گری راج کالج نظام آباد میں صحافت پر توسیعی لیکچر - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-02-06

گری راج کالج نظام آباد میں صحافت پر توسیعی لیکچر

تاریخ کا شعور رکھنا فرد اور قوم کی بقا اور ترقی کے لیے ضروری
اقداری صحافت وقت کا اہم تقاضہ ‘گری راج کالج نظام آباد میں توسیعی لیکچر سے محمد نصیر الدین کا خطاب

تاریخ کا مضمون تمام شعبوں سے تعلق رکھتا ہے۔ جو بات گذر گئی وہ تاریخ کا حصہ ہوگئی۔ اگر کسی فرد کی یاد داشت کھو جائے تو وہ فرد جس طرح ناکارہ ہوجاتا ہے اسی طرح افراد ‘اقوام اور ممالک اپنے ماضی کے سرمایے سے واقفیت نہ رکھیں اور اپنی تاریخ سے استفادہ کرتے ہوئے اپنے حال اور مستقبل کو بہتر نہ بنائیں تو وہ زندگی کی راہ میں ترقی نہیں کر سکتے۔ تاریخ صرف گذرے واقعات کا علم نہیں بلکہ زندگی کا عظیم سرمایہ ہے جو انسان کو آگے بڑھنے کا شعور دلاتی ہے اور اپنی شناخت برقرار رکھنے کے لئے اہم بنیاد فراہم کرتی ہے۔ ان خیالات کا اظہار جناب محمد نصیر الدین صاحب سابق صدر شعبہ تاریخ ‘ماہر تعلیم اور دانشور جناب محمد نصیرالدین صاحب شعبہ اردو گری راج کالج کے زیر اہتمام منعقدہ توسیعی لیکچر سے خطاب کے دوران کیا۔ بی اے بی کام طلبا سے ’’ ضلع نظام آباد کے تاریخی مقامات اور نظام آباد کی اردو صحافت‘‘ موضوع پر خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مستند تاریخ کے لئے مستند حوالوں کا ہونا ضروری ہے سنی سنائی باتوں پر تاریخ طے نہیں کی جاسکتی ۔ انہوں نے مثال دے کر کہا کہ اورنگ زیب کا بودھن میں نماز قضا ہونے کے واقعہ اور بھاگ متی اور قلی قطب شاہ کی داستان عشق فرضی قصے ہیں ان کی اصل کچھ نہیں ہے۔ جس سنہ میں اورنگ زیب کی والدہ کی نماز قضا ہونے کی بات کہی جاتی ہے اس وقت اورنگ زیب کی ماں زندہ نہیں تھیں۔ کتابیں‘کتبہ جات ‘سکے اور دیگر ماخذات سے تاریخ کا شعور ملتا ہے۔ نظام آباد ایک تاریخی شہر ہے جس کے اطراف کئی تاریخی مقامات ہیں۔ طلباء کو چاہئے کہ وہ ان کی اہمیت کے بارے میں جانیں۔قلعہ نظام آباد اوراس کے تالاب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسے رگھوناتھ داس نے بنایا تھا۔ نظام آباد کی گنگا جمنی تہذیب کا جیتا جاگتا ثبوت یہ تھا کہ رانی چہلم جانکی بائی سرنا پلی نے بارہ ہزار روپئے کے صرفے سے 1904ء میں کلاک ٹاور کی تعمیر اور اس گنج کو محبوب گنج سے موسوم کیا تھا۔ جو بعد میں گاندھی گنج اور کشن گنج کے نام سے جانا گیا۔ اسی طرح 1908ء میں پہلا کتب خانہ احمد اللہ خاں صاحب منصور نے قائم کیا۔ 1934ء میں کتب خانہ عثمانیہ کے نام سے مجلس لوکل فنڈ سے زائد ایک ہزار گز معہ پلاٹ کی منظوری سے سید دلدار حسین ایکزیکٹیو انجنئیر کے ہاتھوں سنگ بنیاد رکھا گیا۔ اس کتاب خانہ کو آج پاپوجی واچنالیہ کہا جاتا ہے۔ 1970ء میں سرکاری دواخانہ کا قیام عمل میں آیا۔ ڈاکٹر قمر الدین صاحب اس کے پہلے سرجن مقرر ہوئے۔ ویلسن مشن عیسائی تنظیم نے 1916ء میں جذامیوں کا دواخانہ ڈچپلی میں قائم کیا۔جو ملک بھر میں اپنی نوعیت کا واحد د اور منفرد واخانہ ہے۔ 1836ء میں دواخانہ یونانی مسجد عروب سے متصل قدیم عمارت میں آج قائم ہے۔ یہاں حکیم برہان الدین صاحب پہلے یونانی حکیم مقرر ہوئے۔ عوام کی تفریح گاہ کے لئے باغ عامہ 1902ء میں محبوب باغ کے نام سے بنایا گیا۔جو آج تلک گارڈن کہلاتا ہے۔ اس کے درمیان ٹاؤن ہال ہے جس کا سنگ بنیاد مرزا محمد بیگ صاحب اول تعلقدار کے ہاتھوں 1903ء میں رکھا گیا۔ ایک سال میں اس کی تعمیر مکمل ہوگئی ۔ اس کی تعمیر میں مستاجر آبکاری دین شاہ جی نے فراغ دلانہ عطیہ دیا ۔ اور پرنس آف برار نواب مکرم جاہ بہادر کے ہاتھوں 1904ء میں عمل میں آیا۔ اور اسی سال شہر نظام آباد کے لئے برقی اسٹیشن ( پاور ہاؤز) کا افتتاح بھی پرنس آف برار کے ہاتھوں عمل میں آیا۔ 1932ء میں علی ساگر کا سنگ بنیاد سید دلدار حسین اکزیکٹیو انجینئر کے ہاتھوں رکھا گیا۔ یہ تفریح گاہ علی نواز جنگ انجنئیر نظام ساگر کے نام سے موسوم کیا گیا۔اسی طرح نظام آباد نے صحافت کے میدان میں بھی ترقی کی اور حیدرآباد کے بعد یہاں سے سب سے ذیادہ اردو اخبارات نکلتے ہیں۔صابری صاحب نے پہلا اخبار ’’ زندگی ‘‘ کے نام سے جاری کیا۔ ایم اے رشید‘اختر امتیاز‘عابد انصاری‘تبسم فریدی‘حافظ معظم علی‘کا ظم علی خان وغیرہ سینیر صحافی گذرے ہیں۔ موجودہ دور میں نظام آباد میں اردو صحافت ترقی کی راہ پر ہے لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ صحافت میں اقدار کو اہمیت دی جائے اور اسے کاروباری نہ بنایا جائے ۔ نصیر صاحب نے شعبہ اردو اور ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی کو مبارک باد دی کہ وہ طلبا میں تعلیمی ذوق کو پروان چڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکچر میں جناب عابد علی ‘حسیب الرحمٰن‘ ایم اے مبین اور دیگر لیکچررس موجود تھے۔

Extension lecture in giri raj college nizamabad

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں