بھی اچھے طریقے سے جانتی ہے کہ یوپی اے کے دور اول اور دور ثانی میں مسلمانوں کے ساتھ انصاف ، انسداد فرقہ وارانہ فسادات بل کی منظوری ، تعلیم اور ملازمتوں میں ریزویشن ، سچر کمیٹی کی شفارشات کا نفاذ سے لے کر مسلمانوں کی فلاح وبہبود کے لئے کام کرنے جو وعدے اور سنہرے باغ اس نے دکھائے تھے اب الیکشن کے قریب کانگریس کو اپنے ان وعدوں کی عدم وفائی کی وجہ سے مسلمانوں کی اس سے ناراضگی واجبی دکھائی دے رہے ہی ہے ،یہی وجہ کے پارٹی میں اقیتی امور کے ذمہ دار وسربراہ کے رحمان نے حال ہی میں مسلمانوں کی ناراضگی دور کرنے کے لئے کئی اسکیموں اور متعدد منصوبوں کا اعلان کر چکے ہیں ، اتنا ہی نہیں وزارت اقلیتی امور کے تحت درجنوں اسکیموں کی ناکامی اور مسلمانوں تک اسکیموں کی عدم رسائی اورمسلمانوں کے ساتھ پانچ سالہ نا انصافی کو چھپانے کے لئے انتخابات قبل وزارت کی اسکیموں کے کے لئے ابھی کل ہی ایک نگراں کمیٹی تشکیل دی ہے، اس کمیٹی کو قومی نگراں برائے نوٹیفائد اقلیات نام دیا گیا ہے، اس کے ساتھ ہی ایک نئی اسیکم کا بھی اعلان کیا کہ جس کے تحت بیس لاکھ روپیئے تک کے بیرون ملک تعلیمی قرض پر لگنے والے سودحکومت برداشت کرے گی ، اس کمیٹی میں سرکاری 10افسران کے علاوہ عوامی رائے ہموار کرنے والے 62 دانشوران ، سماجی کارکنوں اور لیڈران کا بھی تعین کیا گیا کہ یہ لوگ اسکیموں کو بہتر بنانے اور ان کا نفاذ کرنے کے لئے اپنے قیمتی آراء ومشورو ں سے وزارت کونوازیں گے ، ویسے مسلمانوں نے ہمیشہ کانگریس پر ہی اعتماد کیا ہے ؛ لیکن اس نے سوائے وعدوں اور کاغذوں پالیسوں کے سوا مسلمانوں کے لئے کچھ نہیں کیا، لیکن موجودہ مختلف علاقائی پارٹیوں کی شکل میں کانگریس کو اپنی نیا بھی ساحل پار لگتی نظر نہیں آرہی ، اسی طرح تیسیرا محاذ، مایاوتی اور دیگر پارٹیاں بھی انتخابات کے قریب مسلمانوں کو لبھانے اور ان کو ہمنوا بنانے اور ان کے ووٹ بنک کو وصول کرنے کے لئے اپنے سیکولر کردار کا مظاہر کر رہی ہے ، بات یہی تک نہیں پہنچی ، خود بی جے پی نے جس کے پیچھے تمام ہندو دہشت گرد تنظمیں کا م کرتی ہیں ، اس کے سربراہ راج ناتھ سنگھ بمصداق "بلی سو چوے کھاکر حج کو چلی " کے مسلمانوں سے ماضی کی غلطیوں پر معافی اور معذرت خواہی کی ہے ، اور انہوں نے مسلمانوں کو رجھانے کے لئے نہایت پشیمانہ انداز اختیار کیا ہے اور یوں کہا ہے کہ " جہاں کہیں ہماری طرف سے کوئی غلطی ہوئی تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم اپنے سر جھکاتے ہوئے معافی مانگتے ہیں" اور بی جے پی کے سینئر لیڈر ارون جیٹلی نے بھی اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے ہے کہ : اقلیتوں کے تئیں بی جے پی کی پالیسیوں کو عام کرنے کے لئے ملک بھر میں کم از کم ایک ہزار کانفرس کئے جائیں گے ، تاکہ اقلیتوں کی غلط فہمیوں کو دور کیا جاسکے اور یہ بھی کہا کہ : اقلیتوں کو اسمبلیوں اور قانون ساز اداروں میں مناسب نمائندگیاں دی جائیں گی ، ہندوستان کو فسادات کو پاک کرنا ، اور ان کو تحفظ فراہم کرنا بی جے پی کی مہم قرار دیا ؛حالانکہ یہی وہ بی جے پی پارٹی ہے جو ہر وقت اپنا رنگ بدلتی ہے ، کبھی تو وہ مسلمانوں سے ہمدردی کی بات کرتی ہے تو کبھی ان کو کتا ، بلی کے خطاب سے نوازا جاتا ہے اور کبھی ان کو دہشت گرد اور ان کو کبھی غدار وطن کہا جاتا ہے اور ان کے پوٹا جیسے قوانین کا مطالبہ کیا جاتا ہے اور مظفر نگر فسادات میں ملوث ہندو دہشت گردوں کا اجلاس بلا کر ان کی گل پوشی کرتی ہے اور بی جے پی اسسٹیج پر مسلم کارکنان نماز ادا کرتے ہیں ان کو برا لگتا ہے ، زیاد ہ دور جانے کی ضرورت نہیں جیسے ہی راج ناتھ سنگھ نے یہ بیان دیا اسی کے دوسرے دن بی جے بی کا حقیقی چہرہ اور اس کی مسلم دشمنی نمایاں ہوگئی ، بی جے پی کے کارکنوں اور کارندوں کو راج ناتھ سنگھ کا یہ نرم رویہ پسند نہ آیا ، بی جے پی کی غلطیوں والی بات ہضم نہ ہوپائی ، چنانچہ پارٹی کے ترجمان پرکاش جاوڑیکر راج ناتھ سنگھ کی بات مطلب یہ نکالا کہ مستقبل میں کوئی غلطی ہوئی تو ان کے لئے معافی مانگی جائے گی ، اس بات کا 2002فسادات سے کوئی تعلق نہیں ، وہیں شیوسینا کے ترجمان سنجے راوت نے کہا کہ : پارٹی کبھی مسلم سماج سے معافی نہیں مانگی گی ، پہلے جو کچھ ہوا ہم اسے غلط نہیں مانتے ، ہمیں اس پر فخر ہے ، شاہ نواز حسین نے بھی اس کا یہ مطلب نکالا کہ کوئی کمی رہی ہوگی تو معافی مانگ لیں گے ، ایک خبر کے مطابق بی جے پی نے مسلم ووٹوں کو تقسیم کرنے کے لئے یہ حکمت عملی رچی ہے کہ کچھ سیٹوں پر مسلم امیدواروں کو کا تعین کیا جائے ، ورنہ دیگر پارٹیاں بی جے پی کا فرقہ پرست چہر ہ واشگاف کر کے بی جے پی کا راستہ نہ روک دی، اس لئے کہ بی جے پی نے نہ صرف مسلمانوں کو رجھانے کا حربہ اختیار کرنا شروع کردیا ہے ؛ بلکہ بعض سیٹوں پر جہاں مسلمانوں کا دبدبہ ہے مسلم امیدواروں کو اتارنے کی تیاریاں بھی جاری ہیں ، بی جے پی اپنے چہرے سے کس قدر فرقہ پرستی کا نقاب ہٹانے کی کوشش کیوں نہ کر لے ؛لیکن مسلمان اس کی بہکاوے اور اس کے حربے میںآنے والے نہیں ،اس پارٹی کی حقیقی صورتحال یہ ہے کہ ہندوستان کے مختلف فسادوں کوبھڑکانے میں اس کا براہ راست ہاتھ رہاہے ،گجرات میں مودی حکومت میں وزیر ما یاکوڈنای فسادات بھڑکانے کے الزام میں سزا کاٹ رہی ہی، گجرات میں کئی آئی پی ایس عہدیدار مسلمانوں کے انکاؤنٹر کے الزام میں جیل میں بند ہیں ، مسلم مقامات پر کئے گئے بم دھماکوں میں آر یس یس کے کارکنوں کو سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا گیا ہے ، یہ وہ حقائق ہیں جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا ، راج ناتھ سنگھ نے دوران تقریر یہ بھی کہا کہ : " سب کو دیکھا بار بار ، ہم کو دیکھو ایک بار" مسلمانوں نے بی جے پی کی دہشت گردی اور اس کا فسادی اور ہندوا توا مزاج ہمیشہ جانچا اور پرکھا ہے ، ملک کی آزادی کے 65 سال میں تقریبا اتنے ہی فساد بپا ہوئے ، جس میں کئی ایک تحقیقاتی کمیشنس بھی قائم ہوئے جنہوں نے یہ ثابت کیا کہ ان مسلم کش فسادات میں آر یس یس اور اس کی ذیلی تنظمیں ملوث رہے ہیں ۔
ملک کی موجودہ صورتحال میں مسلمانوں قائدین اور خصوصا بااثر علماء اور دانشوران کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ہر پارٹی کے سامنے اپنے مطالبات اور مانگ رکھیں جوپارٹی مسلمانوں کے مطالبات کی تکمیل کے تئیں سنجیدہ نظر آتی ہے اس کے حق میں ووٹ کی مسلمانوں سے اپیل کریں ، ورنہ اگر ایسا موقع ہم نے گنوا دیا تو پھر پانچ سال تک ہمیں ہمارے عدم اتحاد کی سزا بھگتنی پڑے گی ، اس حوالہ سے یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ ہمارا زعماء وقائدین اور دانشوران کا یہ رویہ رہا ہے کہ جب وہ کسی پارٹی کے قریب ہوجاتے ہیں تو بس اس کے سر میں بولنے لگتے ہیں ، اس کے گن گانے کو اپنا وظیفہ حیات بنالیتے ہیں ، ایسے موقع سے ضرورت اس بات کی ہے کہ بجائے ہم اپنے ذاتی اور شخصی مفاد کے بجائے مسلمانوں کے مفاد کوپیش نظر رکھیں تو مسلمانوں کو اپنے ملک میں دوسروں کے رحم وکرم پر جینانہ پڑے گا، ویسے بعض علماء اور قائدین اس سلسلے میں پیش قدمی کی ہے اور تمام پارٹیوں کے سامنے اپنے مطالبات رکھے ہیں ؛لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ خالص نیک نیتی سے کام کیاجائے ، سیاسی مفاد سے ورے ہوکر صرف ملی مفاد کو ملحوظ رکھا جائے تو مسلمانوں کے حق میں بہتر ہوگا ، ایسا نہیں ہے کہ مسلمان علماء اور زعماء اور دانشوران نے اپنے اپیل کی ذریعہ مسلمانوں ووٹوں کو صحیح سمت دے کر کامیابی حاصل نہیں کی ہے ؛ بلکہ اس کی پچھلی تاریخ میں کئی ایک مثالیں موجود ہیں ،انہوں متحدہ مجلس عمل یا متحدہ فارمس وغیرہ کی تشکیل کی ذریعہ اپنی پسند کی پارٹی کو اپنے مطالبات کے تکمیل کے وعدے کے ساتھ برسر اقتدار لایا ہے ، اس وقت اس کی شدید ضرورت ہے کہ مسلمانوں کا اونٹ تقسیم نہ ہونے پائے ، ویسے تو ووٹ دینا انہیں کو جو سیکولر امیج رکھتے ہیں ،لیکن اس کا تعین کرنایہ علماء اور زعماء کا کام ہے ، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بہت سے مواقع سے ہمارے زعماء اور قائدین ملی مفاد سے بڑھ کر اپنے سیاسی مفاد کو ترجیح دینی کوشش کی ہے ، جس کے نتائج بد کوآج مسلمان بھگتے رہے ہیں ، آج بھی مسلمانوں کے اندر وہ طاقت وقوت ہے کہ وہ اپنے ملک کی تقدیر خود بناسکتے ہیں ؛ لیکن اسکے لئے اتحاد اور منصوبہ سازی کی ضرورت ہے ۔
ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا بات بنے ۔

***
مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی ، وادی مصطفی شاہین نگر ، حیدرآباد۔
rafihaneef90[@]gmail.com
رفیع الدین حنیف قاسمی

Pre Election 2014 scenario. Article: Rafi Haneef

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں