#KCR نریندر مودی کی کوئی اہمیت نہیں - کے سی آر - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-03-28

#KCR نریندر مودی کی کوئی اہمیت نہیں - کے سی آر

حیدرآباد۔
(آئی اے این ایس)
علاقہ سیما آندھرا میں انتخابی مہم صرف اور صرف ریاست کی تقسیم کا ذمہ دار کون ہے؟ کے عنوان پر چلائی جارہی ہے تاہم تلنگانہ میں معاملہ اس کے برعکس ہے، جہاں اقتدار کے تمام دعویدار یہ دعویٰ کرتے ہوئے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ صرف انہوں نے ہی علیحدہ تلنگانہ کی تشکیل کو یقینی بنایا ہے۔ ان میں سب سے آگے تلنگانہ راشٹرا سمیتی( ٹی آرایس) ہے، جس نے کانگریس پارٹی میں انضمام سے انکار کے بعد مفاہمت کے امکانات کو بھی مسترد کردیاہے۔ وہ واحد علاقائی جماعت بن کر ابھرنے کی کوشش کررہی ہے جو تلنگانہ کے مفادات کی نمائندگی کرتی ہے۔ واضح ہوکہ 2جون کو تلنگانہ عالم وجود میں آجائے گا۔ ٹی آرایس نے گذشتہ دو انتخابات دیگر جماعتوں کے ساتھ مفاہمت کے ذریعہ لڑے تھے۔ اب وہ تنہا انتخابی میدان میں کودنے کیلئے تیار ہے۔ تلنگانہ میں لوک سبھا و اسمبلی انتخابات 30اپریل کو منعقد شدنی ہیں۔ علاقہ میں اسمبلی کے 119 اور لوک سبھا کے 17حلقے ہیں، جوحیدرآباد کے بشمول 10اضلاع پرمشتمل ہیں۔ حصول ریاست کا اپنا مقصد حاصل ہوجانے کے بعد ٹی آر ایس دیگرجماعتوں کیلئے ایک خطرناک علاقائی پارٹی کے طورپر ابھرنے کی کوشش کررہی ہے، جو نئی ریاست کی ترقی کی محافظ ہوگی۔ ٹی آرایس سربراہ کے چندر شیکھر راؤ کا کہناہے کہ اگر سیما آندھرا میں تلگودیشم اور وائی ایس آر کانگریس دو علاقائی جماعتیں ہوسکتی ہیں تو تلنگاہن میں کم ایک ایک پارٹی بھی کیوں نہیں ہوسکتی، جو علاقہ کے مفادات کی نگہبانی کرسکے۔ چندر شیکھر راؤ نے 2001ء میں علیحدہ تلنگانہ تحریک کا احیاء کرتے ہوئے ٹی آرایس کا قیام عمل میں لایا تھا۔ اپنے حامیوں میں کے سی آر کے نام سے مقبول کے چندر شیکھر راؤ کا کہنا ہے کہ اب ان کا مشن تلنگانہ کی تعمیر نو ہے۔ وہ اسے ایک ترقی یافتہ ریاست بنانا چاہتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ تلنگانہ میں آندھرائی پارٹیوں جیسے تلگودیشم اور وائی ایس آر کانگریس پارٹی کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے اور وہ خود بھی بی جے پی کے وزارت عظمی امیدوار نریندر مودی کو کوئی اہمیت دینے تیار نہیں ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے ارکان پارلیمنٹ مرکز میں علاقہ کی ترقی کیلئے جدوجہد کریں ، وہ مرکز سے بڑے پراجکٹس اور فنڈس حاصل کریں تاکہ تلنگانہ کو ترقی دی جاسکے۔ کے سی آر کو یقین ہے کہ ان کی پارٹی اسمبلی کی 100اور لوک سبھا کی 16 نشستوں پر کامیابی حاصل کرے گی۔ دوسری جانب کانگریس پارٹی خود کو یہ یقین دلانے کی کوشش کررہی ہے کہ وہی علاقہ میں سب سے بڑی جماعت ہے وہ سمجھتی ہے کہ تلنگانہ اسی نے دیا ہے اور اس بات کی خواہاں ہے کہ علیحدہ تلنگاہن کی تشکیل کے بدلہ وہ کامیابی کی فصل کاٹے گی۔ تاہم اسے انضمام کے مسئلہ پر ٹی آرایس سے شدید جھٹکا سہنا پڑا۔ پارٹی نے ٹی آرایس پر دھوکہ دہی کا الزام عائد کیا ہے اور کہاکہ تشکیل تلنگانہ پر اپنی پارٹی کانگریس میں ضم کرنے کا وعدہ کرکے چندرشیکھر راؤ نے کانگریس پابرٹی سے فریب کیا ہے۔ اس طرح کانگریس پارٹی عوام کی ہمدردی کیش کرنا چاہتی ہے۔ چندر شیکھر راؤ ایک ہیلی کاپٹر کرایہ پر حاصل کرکے انتخابی مہم کا آغازکرنے کی تیاری کررہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی کے سی آر اور کانگریس قائدین کے درمیان ایک تلخ لفظی جنگ کا آغاز ہوچکا ہے۔ کے سی آر، کانگریس قائدین پر یہ الزامات عائد کررہے ہیں کہ وہ تلنگانہ کے مفادات کا تحفظ کرنے میں ناکام رہے، جب کہ کانگریس قانئدین کے الزامات ہیں کہ کے سی آر جیسا گھمنڈی شخص تلنگانہ کا حکمراں بن جاتا ہے تو علاقہ میں دوبارہ زمینداروں کی حکومت قائم ہوجائے گی۔ اپنے ارکان خاندان کو ہی بڑھاوا دینے پر بھی کانگریس قائدین کے سی آر کو نشانہ بنارہے ہیں۔ تلنگانہ کا پہلا چیف منسٹر ایک دلت کو بنانے کے وعدہ سے پیچھے ہٹنے پر بھی کے سی آر ، کانگریس قائدین کی تنقیدوں کی زد میں ہیں۔ تلنگانہ کانگریس کمیٹی کے صدر پونالا لکشمیا کو یقین ہے کہ ان کی پارٹی تلنگانہ میں برسر اقتدار آئے گی اور لوک سبھا کی بیشتر نشستوں پر بھی کامیابی حاصل کرے گی۔ ان کا دعویٰ ہے کہ تلنگانہ عوام بخوبی جانتے ہیں کہ صدر کانگریس سونیاگاندھی کے باعث ہی علیحدہ تلنگانہ ایک حقیقت بن سکا۔ تلگودیشم اور ٹی آرایس کے درمیان راست مقابلہ اگچہ شروع نہیں ہوا ہے تاہم تلگودیشم پارٹی بھی یہ سمجھتی ہے کہ وہ علاقہ میں ہنوز ایک طاقتور موقف کی حامل ہے، حالانکہ ٹی آر ایس اسے مسلسل ایک ویلن کے طورپر پیش کرتی رہی ہے۔ تلگودیشم قائدین کا کہنا ہے کہ مرکزی حکومت کو ہمارے تائیدی مکتوب کے بغیر علیحدہ تلنگانہ کی تشکیل ناممکن تھی۔ تلگودیشم اور بی جے پی کے درمیان ممکنہ مفاہمت علاقہ میں سہ رخی مقابلہ میں تبدیل ہوجائے گی، کیونکہ بی جے پی کا دعویٰ ہے کہ وہ علاقہ کے چند حصوں میں مضبوط موقف رکھتی ہے اور یہ دعویٰ بھی کررہی ہے کہ پارلیمنٹ میں تلنگانہ بل صرف ان کی کوششوں سے منظور ہوا ہے۔ تلنگانہ میں مذکورہ جماعتوں کے علاوہ دیگر کھلاڑی بھی موجود ہیں جن میں قابل ذکر سی پی آئی اور سی پی آئی ایم ہیں، جو اضلاع نلگنڈہ، کھمم اورکریم نگر میں قابل لحاظ اثر رکھتی ہے۔ شہر حیدرآباد میں مجلس کا طاقتور موقف ہے اور اس نے کسی بھی سیاسی جماعت کے ساتھ مفاہمت کے امکانات کو مسترد کردیا ہے۔ یہ پارٹی علاقہ کے دیگر مقامات سے بھی مقابلہ کرکے اپنے بازو پھیلانا چاہتی ہے۔ وائی ایس آر کانگریس پارٹی بھی آنجہانی چیف منسٹر وائی ایس راج شیکھر ریڈی کی فلاحی اسکیموں پر انحصار کرکے تلنگانہ میں مقابلہ کی خواہا ں ہے۔ لوک ستہ پارٹی بھی حیدرآباد اور اس کے اطراف کے حلقوں سے انتخابی میدان میں ہے۔ تلگو اداکار پون کلیان کی قائم کردہ جن سینا پارٹی، امکان ہے کہ گریٹر حیدرآباد کے چند حلقوں میں اپنے امیدار کھڑا کرے گی۔

--

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں