25/فروری رپورٹ دی گارجین
900 اشیائے حورونوش کے لیبارٹری میں 33 فیصد جعلی نکلیں۔فوڈانڈسٹری میں "آر گنائزڈکرمنل گروپس" کو قابو کرنے میں متعلقہ ادارے نا کام۔برطانیہ سمیت یورپ بھر میں مہلک بیماریاں پھلنیے لگیں۔"فوڈسیفٹی"کے بجٹ میں اضافے کا مطالبہ یورپ غیر معیاری غذاوں کی فرروخت میں پہلے نمبر پر آگیا ہے۔برطانیہ سمیت یورپی بازار اور سوپرمارکیٹیں دونمبر غذاوں سے بھر گئی ہیں ،جن کے استعمال سے یورپی باشند ے مہلک بیماریوں میں مبتلا ہورہے ہیں۔لیبارٹری جانچ میں انکشاف ہواہے کہ 900 اشیائے خورونوش میں سے 33 فیصد جعلی اور مضرصحت تھیں۔معروف برطانوی جریدے انڈی پنیڈنٹ (independent) کے مطابق ،یورپ بھر کی مارکیٹوں میں فروٹ جوسز، سبزیوں کے جوس، پیزا،ہیم برگر،سینڈوچز، پنیر، دودھ ،بچوں کی ٹافیاں اور دیگر اشیائے خوردنوش غیر معیاری خام مال سے بناکرفروخت کی جارہی ہیں۔جبکہ فوڈسیفٹی کے ادارے اور اہلکار ان دو نمبر اشیاء کی خرید وفروخت رکو انے میں نا کام رہے ہیں۔یہی سبب ہے کہ برطانیہ سمیت یورپ بھر میں بھر میں عام افراد،بالخصوص نوعمر بچے مہلک بیماریوں میں مبتلا ہورہے ہیں ۔یورپ بھر میں جعلی اور مضرصحت خوراک اور مشربات بناکر فراہم کرنے والے گروہوں کو "آرگنائزڈکر منل گروپس"کانام دیا گیا ہے،جویورپی ملکوں میں شرابوں کے جعلی برانڈز کو گھٹیاقسم کی شرابوں اور کیمیائی مودادکی آمیزش سے نیابرانڈبناکر فروخت کرتے ہیں۔جبکہ بکری کے دودھ کے نام پرگائے کازائدالمیعاد دودھ ،پانی اور کیمیکل ملاکر فروخت کیا جاتاہے۔برطانوی اور یورپی بازاروں میں جعلی طورپر تیار کیا جانے والا پنیر بھی دھڑلے سے فروخت کیا جارہا ہے۔آرگنائزڈ کرمنل گروپ کے حوالے سے برطانوی میڈیا یہ انکشاف بھی کر چکا ہے کہ یورپ،بالخصوص برطانیہ میں مسلمانوں کے لئے مقدس "آب زم زم " کا جعلی برانڈبھی تیار کرکے بیچا جا چکاہے۔برطانوی جریدے ڈیلی ایکسپریس کا کہنا ہے کہ حکام باوجود کوششوں کے اس منظم گروہ کا سراغ نہیں لگاپائے ہیں ،جن کی جعلی غذاوں اور فوڈپروڈکٹس کے استعمال سے معاشرے میں آنتوں کی بیماریاں اور جلد کے مسائل بڑھ رہے ہیں۔یورپی طبی ماہرین نے اپنی وارننگ میں کہا ہے کہ یورپی معاشرے میں جعلی غذاؤں کے استعمال کی جعلی چیزوں کو مارکیٹوں میں فروخت ہونے سے روکا جاسکے۔independent کا کہنا ہے کہ مارکیٹ میں فروخت کئے جانے والے بادام کے پاؤڈرکی جگہ گھٹیا قسم کا مونگ پھلی پاؤڈر ایسنس ڈال کر فروخت کیا جاتا ہے ،جوخوشبو کے لحظ سے بادام کا پاؤڈر ہی لگتا ہے، لیکن اصل میں یہ مونگ پھلی ہوتی ہے،جس کے استعمال سے جلد کے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔جریدے کا پولیس اور انوسٹی گیشن ٹیموں کے حوالے سے کہنا ہے کہ یورپی مارکٹیوں میں فروخت کئے جانے والے چاولوں کی کوالٹی اگر چہ گھٹیا ہوتی ہے لیکن انہیں صرف لمبے چاولوں کا فائدہ اٹھا کر ،ایشیائی ممالک کے مشہور اور یجنل باسمتی چاولوں کا برانڈقراردے کر مہنگے داموں بیچا جاتا ہے۔جب کہ ایسے غیر ملکی برانڈاز کی شرابوں اور بالخوص روسی شراب ووڈکا ،کا جعلی برانڈ بھی تیار کرکے اصلی پیکنگ کی شکل میں مارکیٹوں میں فروخت کیا جا رہا ہے۔برطانوی جریدے گا رجین کی جانب سے پیش کی جانے والی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ برطانوی اور یورپی مارکیٹوں میں دستیاب ہر تین پروڈکٹس میں سے ایک میں ملاوٹ یا جعلی اجزاء ملائے جانے کا انکشاف ہوا ہے اور اس بات کی تصدیق مختلف لیبارٹریز میں بھی ہوچکی ہے۔مارکیٹوں میں صاف شدہ منجمد(frozen) جھینگوں س میں 50 فیصد تک پانی (inJect)ڈالا گیا تھا اور اس کے بعد ان جھینگوں کو جمادیا گیا،تاکہ ان کا وزن بڑھ جائے۔گارجین کے مطابق ، گائے کے گوشت میں خنزیر کے سستے گوشت کو ملایا جاتا ہے۔جبکہ قیمہ،ساسیج اور سینڑوچز میں بھی " دو نمبر" ملایا جانامعمول ہے۔ہیم برگر، پیزاسمیت فاسٹ فوڈ کی قبل میں آنے والی تیار(ready to use)غذاوں میں بھی مضرصحت اشیاء ملائی جاتی ہیں۔بالخصوص ایسے سامان میں "جعلی پنیر"کا استعمال عام ہے۔جبکہ پیزا میں ایسی گھٹیا اور باسی سبزیاں استعمال کی جاتی ہیں، جو پھینک دئے جانے کے لائق ہوتی ہیں۔گارجین کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ویسٹ یا رک شائر کی مارکٹوں سے اٹھائی جانے والی 900 اقسام کی غذائی اشیاء کے سیمپل لے کر مقامی لیبارٹری میں ان کی جانچ کی گئی تھی۔جس میں یہ روح فرساانکشاف ہوا کہ مارکیٹوں میں موجود 33 فیصد غذائیں جعلی یا ملاوٹ شدہ تھیں۔جن کے استعمال سے انسانوں کو شدید خطرات لاحق ہیں۔گارجین کو یارک شائر کی لیبارٹری کی جانب سے کی جانے والی جانچ کے نتائج سے بھی آگاہ کیا گیا ہے،جس میں انکشاف کیا ہے کہ مارکٹ میں وزن کم کرنے کیلئے مشہور (herbal slimming tea )نباتی چائے کی جانچ سے پتہ چلا کہ اس چائے میں نباتات کے نام پر عام درختوں کے پتے ڈال کر گلوکوز کا پاوڈر ملا دیا گیا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ گلوکوز بھی گھٹیا تھا اور اس کے استعمال سے استعمال کنندگان کا وزن بڑھ سکتا تھا۔اس میں 13 فیصد اور رڈوز مقدار ملائی گئی تھی۔رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ مارکٹ میں فروخت کئے جانے والے مختلف اقسام کے پھلوں اور سبزیوں کے عرقیات کی جانچ سے یہ عقدہ بھی کھلا کہ ان میں ایسا کچھ شامل نہیں ،جس کا لیبل ان جوسزکے ڈبوں پر لگایا گیا تھا۔بعض دکانداروں کا دعوی ہے کہ شاید سپلائر کمپنیوں کی جانب سے ان غذائی اشیاء پر غلطی سے لیبل لگا دےئے گئے ہیں۔لیکن یارک شائر کو نسل کی جانب سے اس عذر کو بدتر قراردیا گیا ہے۔یارک شائر پبلک اینالائسٹ ڈاکٹر ڈنکن کیمبل کا کہنا ہے کہ دکانوں اور مارکٹوں میں فروخت کئے جانے والے سامان میں غیر معیاری اشیاء کی ملاوٹ اور جعلی سازی کا عنصر بڑھ رہا ہے اور اس معاملے پر ان کے تحفظات بھی موجود ہیں۔ لیکن ایسی جعلی، ناقص اور مضر صحت غذاؤں کی فروخت کو رکوانے کیلئے حکومت کو "فوڈ سیفٹی"کے بجٹ میں اضافہ کرنا ہوگا، جو پہلے ہی کم کیا جاچکا ہے اور اسی سبب مارکیٹوں اور دکانوں پر فروخت کی جانے والی غذاؤں کی جانچ ممکن نہیں ہوپارہی ہے۔ وزارت ماحولیات کی "شیڈو سکریٹری" ماریہ ایگل اس خوفناک رجحان کو رکوانے کیلئے سخت اور بے رحم اقدامات کے حق میں ہیں۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ عوام الناس کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ مارکیٹوں اور دکانوں سے خریداری کرتے وقت اس بات کو یقینی بنائیں کہ وہ کیا کچھ خرید رہے ہیں؟ برطانوی ادارے "ڈپارٹمنٹ فار انوائرمنٹ، فوڈ اینڈ رورل افےئرز"Defraکے ترجمان نے اس خوفناک حقیقت کو درست قراردیا ہے کہ برطانوی مارکیٹوں میں جعلی اور ملاوٹی اشیائے خوردنوش کی فروخت دھڑلے سے جاری ہے۔ Defraترجمان نے کہاکہ جعلی غذاؤں کی تلاش کیلئے اورایسے افراد کو کیفر کردار تک پہنچانے کیلئے سال گذشتہ میں دو ملین پاؤنڈ کی رقم مختص کی گئی تھی۔ جبکہ انفورسمنٹ ایجنسیز سمیت مقامی انٹلی جنس کو بھی اس ضمن میں فعال کرتے ہوئے تمام مارکیٹوں میں نظریں رکھنے کے احکامات جاری کئے گئے ہیں کہ جعلی اور ملاوٹی غذاؤں کی تلاش اور شناخت کرکے ان کی تیار کنندگان کمپنیوں اور ترسیلی اداروں کو قانون کے دائرے میں لایا جائے۔
(اردو ترجمہ : روزنامہ منصف حیدرآباد)
Fake-food scandal revealed as tests show third of products mislabelled
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں