تقیسم ریاست کے بعد سیاسی جماعتوں کی علیحدہ انتخابی حکمت عملی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-03-03

تقیسم ریاست کے بعد سیاسی جماعتوں کی علیحدہ انتخابی حکمت عملی

آندھراپردیش کی تقسیم حقیقت بننے کے ساتھ ہی اب ریاست کی سیاسی جماعتیں لوک سبھا اور اسمبلی انتخابات میں اپنی نئی حکمت عملی تیار کررہے ہیں۔ ریاست کی تقسیم کے خلاف سیما آندھرا کے ارکان کی بڑی تعداد اور چیف منسٹر این کرن کمار ریڈی کے اپنے عہدوں سے استعفیٰ کے بعد آندھراپردیش میں صدر راج نافذ کردیا گیا ہے۔ تلنگنہ کی تشکیل کو پورا کرنے پر یہاں کی برسر اقتدار جماعت کی نظر تلنگانہ پر ہے، جہاں لوک سبھا کی 17اور اسمبلی کی 19 نشستیں ہیں، اس علاقہ میں کانگریس کو نمایاں کامیابی کی امید ہے، کرن کمار ریڈی کی سابقہ حکومت، ارکان اسمبلی اور ارکان پارلیمنٹ کامیابیوں پر ریالی منعقد کررہے ہیں۔ پارلیمنٹ میں تلنگانہ کی منظوری پر کانگریس کی صدر سے اظہار تشکر کیا جارہا ہے۔ کانگریس نے امید ظاہر کی ہے کہ ٹی آرایس علاقہ میں اب طاقتور جماعت ہے، کانگریس کے ساتھ مل جائے۔ ٹی آرایس کے بعض قائدین کوقومی جماعت میں شامل کرنے کے پیش نظر دونوں جماعتوں میں تعلقات کشیدہ ہوتے نظر آرہے ہیں۔ دونوں جماعتوں میں ممکنہ انضمام یا مفاہمت کا مسئلہ توقع ہے کہ رواں ہفتہ واضح ہوجائے گا۔ ٹی آر ایس اپنا اہم پارٹی اجلاس منعقد کررہی ہے۔ ٹی آرایس اگر کانگریس کے ساتھ ضم ہوجائے یا مفاہمت پر آمادہ ہوجائے تو اس علاقہ میں کانگریس کی توقعات پوری ہوجائیں گی۔ کانگریس کو ریاست کی تقسیم پر سیما آندھرا قائدین کی تنقیدوں کا سامنا ہے۔ سیما آندھرا کے لئے فراہم کئے گئے ترقیاتی پیکیج کو اجاگر کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ٹی آرایس قائدین کو اس علاقہ میں بہتر مظاہرہ کی توقع ہے، کیونکہ ان کی جماعت نے ہی علیحدہ ریاست تلنگانہ کے مطالبہ کو قومی سطح پر پیش کیا تھا۔ اصل اپوزیشن تلگودیشم پارٹی کو سیما آندھرا میں بہتر مظاہرہ کی توقع ہے کہ کیونکہ اس کے سربراہ این چندرا بابو نائیڈو اس علاقہ میں موافق ترقی اور مستحکم قائد کا امیج رکھتے ہیں۔ سیما آندھرا کے کرن کمار ریڈی، حکومت کے وزراء اور دیگر کانگریس ارکان اسمبلی جو آندھراپردیش کی تقسیم کے مخالف تھے، کی تلگودیشم پارٹی میں شمولیت سے اس کی کامیابی کے مواقع بہتر نظر آتے ہیں۔ تلنگانہ میں تلگودیشم پارٹی کی ہئیت کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ ان کے علیحدہ ریاست تلنگانہ کی تشکیل کا سہرا ٹی آرایس کو جاتا ہے اور یہی دو جماعتیں علاقہ کی پسندیدہ پارٹیاں ہیں۔ تلنگانہ میں تلگودیشم پارٹی کو نقصان پہنچا ہے، کیونکہ اس کے بعض ارکان اسمبلی نے حال ہی میں ٹی آرایس میں شمولیت اختیار کی۔ وائی ایس آر کانگریس پارٹی کو سیما آندھرا میں بہتر مظاہرہ کے توقع ہے۔ ان کی اس جماعت نے متحدہ آندھراپردیش کی حمایت کی تھی۔ اس کی جماعت کے سربراہ وائی ایس جگن موہن ریڈی اس علاقہ میں اپنے والد وائی ایس راج شیکھر ریڈی کے باعث پسندیدہ شخصیت مانے جاتے ہیں، تاہم تلنگانہ میں وائی ایس آر پارٹی کو ہمالیائی کام انجام دینا پڑے گا، کیونکہ یہ پارٹی ریاست کی تقیسم کے خلاف تھی۔ بی جے پی کو بھی تلنگانہ میں بہتر مظاہرہ کی امید ہے، کیونکہ اس نے علیحدہ تلنگانہ مطالبہ کی سختی سے حمایت کی، اگرچہ کہ سیما آندھرا کی بی جے پی شاخ نے اس کی مخالفت کی۔ پارٹی کو توقع ہے کہ وزارت عظمی کے امیدوار نریندر مودی کی مقبولیت کا بی جے پی کوفائدہ ہوگا۔ سی پی آئی بھی علیحدہ تلنگانہ کی کٹر حامی رہی۔ اس علاقہ میں پارٹی کو انتخابی فائدہ حاصل ہوگا۔ دوسری طرف سی پی آئی ایم نے ریاست کی تقسیم کی مخالفت کی۔ بائیں بازو کی دونوں جماعتوں کو توقع ہے کہ بڑی جماعتوں کے ساتھ مفاہمت سے انتخابی فوائد ہوں گے۔

Parties rework poll strategies on division of Andhra Pradesh

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں