مسلمان لوک سبھا میں مناسب نمائندگی کے خواہاں - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-03-08

مسلمان لوک سبھا میں مناسب نمائندگی کے خواہاں

نئی دہلی۔
(یو این آئی)
2014ء کے لوک سبھاانتخابات کے اعلان کے ساتھ ہی متعدد مسلم حقوق کارکنوں نے ملک کی اعلی ترین مقننہ (پارلیمنٹ) اور ریاستی اسمبلیوں میں اس برادری کی نمائندگی کے فقدان کا مسئلہ اٹھایا ہے اور حلقوں کی حد بندی کے طریقہ کار میں تبدیلی کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مسلمان متعدد لوک سبھا حلقوں میں فیصلہ کن رول ادا کرتے ہیں لیکن کتنی سیاسی جماعتیں ایسی ہیں جو انہیں میدان میں اتاریں گی اور وہ خود منتخب ہوسکتے ہیں یانہیں یہ الگ بات ہے۔ یہ مسئلہ دراصل کانگریس کے نائب صدر راہول گاندھی کی جانب سے گذشتہ سال طلب کردہ ایک میٹنگ میں متعدد مسلم قائدین نے اٹھایاتھا۔ یہ میٹنگ اس لئے طلب کی گئی تھی تاکہ مسلمانوں کو درپیش مسائل کا پتہ چلایا جاسکے اور آنے والے لوک سبھا انتخابات کیلئے پارٹی کی تیاریوں کے ایک حصہ کے طورپر ان کی رائے حاصل کی جاسکے۔ پارلیمنٹ میں مسلم نمائندوں کی تعداد اوسطا 27 رہی ہے جب کہ ان کی آبادی کے لحاظ سے جو گذشتہ مردم شماری کے مطابق 13.4 فیصد ہے مسلم ارکان پارلیمنٹ کی تعداد کم از کم 73 ہونی چاہئے۔ اس کی ایک اہم وجہہ یہ ہے کہ مسلم اکثریتی حلقوں کو درج فہرست ذاتوں اور قبائل کے لئے مختص کردیا گیا ہے۔ ڈاکٹر سید ظفر محمود نے یہ بات بتائی جو جسٹس راجندر سچر کمیٹی کے آفیسر آن اسپیشل ڈیوٹی (او ایس ڈی) تھے۔ وزیراعظم منموہن سنگھ نے مسلمانوں کی سماجی‘ معاشی اور تعلیمی پسماندگی پر رپورٹ پیش کرنے سچر کمیٹی تشکیل دی تھی۔ ڈاکٹر محمودنے ایک مثال دیتے ہوئے کہاکہ بہار کے بگا ہا اسمبلی حلقہ میں23 فیصد مسلم آبادی ہے لیکن اسے درج فہرست ذاتوں کیلئے مختص قراردیا گیا ہے لیکن اسے درج فہرست ذاتوں کیلئے مختص قراردیا گیا ہے جبکہ بلیا حلقہ میں19 فیصد درج فہرست ذاتوں کے افراد آباد ہیں اور صرف 3 فیصد مسلمان یہاں بستے ہیں۔ اسے عام زمرہ کی نشست قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح اترپردیش کے بہرائچ حلقہ کو جہاں مسلمانوں کی 35 فیصد اور درج فہرست ذاتوں کی 16فیصد آبادی ہے درج فہرست ذاتوں کیلئے مختص کیا گیا ہے جبکہ رائے بریلی کو جہاں صرف 6فیصد مسلم آبادی ہے اور 30فیصد درج فہرست ذاتوں کے لوگ بستے ہیں‘ عام زمرے میں رکھاگیاہے۔

Muslims seek adequate representation in the Lok Sabha

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں