پرانے شہر کی خبریں - old city news 26 feb 2014 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-02-26

پرانے شہر کی خبریں - old city news 26 feb 2014


hyderabad old city news - حیدرآباد پرانے شہر کی خبریں
2014-feb-26

(پریس نوٹ)
کلام غالب اور فکر غالب کو سہل اور آسان لفظوں میں پیش کرنا چاہئے تاکہ نسل نو غالب کی فکر و فلسفہ اور اس کی گہرائی و گیرائی سے کماحقہ واقف ہوسکے۔ ان خیالات کا اظہار ڈاکٹر خواجہ ایم شاہد نے کل یہاں انجمن ترقی اردو آندھراپردیش کے زیر اہتمام منعقدہ "غالب اور حیدرآباد"(ایک شام) میں اپنے صدارتی خطاب کے دوران کیا۔ انہوں نے کہا کہ مشکل تشریح نسل نو کو اس عظیم شاعر کے ورثہ سے بڑی حد تک دور کردے گی۔ انہوں نے مزید کہاکہ غالب کی 80شرحیں شائع ہوچکی ہیں لیکن آج بھی ایک آسان شرح کی شدید ضرورت ہے۔ ڈاکٹر خواجہ ایم شاہد نے کہاکہ حیدرآباد میں غالب پر مختلف جہات سے بہت ہی ٹھوس کام ہورہا ہے۔ انہوں نے کہاکہ اگر میں یہ کہوں تو مبالغہ آرائی نہیں ہوگی کہ حیدرآباد میں غالب کے مطالعہ میں دہلی کے نسبتاً زیادہ ہی کام جاری ہے۔ ڈاکٹر خواجہ شاہد نے کہاکہ اس طرح کی محفلیں جو ایک کامیاب سمینار کے مماثل ہیں آج کی نسل کو اردو اور اردو کے ممتاز شعراء، ادباء اوردانشوروں سے واقف ہونے میں ممد و معاون ثابت ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر شاہد نے اس اجلاس میں پیش کئے جانے والے تمام مقالہ نگاروں اور مقررین کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہاکہ سبھی نے معلومات آفریں اور نئی سوچ کے ساتھ اپنا اپنا نقطہ نظر پیش کیا ہے۔ ڈاکٹر محمد ضیاء الدین احمد شکیب، نامور مورخ لندن نے اپنے کلیدی خطبہ میں کہاکہ غالب کی پیدائش جس وقت ہوئی ان کے والد حیدرآباد میں تھے یعنی غالب نے اپنی ماں کے بطن ہی سے حیدرآبادکا نام سنا ہوگا اور یہ تعلق کسی نہ کسی شکل میں آخر تک برقرار بھی رہا۔ ڈاکٹر شکیب نے کہاکہ غالب کی شرح حیدرآباد ہی سے زیادہ مکمل اور جامع صورت میں منظر عام پر آئی۔ انہوں نے کہاکہ نظم طبا طبائی نے تفہیم غالب میں نمایاں حصہ ادا کیا بعد میں عبدالرحمن بجنوی بھی اس جانب متوجہ ہوئے۔ انہوں نے کہاکہ غالب حیدرآباد آناچاہتے تھے لیکن نہیں آپائے تاہم نظام پنجم کے علاوہ انہوں نے مختار الملک کیلئے بھی معرکتہ الآرء قصائد لکھے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ حیدرآباد کی طرف سے اس کی قدر دانی نہیں ہوئی لیکن کلام غالب بلا تخصیص مذہب، جنس و عقیدہ دنیا کے چپے چپے کی طرح یہاں بھی نمایاں مقبولیت کا حامل ہے۔ پروفیسر معظم نے لفظوں کے استعمال کے سلسلہ میں غالب کو ایک منفرد شاعر قراردتے ہوئے کہاکہ "گل نغمہ" ایک لفظ ہی کے ذریعہ ہم غالب کی شاعرانہ ندرت کا بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں۔ پروفیسر اشرف رفیع سابق صدر شعبہ اردو جامعہ عثمانیہ نے اپنے خطاب میں کہاکہ نظم طبا طبائی سے ضامن کشوری تک کئی دانشوروں نے تفہیم غالب پر رائے زنی کی ہے۔ انہوں نے ان تمام کا اجمالی جائزہ پیش کیا۔ پروفیسر ایس اے وہاب قیصر ڈائرکٹر انچارج انسٹرکشنل میڈیاسنٹر مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی نے محاورات غالب اور لفظیات غالب پر اب تک کئے گئے کام کا تفصیلی جائزہ پیش کیا۔ پروفیسر محمد ظفر الدین صدر شعبہ ترجمہ و ڈین اسکول برائے لسانیات مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی نے امریکہ میں مقیم ڈاکٹر کرشنا مورتی کے ترجمہ کے حوالہ سے بتایا کہ حیدرآباد کا ادبی ماحول کچھ ایسا ہے کہ ایک میڈیکل ڈاکٹر مادری زبان تلگو ہونے کے باوجود غالب کو پہلے تلگو میں پڑھ کر انگریزی میں اس کا ترجمہ کرتا ہے جس سے اردو والوں کو ایک مہمیز کیا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹر حبیب نثار، اسوسی ایٹ پروفیسر شعبہ اردو یونیورسٹی آف حیدرآباد نے اپنے خطاب میں غالب کے ناقدین کا سرسری جائزہ پیش کرتے ہوئے سید عبدالطیف کے حوالہ سے ان کی تنقید پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ ڈاکٹر عباس متقی، فارسی اسکالر نے غالب کے فارسی اور اردو کلام کا مختصراً تقابلی جائزہ پیش کیا۔ قبل ازیں پروفیسر فاطمہ بیگم پروین سابق صدر شعبہ اردو جامعہ عثمانیہ و اعزازی رکن انجمن ترقی اردو نے استقبالیہ خطاب کے علاوہ صدر انجمن غلام یزدانی سینئر ایڈوکیٹ کا جدہ سے روانہ کردہ پیام کے علاوہ انجمن کے نائب صدر سجاد شاہد کی نیک خواہشات پیش کیں۔ کنوینر ڈاکٹر محمد شجاعت علی راشد ڈپٹی ڈائرکٹر سی پی ڈی یو ایم ٹی مولانا آزاد اردو نیشنل یونیورسٹی نے اپنی نوعیت کی اس انتہائی سادہ لیکن پر اثر تقریب کی نظامت کے فرائض انجام دئیے۔ مرحوم شاعر طالب خوند میری کی نظم "مرزا غالب :MCA" پیش کی اور کلمات تشکر ادا کئے۔ ابتداء میں غزل گلوکار لیناروی نے کلام غالب پیش کرتے ہوئے اس شام کا آغاز کیا اور ان ہی کے پیش کردہ کلام غالب پر اس محفل کا اختتام عمل میں آیا جس میں پدم شری ڈاکٹر جیلانی بانو، وی کے باوا، ڈاکٹر ادیش رانی باوا، رحیم الدین کمال کے بشمول ادباء، شعراء، اسکالرس اور اساتذہ کی بڑی تعداد موجود تھی۔

(دکن نیوز)
غریب عوام کو حکومت کی فلاحی اسکیمات سے واقف کروانے اور اس کی رہنمائی کیلئے جماعت اسلامی ہند نامپلی کی جانب سے محلہ صابر نگر نزد النور ہوٹل سوسائٹی کے مرکز کا قیام عمل میں لایا گیا۔ سید سلطان محی الدین صدر الخیر سوسائٹی لانسر نے اس کا افتتاح انجام دیا۔ انہوں نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ خدمت خلق اسلام کا ایک اہم شعبہ ہے۔ اس لئے جماعت اسلامی ہند اس شعبہ پر اپنی خاص توجہ مبذول کی ہوئی ہے اور ساتھ ہی اس سوسائٹی کے تحت مختلف سرگرمیوں کو غریب محلہ جات میں جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس کے علاوہ وظائف پیرانہ سالی، بیوگان اور معذورین کی امداد اور ان میں دیگر وظائف کے ساتھ مدد انہیں حکومت کی جانب سے خودروزگار اسکیمات میں تعاون کرتے آرہی ہے جس کیلئے اسے ثمر آور نتائج برآمد ہورہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ اس سلسلہ کو مزید آگے بڑھانے کیلئے حکومت کے تحت جو امداد مسلم اقلیت کو دی جارہی ہے اس کی بھرپور انداز میں رہنمائی کے ساتھ سوسائٹی میں سرعت پیدا کرنے کیلئے صابر نگر میں اس مرکز کا قیام بڑی اہمیت کا حامل ہوگا۔ انہوں نے اس علاقہ کے مسلمانوں پر زوردیا کہ وہ اس مرکز سے وابستہ ہوکر استفادہ کریں۔ اس مرکز سے فی الوقت بیوہ خواتین، پیرانہ سالی، معذورین کی امداد اور ان میں وظائف کا نظم کیا جائے گا جس کیلئے فی الوقت شادی کیلئے امداد کیلئے فارمس کی اجرائی جاری ہے۔ محمدعبدالعزیز رکن جماعت اسلامی ہند نے تعارفی کلمات ادا کئے۔ اس موقع پر میر عارف علی سکریٹری شعبہ خدمت خلق، محمد سرور نگران کار ناشتہ اسکول، محمد لیاقت علی ناظم مائیکرو فینانس اور دوسرے موجود تھے۔


Hyderabad news, old city news, hyderabad deccan old city news, news of old city

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں