ہم موّحد ہیں ہمارا کیش ہے ترکِ رسوم
مِلتیں جب مٹ گئیں ، اجزائے ایماں ہو گئیں
جدت طرازی، عصری آگہی اور انکشافِ ذات کی آج بات کی جاتی ہے لیکن غالب اردو کا غالباً پہلا باغی شاعر ہے، جس نے اُنیسویں صدی میں یہ ہفت خواں طے کر لئے تھے۔ اُسے اپنے وجود کی اہمیت اور اپنے فن کی عدم پذیرائی کا شدید احساس تھا اور جب یہ احساس کسبِ معاش کی سخت گیری سے متصادم ہوجاتا تو وہ چراغِ پا ہو اٹھتا ۔ لیکن اُسے عمر بھر گلہ رہا تو چرخِ کج رفتار سے
زندگی اپنی جب اس شکل سے گذری غالبؔ
ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے
غالب کے کلام میں یہ تضاد بڑا عجیب و غریب ہے کہ ایک طرف تو وہ اپنے رویّے اور مزاج کے اعتبار سے ایک سرکش ، ضدی، خوددار عاشق نظر آتا ہے تو دوسری طرف دنیاوی منفعت کی خاطر قصیدہ گو بن کر مصلحت اندیشی کا جامہ بھی اوڑھ لیتا ہے۔اس کے باوجود خدا سے اس کی شکایت برقرار رہتی ہے۔غالب کے لب و لہجے اور اندازِ تکلّم میں طنز کی کاٹ اور ظرافت اس کے بو قلمونی مزاج کا خاصہ بن کر ابھرتی ہے
سفینہ جب کہ کنارے پہ آلگا غالبؔ
خدا سے کیا ستم و جورِ ناخدا کہئے ؟
غالب کے اور آج کے عہد میں بعض مماثلتیں پائی جاتی ہیں۔ دونوں عہد ایک زوال آمادہ تہذیب کا منظر پیش کرتے ہیں۔ لیکن اس منظر نامے کو غالب نے جس زاوئیے سے دیکھا اور جس انداز میں جزو شاعری بنایا وہ آج کے شاعر میں کم کم ہی نظر آتا ہے۔ بات ہو رہی تھی غالب کے خدا سے شکوے کی۔ خدا کی خلّاقیت کے مقابل غالب کی اپنی محدود بساط نے جو غالب پر منکشف تھی، غالب سے یہ شعر کہلوایا ہے
نہ تھا کچھ تو خدا تھا ، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے ، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا
شائد اختر الایمان نے کسی موقع پر بڑے پتے کی بات کہی تھی کہ "غزل ، غالب میں اپنا سب کچھ ڈھونڈ چکی تھی یعنی ایسے مضامین جو خیال کی پرواز اور معنی میں سمندر ہوں اور پھر بھی جنھیں دومصرعوں کے کوزے میں بند کیا جا سکے اور جو زندگی کے ہر پہلو کو محیط کئے ہوئے ہوں، غالب پر ختم ہو گئے تھے"۔
روایت سے انحراف کا رحجان اور فرسودہ اقدار سے بغاوت کے با وصف غالب بعض سماجی اور سیاسی پابندیوں میں جکڑے نظر آتے ہیں۔ اسے غالب کے کلام کی تہہ داری کہئے کہ جہاں جہاں اس نے شکوۂ خدا کی بظاہر بات کی، اس کی کئی قرأتیں ممکن ہیں۔جس کی مثبت اور منفی دونوں پہلوؤں پر قیاس کیا جا سکتا ہے
ہم کو معلوم ہے جنّت کی حقیقت لیکن
دل کے بہلانے کو غالبؔ یہ خیال اچھا ہے
عام طور پر اس شعر کا یہ مفہوم لیا جاتا ہے کہ غالب جنّت کے قائل نہیں تھے لیکن اس شعر کی ایک قرأت یوں بھی کی جاسکتی ہے کہ جنّت صرف نیکوکاروں کو عطا کی جائے گی اور ہم ٹھیرے گناہگار، لیکن یہ امید ہمارے دل کو بہلائے رکھتی ہے کہ ذرہ برابر بھی ایمان رکھنے کے باعث ہم بھی جنّت کے حقدار ٹھیرائے جائیں گے۔
خالق اور مخلوق کے درمیان عام رویہّ یہ ہے کہ بندہ تمام تر شکر گذار ہوتا ہے اور خدا تمام تر کرم نواز لیکن یہاں بھی غالب ایک نیا نکتہ لے آتے ہیں
مجھ کو پوچھا تو کچھ غضب نہ ہوا
میں غریب اور تُو غریب نواز
بنیادی مسلک کے اعتبار سے غالب خدائی کے قائل ہیں اور یہ سوال بھی کرتے ہیں
جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود
پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے ؟
صوفیوں کی اصطلاح" وحدت الشہود"کے مطابق وہ درجہ جس میں جلوۂ حق ہر شئے میں نظر آئے ، غالب کے ہاں دیکھئے ، کس ڈھنگ سے آیا ہے
دلِ ہر قطرہ ہے سازِ انا البحر
ہم اس کے ہیں ہمارا پوچھنا کیا
اس کے علی الرغم ، ایک اور اصطلاح "وحدت الوجود" کے مطابق تمام موجودات کو خدا ہی کا ایک وجود ماننا غالب کے ہاں دیکھئے ، کس شکل میں ملتا ہے
اسے کون دیکھ سکتا کہ یگانہ ہے وہ یکتا
جو دوئی کی بُو بھی تو کہیں دو چار ہوتا
یا پھر یہ شعر
دہر جُز جلوۂ یکتائی معشوق نہیں
ہم کہاں ہوتے اگر حسن نہ ہوتا خود میں
شاعر کوئی مصلح قوم یا پیامبر نہیں ہوتا، اس کے باوجود سچّے اور اچّھے شاعر کا فرض منصبی اس کی فکر کو احساس کی بھٹی میں تپاتا ہے اور اس سے ایسے شعر کہلواتا ہے جو معاشرے کے رِستے ناسور پہ نشتریت کا کام کرتے ہیں۔ جب غالب کہتے ہیں
ابن مریم ہوا کرے کوئی
میرے دُکھ کی دوا کرے کوئی
تو وہ ایک ایسے "مسیحا" کی تلاش میں سرگرداں ہیں جو کہ ان کے دکھوں کا علاج کرسکے۔ ابن مریم کے بھی وہ اسی شرط پر قائل ہیں ۔تشکیک کی یہ منزل ، وہی منزل ہے جس کو اقبال نے "لا" کے بعد "اِ لّا" کی منزل سے تعبیر کیا ہے
لبالب شیشۂ تہذیب حاضر ہے مئے لا سے
مگر ساقی کے ہاتھوں میں نہیں پیمانۂ اِلاّ !!!
یعنی اگر کوئی منکرِ خدا ہے تو بھلے ہی مطاہرِ کائنات اُسے خدا کے وجود کا احساس نہ دلائیں ، تاہم واقعات نفس الامری کا مشاہدہ اسے وجدان کی اس سطح پر لے آتا ہے جہاں غالب جیسا باغی شاعر کہہ اٹھتا ہے
ایماں مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ مِرے پیچھے ہے کلیسا مِرے آگے !
غالب نے شاعری کے پردے میں کچھ ایسے نکتے بیاں کئے ہیں کہ یہاں" تشکیلِ الٰہیات" کے ضمن میں ان کی ژرف نگاہی کو تسلیم کئے بغیر رہا نہیں جاتا۔ وہ اندھیرے میں تیر چلانے یا یا اٹکل پر یقین رکھنے کے بجائے قرآنی اصطلاحوں "تدبّرون""تفکرّون"اور "تشکرّون" سے کام لیتے ہیں۔ یہیں خدا کی مختاری اور بندے کی مجبوری کی حد جاری ہوتی ہے۔ جس کے لئے میر نے کہا تھا
ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
چاہتے ہیں سو آپ کرے ہیں ، ہم کو عبث بدنام کیا
دراصل جبر و قدر کا مألہ اس قدر متنازعہ فیہ رہا ہے کہ قرونِ وسطیٰ میں جبریئے اور قدریئے دو طبقے وجود میں آئے۔ پہلا طبقہ یہ مانتا تھا کہ انسان مجبور محض ہے جبکہ دوسرا طبقہ اس بات کا قائل تھا کہ انسان کو اپنے اعمال کے کرنے یا نہ کرنے پر قدرت حاصل ہے۔غالب تقدیر کے قائل ہیں لیکن خدا سے انھیں یہ بھی شکوہ ہے کہ جو غم ان پر لادا گیا ہے ، اس کے لئے ایک دل متحمل نہیں ہو سکتا
میری قسمت میں غم گر اتنا تھا
دل بھی یارب کئی دیئے ہوتے
اقبال قوم کی بے عملی کو دیکھتے رہنے کے باوجود خدا سے شکوہ کر بیٹھے۔ جس پر انھیں ملحد، کافر، اور کرسٹان کے القاب سے نوازا گیا۔ یہ اقبال کی دور اندیشی تھی کہ ان کے قلم سے "جوابِ شکوہ"جیسی نظم نکلی۔ جس نے معترضین کے منھ بند کر دیئے۔
اب اسے وقت کا جبر کہئے کہ غالب نے اپنے اظہار کے لئے شاعری کو منتخب کیا جو ان ہی کے الفاظ میں ذریعۂ عزت نہیں تھی
سو پُشت سے ہے پیشہ آبأ سپہ گری
کچھ شاعری ذریعۂ عزت نہیں مجھے
غالب آزادہ رو ہوتے ہوئے صلح کُل مسلک رکھتے ہیں۔ بُری قسمت کا احساس رکھتے ہوئے طبیعت بُری نہیں کرتے۔ منصب و ثروت سے محرومی بھی ہے اور بادشاہِ وقت کی غلامی کو اپنے لئے مشرف گردانتے ہیں
کیا کم ہے یہ شرف کہ ظفر کا غلام ہوں
مانا کہ جاہ و منصب و ثروت نہیں مجھے
غالب کی شاعری میں خدا کے قادر المطلق ہونے کا منطقی جواز تو مل جاتا ہے ، تاہم قدرتِ کاملہ سے اپنی جبریت کا تصادم اُن سے ایسے شعر بھی کہلواتا ہے
پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر نا حق
آدمی کوئی ہمارا دمِ تحریر بھی تھا ؟
یا پھر یہ شعر
ناکردہ گناہوں کی بھی حسرت کی ملے داد
یارب اگر ان کردہ گناہوں کی سزا ہے
اقبال نے اس مرحلہ پر اپنے حوصلے اور اپنی خودی کو ان الفاظ میں ڈھال دیا تھا
فارغ تو نہ بیٹھے گا محشر میں جنوں میرا
یا اپنا گریباں چاک ، یا دامنِ یزداں چاک
ہر چند کہ غالب کے ہاں عقائد کا کوئی منضبط نظامِ فکر نہیں ملتا، تاہم دیوان میں جگہ جگہ "شکوہ اللہ سے خاکم بدہن ہے مجھکو" کے مصداق قابل لحاظ مواد مل جاتا ہے۔ جس کی بنأ پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ غالب بیک وقت صوفیانہ، فلسفیانہ اور شاعرانہ شہ نشین پر متمکن نظر آتے ہیں اور جو فکر غالب نے اختیار کی وہ اپنے عہد کی دانشورانہ فکر سے ہم آہنگ تھی اور جس کی روشنی میں "غالب اور خدا" کے موضوع کو صاف صاف دیکھا اور پرکھا جا سکتا ہے۔
اپنی وفات سے کچھ دن پہلے غالب جو شعر دہراتے رہتے تھے وہ "خود سپردگی" کی ایک اچھّی مثال ہے
دمِ واپسیں برسرِ راہ ہے
عزیزو اب اللہ ہی اللہ ہے
***
webmaster[@]raoofkhalish.com
داؤد منزل ، 544-8-16 ، نیو ملک پیٹ ، حیدرآباد - 500024۔
webmaster[@]raoofkhalish.com
داؤد منزل ، 544-8-16 ، نیو ملک پیٹ ، حیدرآباد - 500024۔
رؤف خلش |
Ghalib and God. Essay: Raoof Khalish
واہ
جواب دیںحذف کریں