کیا میڈیا جج اور جیوری کے فرائض انجام دے سکتا ہے؟ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-02-10

کیا میڈیا جج اور جیوری کے فرائض انجام دے سکتا ہے؟

arnab-goswami-rahul-gandhi
راہول گاندھی کے سب سے پہلے ٹی وی انٹرویو پر ہنگامہ ابھی تک ختم ہونے میں نہیں آیا ہے۔
گاندھی خاندان کے اس سپوت کے ہر انداز، ہر بات اور ہر زاویے کا جائزہ لیا جارہا ہے اور ہر چیزکا تجزیہ کیا جارہا ہے اور سیاسی پنڈتوں کا متفقہ فیصلہ ہے کہ "کرویا مرو، قسم کے عام انتخابات سے قبل رائے دہندوں کے روبرو پیش ہونے کا جو نادر موقع راہول گاندھی کو ملا تھا، اسے انہوں نے ضائع کردیا"۔
یہ دراصل انٹرویو نہیں تھا بلکہ میڈیا کا ایک تجسس تھا۔ اس کے جج ارناب گوسوامی بہر قیمت اس کیس کے شکار (راہول) کو ان کی سخت مدافعت کے باوجود مجرم ثابت کرنا چاہتے تھے۔ جیسا کہ سعید نقوی نے کہا ہے کہ 12/ ہزار سے زائد الفاظ پر مشتمل اس انٹرویو میں ارناب کے سوالات 5 ہزار سے زائد الفاظ پر موقوف تھے۔ نقوی کے الفاظ میں ارناب گوسوامی "سرکس کے رنگ ماسٹر اور مرغوں کی لڑائی کے اکھاڑے کے مالک" نظر آرہے تھے۔ وہ وہاں اپنی نہیں بلکہ کسی اور کی لڑائی لڑ رہے تھے اور نہایت ہی معیوب طریقہ سے لڑ رہے تھے۔
اور جہاں تک راہول کی کارکردگی کا معاملہ ہے، ان کا میڈیا کے ساتھ پہلا سامنا تھا اس لئے اس لحاظ سے ہم اسے خراب کارکردگی نہیں کہہ سکتے۔ غور و فکر کے بعد دئیے گئے ان کے مفکرانہ جوابات ، ان کے مخلصانہ جذبے اور خود اپنے آپ پر بے اعتباری کے لحاظ سے دیکھا جائے تو کسی عفریت کے بالمقابل نہایت معقول انسانی طرز عمل تھا۔
وہ ہر اس بات کو دہرا رہے تھے جسے انہوں نے اس سے پہلے کئی دفعہ کہا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ ہندوستانی سیاست میں تغیر اور تنظیمِ نو کی ضرورت ہے اور اگر ہم چاہیں تو ایک تازہ کار مثالی تبدیلی لا سکتے ہیں۔
"جو کچھ ہندوستانی سیاست میں وقوع پذیر ہو رہا ہے وہ مجھے پسند نہیں ، اور یہ ایسی بات ہے جو میرے دل میں جاگزیں ہے ، اسی طرح جیسا کہ ارجن کو سوائے ایک چیز کے دوسری کوئی اور شئے نظر نہیں آتی تھی۔ آپ مجھ سے مودی کے بارے میں پوچھ رہے ہیں ، جبکہ مجھ سے اس نظام کی کسی بھی چیز کے متعلق دریافت کیجیے ، مگر میں یہی دیکھتا ہوں کہ اس ملک کے نظام کو تبدیلی کی ضرورت ہے۔"
آزادی کے بعد کئی سالوں تک ہندوستان کو بہتر حکمرانی فراہم کرنے والے خاندان سے آئے اس وارث کا "تبدیلئ نظام کی ضرورت" کا نظریہ واقعتاً قابل قدر نظریہ ہے۔ اور یہ بہرحال ایسا کچھ مشکل امر نہیں تھا کہ ان کی سادہ لوحی کے پیش نظر ان کے فلسفہٴ تصوریت کو سمجھا نہ جا سکتا ہو۔

جیسا کہا جاچکا ہے یہ سب راہول کیلئے نہیں تھا بلکہ یہ انٹرویو ارناب گوسوامی کے ہیرو نریندر مودی کیلئے تھا۔ ہرچند کہ انٹرویو تو راہول گاندھی کا تھا لیکن ایسا لگتا ہے کہ اس کا اہتمام نریندر مودی نے کیا ہو۔

"نریندر مودی کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ کیا آپ نریندر مودی کے مقابلہ میں ہار جانے کے خطرے سے خوف زدہ ہیں؟ کیا آپ راست مودی کا سامنا کرنے سے گھبراتے ہیں؟
کانگریس کو کیا انتخابات ہارجانے کا اندیشہ ہے کیونکہ اس کا موقف ٹھیک نہیں ہے۔
راہول گاندھی نے اگر اپنے طورپر اس چیلنج کو قبول نہیں کیا ہے تو اس کامطلب یہ ہے کہ انہیں شکست کھا جانے کا خوف ہے اس لئے وہ مودی سے راست مقابلے سے گریز کر رہے ہیں وغیرہ وغیرہ۔"

ہر جگہ بس مودی، مودی، مودی ہی کا تذکرہ سننے میں آتا ہے۔
اس انٹرویو میں جہنم کے دہانے اس وقت کھل گئے جب ارناب نے خود ہی راہول سے سوال کیا کہ کیا راہول وزیراعظم منموہن سنگھ کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ گجرات کے چیف منسٹر نے احمد آباد کے گلی کوچوں میں معصوم شہریوں کے قتل عام کی قیادت کی۔
جب کانگریس کے نائب صدر نے جواب دیاکہ وزیراعظم نے جو بھی کہا ہے وہ حقائق پر مبنی ہے۔ ارناب کے بار بار سوال کرنے پر یہ خونین واقعہ اور بھی بھیانک ہو گیا۔ ارناب نے ہر دفعہ گھما پھرا کر کسی بپھرے ہوئے سانڈ کی طرح یہ بات دہرائی۔
انہوں نے پوچھا کہ :
"آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں؟ آپ کس طرح مودی پر یہ الزام لگاسکتے ہیں کہ مودی اس کیلئے ذمہ دار ہیں؟ مودی کو تو کلین چٹ دے دی گئی ہے۔ اس کے باوجود بھی کیا کانگریس یہ حملے کرنے کا سلسلہ جاری رکھے گی۔ آپ کی پارٹی 2002ء کے گجرات فسادات کیلئے مودی پر کس طرح نکتہ چینی کرسکتی ہے جب کہ عدالت اور "خصوصی تحقیقاتی ٹیم" نے انہیں اس سے بریت دے دی ہے۔ گجرات فسادات کے دوران آپ یہ کہتے ہیں کہ مودی ، سی ایم تھے۔ اس طرح یوپی فسادات کے وقت اکھلیش برسر اقتدار ہیں اور 1984ء کے مخالف سکھ فسادات کے وقت دہلی پر کانگریس پارٹی کی حکومت تھی۔ کیا آپ اسے ان کے لئے ذمہ دار قراردیں گے؟"

یہ سب کیا ہے؟ کیا یہی صحافت ہے؟ یہ ایک ایسے ٹی وی نیٹ ورک کی حرکت ہے جو اپنے آپ کو ہندوستان کا "سب سے اول درجہ کا منصفانہ و متوازن نیٹ ورک" ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ ذرائع ابلاغ کا کام ہے کہ سچائی کی خبر دے دیں۔ اقتدار کے غلط استعمال پر نظر رکھیں۔ نا انصافیوں اور غلط باتوں کا مقابلہ کریں۔ سب سے مقدم یہ ہے کہ جن لوگوں کی کوئی آوازنہیں جو کمزور اور بے بس ہیں ان طبقات کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوں۔ جو لوگ انہیں ایذا دیتے ہیں، ظلم کرتے ہیں ان طاقتوں کا ساتھ نہ دیں۔
تحقیقاتی ٹیم کے تقرر کے وقت اس کے سربراہ راجو رامچندرن نے اپنی رپورٹ میں واضح طور پر کہا تھا کہ اس کا کافی شہادتیں پائی جاتی ہیں کہ مودی کے خلاف ابتدائی مرحلہ ہی میں کیس تیار کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے آگے بتایا تھا کہ ان باتوں میں مذہب کی بنیاد پر مختلف گروہوں میں نفرت پیدا کرنا اور یکجہتی اور یگانگت کے برعکس جانبداری سے کام لینا ، جیسے معاملات شامل ہیں۔

ذرائع ابلاغ میں طاقتور موقف کے حامل لوگ قوم کی راہ اور اس کے ایجنڈہ کے تعین کا اختیار رکھتے ہیں۔ یہ صرف روایتی قسم کا طریقہ طرز کا میڈیا نہیں ہے جو کسی ایک مٹتے ہوئے نظریہ کا غلام ہے، بلکہ زعفرانی نظریہ سماجی میڈیا سمیت سائبر اسپیس وغیرہ میں بھی سرایت کر چکا ہے۔ تمام مخالف آوازوں کو دبا دیا جارہا ہے۔ جب بھی ایسی کوئی آواز بلند کی جاتی ہے اس کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے۔
نوجوان کانگریسی جہد کار حسیبہ امین ہی کی مثال لے لیجئے جنہیں ایک اشتہار میں راہول کیلئے تحریک چلاتا ہوا دکھایا گیا ہے۔ سائبر دنیا میں فوراً ہی گوا کی این ایس یو آئی کی اس صدر کے خلاف مخالفین نے گالی گلوج سے لے کر منشیات پھیلانے کے جرم میں تعاون کر نے کے ساتھ ہرستم کا طوفان کھڑا کر دیا۔
حسیبہ کا جرم صرف یہ نہیں تھا کہ وہ راہول کو ہیرو سمجھی تھیں اور ان کی تائید میں تحریک چلارہی تھیں بلکہ ان کا جرم ان کی مسلم خاتون کی شناخت تھی۔ ایک عورت اور وہ بھی مسلمان جسے کسی کونے کھدرے میں رہنا چاہئے اور جو قومی دھارے میں کبھی شامل نہیں ہو سکتی؟ اس خاتون کی ایسی حرکت کو بھلا کیسے برداشت کیا جا سکتا تھا؟

کیا بس یہی ہمارا مسقبل ہے؟ ہندوستان کے تمام شہریوں کو اپنے آپ سے یہ سوال ضرور کرنا چاہئے۔

اردو ترجمہ : روزنامہ "اعتماد" ، حیدرآباد۔
ترجمہ نظرثانی : ٹی۔این۔بی
***
aijazzakasyed[@]gmail.com
مدیر اعلیٰ "کاروان ڈیلی" آن لائن
اعجاز ذکا سید

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں