ارمان نجمی - کچھ اپنے بارے میں - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-02-06

ارمان نجمی - کچھ اپنے بارے میں

arman-najmi
اپنے بارے میں کچھ بھی لکھنا میرے لئے ایک مشکل کام ہے۔
میں ادب کا ایک طالب علم ہوں ، پڑھتا رہتا ہوں سیکھتا رہتا ہوں،بھولتا رہتا ہوں اور یاد بلکہ مکرر یاد کرتا رہتا ہوں۔لفظوں کی کا ئینات سے بساط بھر رشتہ جوڑنے کی کو شش میں کیا پایا اور کیا کیا کھویا اس کا حساب لگا نے کی کبھی کوشش نہیں کی۔ایک تعلیم یافتہ خوشحال گھرانے میں میری آمکھ کھلی۔
نام ٖ ڈاکٹر ایس حسن۔تخلص ارمان رکھا۔والدصاحب کا نام نجم الحسن تھا ا سی منا سبت سے نجمی لکھنا شروع کیا۔ڈاکٹری کی پیشے سے منسلک ہوا تو اپنی ادبی شناخت الگ سے قائیم کرنے کا خیال آیا۔تعلیم بی،اس،سی۔ام بی بی اس۔ ام اس( پٹنہ)۔پیشیے کے لحاظ سے سرجن۔ایک میڈیکل کالج میں سرجری کے پروفیسر کی حیثیت سے کام کرتا رہا۔برطانیہ کے ایک اسپتال سے بھی منسلک رہا۔سعودی عرب کے جنو بی منطقہ صدر مقام جیزان میں خدمات انجام دیں ان دنوں اپنا ایک اسپتال بنوانے کی تگ و دو میں ہوں۔کام ہوتا نہیں ہے اور میں وقت سے پیچھے پڑتا جا رہا ہوں۔
ادب و شاعری سے واسطہ ہوش آنے کے بعد ہی پڑ گیا۔بچپن میں اردو فارسی کی تعلیم حسب روایت گھر پر ہی حاصل کی مسدس حالی کم عمری میں ہی تقریباِِ ازبر ہو گیا تھا۔اخلاق محسنی، اخلاق جلالی اورانتخاب ازشاہنامہ کے ساتھ ساتھ قصص ا لا نبیا آمنہ کا لال اور سیدہ کا لال گھر پر ہی ختم کی۔اس کے بعد ہی انگریزی کی فرسٹ بک پڑھی ،پھر کلرنڈن ریڈر کی جلد اول و دویئم
اسکول میں داخلہ بعد میں ہوا لیکن گھر پر زبان کی تعلیم کا سلسلہ نہیں ٹوٹا۔فارسی میں مفتاح الترجمہ اور مفتاح ا لقواعد کا سبق ملتا رہا اور ذہن نشیں ہو تا رہا۔ گھر میں مدینہ بجنور نامی اخبار آتا تھا اور غنچہ بجنور نامی رسالہ میری آپا کے لئے جاری تھا۔ان میں کہا نیا ں دلچسپی کے ساتھ پڑھتا رہا۔ایک اور روزانہ اخبار انجام لا ہور بھی ابا کے مطب میں آتا تھا اور کبھی کبھی زمیندار لاہور بھی۔
ادب سے میرا رشتہ جسم و جان کا ہے۔ابا جان کے دادا ابا مولوی لطا فت حسین عربی فارسی کے جید عالم تھے، شاعری نہیں کرتے تھے لیکن یک بیک انکے ذہن کی کایا کلپ ہو گئی اور انھوں نے حضرت وار ث علی کی شان میں ایک قصیدہ لکھ بھیجااسکے بعد وہ ان کی شان میں کلام لکھتے رہے۔طلبی ہو نے کے بعد سفر و حضر میں ان کے ساتھ رہے۔ان کا مجمو عہءِ کلام طلاطم عشق کے نام سے میرے داداابا ڈاکٹر جعفر حسن جو ان دنوں پٹنہ میڈیکل کالج میں فورنسک میڈیسن کے پروفیسر تھے نے 1923ء میں پٹنہ کے کھڈگ ویلاس پریس سے شایئع کروایا۔اس میں حمد و نعت منقبت کے ساتھ غزلیں بھی ہیں جو سب کی سب فارسی زبان میں ہیں۔میرے ابا کے نانا جان حکیم نظیر حسن کو بھی عربی فاسی پر عبور ھاصل تھا۔ان کا ایک مطبوعہ رسالہ جو مثنوی مناظرہ نفس کلی بہ نفس جزوی میرے پاس مو جود ہے۔ان کا بہت سا کلام ضا یئع ہو گیا۔میرے دادا ابا کبھی کبھی ہم لوگوں کو فی البدیہ اردو کی نظمیں لکھاتے تھے،افسوس کہ وہ سب کچھ تلف ہو گیا۔ صرف ذہن میں چند مصرعے یا اشعار گونجتے ہیں۔
شاعری میریے لیے روحانی غذا ہے۔ادب کی تمام اصناف کا مطالعہ میرے لئے ضروری رہا ہے اور اب میری عادت میں شامل ہو گیا ہے۔بغیر مطالعہ کے میں زندہ رہنے کا تصور ہی نہیں کر سکتا ، ادب اور اپنے پیشے کے مطالعہ سے بھی سیکھتا رہتا ہوں ۔ شاعری سے رشتہ ہمیشہ ہی قایئم رہا۔شعر کہنا کب شروع کیا یہ تو یاد نہیں لیکن بچپن سے ہی مصرعے موزوں ہونے لگے تھے،جو ایک طرح سے بے اختیار ی کا عمل تھا۔ اور یہی بے اختیاری مجھ سے اب تک شعر کہلواتی رہتی ہے۔
ہوش و حواس بیدار ہوتے ہی ملک کی تقسیم کے المیہ سے دو چار ہوا۔اس کے پہلے کچھ دنوں میں فسادات کے منحوس سائے میری
یادوں پر ہنوز منڈلاتے رہتے ہیں۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ان دنوںآس پاس کے دیہی علاقو ں سے میرے گھر اور محلہ میں کئی ایسے لوگ اپنے اہل خانہ کے ساتھ آ کر رہنے لگے جو اپنی جان اور عزت آبرو بچانے کی خاطراپنے گھروں کو چھو ڑنے پر مجبور ہو ئے تھے۔ان میں سے کچھ ہم عمر لڑکوں سے میری دوستی بھی ہو گئی تھی،لیکن بعد میں وہ دوسرے دیاروں میں جا بسے۔ان کی صورتیں اور نام آج تک میری یا دو ں میں محفوظ ہیں۔ ان دنوں کی ان کی بے بسی اور عدم تحفط کا احساس ہنوز مجھے نہیں بھو لا ہے۔ لیکن ایک اور دکھ میری راہ تک رہا تھا،وہ تھا عزیز و اقارب کی ایک خا صی تعداد کا سرحدوں کے پار نئے ملک کا سفر اختیارکرنا۔دیکھتے ہی دیکھتے وہ گھر آنگن خا لی ہو گئے جہاں محبتوں کے چراغ روشن تھے۔ زندگی کے منظرنامے کو تیزی سے بدلتے ہوئے میں نے دیکھا ۔ محبتوں اور رشتوں کو فاصلوں کی نذر ہوتے ہوے میں نے دیکھا ۔لوگ اس طرح دور ہو گئے جیسے ان کا وجود ایک وہم تھا۔ اس کا اثر میرے دل و دماغ پر جس طرح ہوا ا س نے میرے سو چنے سمجھنے کے انداز کو ہی بدل کر رکھ دیا۔ ایک اداسی اس طرح میرے اندر بسیرا کئے ہوئے ہے جس کولفظوں میں بیان کرنا بہت ہی مشکل ہے۔
دوسری جنگ عظیم کے زمانے میں تومیں بہت چھوٹا تھا لیکن اس کی غارت گری اور پچاس لاکھ انسانوں کی موت کا اثر میرے دلٍ و دماغ پر اس وقت پڑا جب مجھے اس کے بالواسط نتا ئج بھگتنے پڑے ۔گر چہ یہ جنگ بیشتر یوروپ میں لڑی گئی لیکن اس کے اثرات جاپان پر ہیروشیما اور ناگاساکی پر جوہری بموں کی بے مثال اور دور رس تبا ہی کے بعد بھی تابکاری کی پیدا شدہ بیماریوں کی شکل میں ظاہر ہوتے رہے۔
میری شاعری اگر میرے عہد کی نوحہ گری ہے تو اس میں میرا کیا قصور ۔میں بربادی ،غارتگری، ناجایئزفوج کشی،اور خود مختار ملکوں کی مسلسل تاراجگی کا عینی شا ہد ہوں۔ایک اور طرح کی غارت گری جسے لسانی غارت گری کا نام دیا جا ئے تو بے جا نہ ہگا وہ ہے جمہوریت کے نام پر ہماری تہذیبی و ثقافتی اقدار کی بیخ کنی۔میرے گھر کے بچے اپنے اسکولوں میں سب کچھ پڑھ سکتے ہیں لیکن نہیں پڑھ سکتے ہیں تو اپنی مادری زبان اردو۔یہی نہیں انہیں سنسکرت پڑھنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔۔آپ اچھے پبلک اسکولوں میں جا کر دیکھ لیجئے آپ پر یہ حقیقت وا ضح ہو جا ئے گی۔ان میں زیادہ تر' سی بی اس ای' نصاب را یئج ہے۔ویسے اب سینیئر کیمبرج (آئی سی اس ای) کے نصاب والے اسکولوں خاصکر مشن اسکولوں میں بھی یہی صورت حا ل ہے۔اور بات بات میں سیکولرزم اور جمہوریت کا ڈھول بجا یا جا تا ہے۔اور سچ کہوں تو میرا اعتماد ہی ان اداروں سے اٹھ گیا ہے۔اور ہم بھی ہاتھ پہ ہاتھ دئے بیٹھے ہیں اپنے بچوں کو ان کی مادری زبان میں تعلیم دینے سے چشم پوشی کر رہے ہیں۔
میں کسی ازم میں یقین نہیں رکھتا ہوں نہ ان سے وابستہ ہوں۔ترقی پسندی نے ادب کو جو کچھ دیا اس کا بھی قا ئل ہوں اور جدیدیت کے رجحان سے بھی میرے ذہن کو کشادگی ملی ہے اور چیزوں کو دیکھنے اور سمجھنے کے اندازمیں تندیلی آئی ہے۔جراحی
یعنی سرجری کے پیشے سے منسلک ہو نے کے باعث مجھے انسانی دکھوں کو قریب سے دیکھنے اور ان کے مداوا کا موقع ملا ہے۔میری ٍ ٍ گنہ گار آنکھوں نے فرشتوں کی بھی زیارت کی ہے اور شیطان کو بھی خود کو بے نقاب کرتے ہو ئے دیکھا ہے۔
کسی نے کہا ہے کہ میں سوچتا ہوں اس لئے میں ہوں ۔میں اس میں تحریف کرتے ہو ئے اتنا کہوں گا کہ میں لکھتا ہوں اسی لئے میں ہوں۔میں نے غزلیں بھی لکھی ہیں،نظمیں بھی، رباعیات اور دوہے بھی۔ادھر میرے مضامین اور تبصرے بھی شایئع ہو رہے ہیں۔میں ادب میں ایک اعلیٰ معیار کا طالب ہوں خود سے بھی اور دوسروں سے بھی۔

میری مطبوعات
مردہ خوشیوں کی تلاش مجموعہ نظم و غزل مطبوعہ 1984
بیاض شب و روز (وزیر آغا کی نو عدد نظمیہ کتاؓوں کا تفصیلی مطا لعہ) مطبوعہ کاغذی پیرہن لا ہور
راستے کی بات( مجمو عہ غزلیا ت) تخلیق کار پبلشرس دلی کے زیر اہتمام شایئع ہو گیا ہے
افتادگی کے بعد (نظموں کا مجموعہ زیر ترتیب)
نمایاں (غزلوں کا مجموعہ زیر ترتیب )
لفظوں کی کائینات( مضامین کا مجموعہ زیر ترتیب)
ادھر میں نے اپنی نظموں کے انگریزی ترجمے کئے ہیں جو میوز انڈیا (muse india)میں شائع ہوتے رہے ہیں۔کناڈا سے ہندوستانی شاعروں کی انگریزی نظموں کے ایک انتخاب میں میری چار نظمیں بھی شامل ہیں
میری پرورش و پر داخت اردو فارسی محاورے کے ذریعہ عمل میں آئی ہے لیکن انگریزی زبان نے مجھ پر کئی دریچے کھو لے ہیں۔اس کے ذریعے قدیم جیسے مصری،یونانی،رومی و چینی تہذیبوں تک رسا ئی حاصل ہو سکی ہے ، ان کے طرز فکر اور طرز اظہار سے پہچان ہو سکی ہے،اور میں نے ان کی تواریخ اور اسا طیر سے بھی رشتہ جوڑا ہے۔اس کے علاوہ مجھے خود ہندوستان جنت نشان کے ما ضی جو ایک نہیں ہے بلکہ اس میں کئی ماضیوں کی موجودگی سے بھی خود کو دریافت کیا ہے۔کہ ہندوستان صرف ایک ہی نہیں بلکہ کئی زبانوں اور ثقافتوں کا گہوارہ رہا ہے۔اسکی ثقافت بہت متنوع اور رنگا رنگ رہی ہے۔لیکن پھر بھی اپنی روشن خیالی اور وسعت نگا ہی کے با وجود اپنے تہذیبی مظاہر سے میرا جو والہا نہ رشتہ ہے وہ کسی دوسری تہذیب سے استوار ہو ہی نہیں سکتا کہ یگانگت کی حس (sense of belonging )سب تہذیبوں کے لئے ایک جیسی نہیں ہو سکتی۔
دوسرے ملک و علا قے ہمیشہ میرے لئے کشش کا باعث رہے ہیں۔ہر سفر ایک مہم جوئی کا آغاز ہے جو شاعر و ادیب کو دوسرے لوگوں بالخصوص لکھنے والوں کی جائے بود و باش ہی نہیں بلکہ ان کے رہن سہن طور طریقے اور سوچنے کے انداز کو دریافت کرنے کے مواقع بھی فراہم کرتا ہے۔ایک نئی ٹہذیب سے آشنا ئی کئی طرح کے روابط کے نقطء آغاز کی حیثیت رکھتی ہے کہ اس طرح انسانوں کے درمیان ہی نہیں بلکہ بین الثقافتی اور بین التہذیبی تعامل کی راہیں بھی ہموار ہو تی ہیں۔ ہماری ایک بہت بڑی کمزوری یہ ہے کہ ہم لوگ بغیر جا نے بوجھے، بغیر جا نچے پرکھے دوسروں کے بارے میں را ئے قا ئیم کر لیتے ہیں جو بسا اوقات غلط ثابت ہو تی ہے۔شنیدہ کے بود مانند د یدہ۔ دیکھ اور پرکھ کر جو علم حاصل ہو تا ہے وہ درست ہو تا ہے یا اس میں غلطی کا امکان کم رہتا ہے۔ میں نے سفر وسیاحت کے دوران جو کچھ دیکھا ہے انہیں ابھی لکھا نہیں ہے صرف روزنامچو ں ور یادداشتوں کی حد تک محفوظ کر رکھا ہے ،لیکن یہ ضرورکہنا چا ہو ں گا کہ خوبیاں اور خامیا ں ہر جگہ ہیں،ہر جگہ انسان ہی بستے ہیں جو خطا و نسیان کے پتلے ہیں ۔

A short biography of Arman Najmi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں