کتھا چار جنموں کی - ستیہ پال آنند کی خودنوشت - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-02-13

کتھا چار جنموں کی - ستیہ پال آنند کی خودنوشت

Katha Char Janmo Ki Memoirs Satyapal Anand
کتھا چار جنموں کی
ڈاکٹر ستیہ پال آنند کی خودنوشت
مصنف : ستیہ پال آنند
مبصر : راشد اشرف (کراچی)

چند روز قبل امریکہ میں قیام پذیر ادیب و شاعر ڈاکٹر ستیہ پال آنند کی خودنوشت " کتھا چار جنموں کی" کے عنوان سے شائع ہوئی ہے۔ یہ خودنوشت گزشتہ اتوار بروز 14 جولائی،2013 کی صبح پرانی کتابوں کے اتوار بازار میں سید معراج جامی صاحب نے عنایت کی جہاں ہم پرانی سالخودہ کتابوں کو ہر اتوارکی صبح سونگتے پھرتے ہیں مبادا ان میں کوئی خوشگوار حیرت ہماری منتظر ہو۔مذکورہ خودنوشت کی اشاعت کو تین روز ہی گزرے ہیں۔ یوں سمجھئے کہ ا س مرتبہ اتوار بازار کے باب میں یہی کتاب غالب رہی ہے۔
راقم کی اس اتوار کے روز تما م دن طبیعت ناساز رہی، وہ ہلکے ہلکے بخار میں جلتا رہا اور" کتھا چار جنموں کی" پڑھتا رہا۔ دوران مطالعہ چند مقامات ایسے آئے کہ بخار میں افاقہ ہوا اور کہیں کچھ ایسا پڑھنے کو ملا کہ حرارت نے شدت اختیار کرلی مثلاً اس نک چڑھی عورت کا تذکرہ جو مصنف کو ایک روز اپنے فلیٹ میں لے گئی تھی اور پھر کچھ ایسے رنگین واقعات (صرف قاری کے لیے)پیش آئے کہ مصنف وہاں سے راہ فرار اختیار کرنے پر مجبور ہوگئے یا پھر اس لمحے کا بیان جب مصنف نے محترم بشیر بدر کو ایک تقریب کے دوران اپنی تعریف میں رطب اللسان دیکھ کر انہیں بے اختیار پشتو میں ' 'نوازا " اور لپک کر ان کا گریبان پکڑ لیا۔ مصنف نے اس موقع پر جو کچھ بشیر بدر سے کہا اسے پڑھ کر تو صحت مند قاری کا بھی بخار میں مبتلا ہونا یقینی ہے بشرطیکہ وہ محترم بشیر بدر سے عقیدت رکھتا ہو جبکہ قرائن بتاتے ہیں کہ موصوف اس معاملے میں کچھ ایسے خوش قسمت نہیں ہیں۔ یہ روح فرسا واقعہ ڈیٹرائٹ ، امریکہ میں صوفیہ انجم تاج کے گھر پیش آیا تھا۔ واضح رہے کہ یہ واقعہ محض بشیر بدر کے عقیدت مندوں ہی کے لیے روح فرسا ہوگا، خود بشیر صاحب پر اس کا کوئی خاص اثر نہیں دیکھا گیا۔ مصنف بشیر بدر کے بارے میں لکھتے ہیں:
" موصوف کیسے شاعر ہیں، اس کا ذکر تو میں نہیں کروں گا کیوں صنف غزل سے متعلق میرے منفی رویے سے ان کے بارے میں میری رائے متاثرہوسکتی ہے لیکن ان کی اس عادت کا ذکر کرنے میں مجھے کوئی عار نہیں ہے جس کی وجہ سے ہما شما کے سامنے وہ خود اپنی تعریف کرکے اس کا اشتہار دینا موزوں سمجھتے ہیں۔"
بشیر بدر ،صوفیہ انجم تاج کی قیام گاہ پران کے آرٹ اسٹوڈیو میں آویزاں پینٹنگز کو دیکھ کر ا ن پرا پنا تبصرہ کررہے تھے۔ان کے ہمراہ پاپولر میرٹھی اور ڈاکٹر عبداللہ بھی موجود تھے جن کو مصنف نے ہما شما سے تعبیر کیا ہے۔ بشیر بدر کا تبصرہ مصنف نے نقل کیا ہے، آئیے دیکھتے ہیں کہ ہمارا شاعر جو ایک زمانے میں ہندوستان کے محکمہ پولیس کا ملازم تھا ، آخر ایسی کیا خطا کربیٹھا :
" یہ پیٹنگ دیکھ رہے ہیں آپ ؟ اس میں ایک عورت پھول کی پتیوں کے ساتھ اپنے چہرے کو مس کرکے یہ محسوس کرنے کا جتن کررہی ہے کہ اس کا چہرہ زیادہ نازک ہے یا پھول۔ یعنی میر کا شعر، نازکی اس کے لب کی کیا کہیے، پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے۔ لیکن میر بیچارے بھی کیا کہیں گے ؟ اس مضمون سے مزین میرا شعر یہ ہے[بشر بدر اپنے کئی اشعار سناتے ہیں] ۔ یہ تصویر جو آپ دیکھ رہے ہیں، انتظار کی شدت میں بے قرار ایک عورت کی ہے۔ انتظار تو بری بلا ہے۔ غالب نے کہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن غالب بھی کیا کہیں گے۔میرے یہ دو اشعار دیکھیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
اس موقع پر ستیہ پال آنند کے بقول ان کے اند ر کا نسلی پٹھان جاگ اٹھا اور انہوں نے لپک کر بشیر بدرکا گریبان پکڑ لیا۔ پشتو میں ایک گالی دی اور رواں ہوگئے۔ "تجھے اتنی سمجھ تو ہے نہیں کہ کون سی پینٹنگ آئل کلر ہے یا واٹر کلر، یا پیسٹل ہے۔۔۔۔اور توُ لگا ہے اپنے شعر سنانے۔اب اپنی بکواس بند کر ۔۔۔بدتمیز۔"
ستیہ پال آنند مزید لکھتے ہیں:
" بکواس تو بند ہوگئی لیکن اس کے گریبان پر میرے ہاتھ کی گرفت ڈھیلی نہ ہوئی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ کسی نے اسے مجھ سے چھڑانے کی کوشش بھی نہیں کی۔ سبھی چپکے دیکھتے رہے جیسے اس سین کو مزے سے دیکھ رہے ہوں۔ آخر ایک دو منٹوں کے بعد میں نے خود ہی اسے چھوڑ دیا ۔میرے منہ میں نفرت کا کڑوا لعاب بھرا ہوا تھا اور مجھے تھوکنے کے لیے فوراً باتھ روم میں جانا پڑا۔"
یہ تو اچھا ہوا کہ بشیر بدر اس واقعے کے رونما ہونے تک پولیس کی ملازمت چھوڑ چکے تھے اور یہ واقعہ امریکہ میں پیش آیا تھا ۔ کہیں ایسا ہندوستان میں ہوتا تو مصنف کے لیے گھمبیر مسائل کا باعث بھی بن سکتا تھا۔ امریکہ میں ہتک عزت کا دعوی کرنا فیشن میں شمار ہوتا ہے۔ لوگ بات بات پر ایسے دعوی کردیتے ہیں۔ یقیناًًبشیر بدر چاہتے تو ایسا کرسکتے تھے۔ دعوی نہ کرنے سے اس بات کا احتمال ہوتاہے کہ مصنف کے الزامات صد فیصد درست تھے۔ وللہ وعلم بالصواب ۔
عجیب اتفاق ہے کہ پاک و ہند سے تعلق رکھنے والے دیگر ادباء و شعراء بھی محترم بشیر بدر کے بارے میں بدگمانی کا شکار ہی نظر آئے ہیں۔ ملک زادہ منظور احمد نے اپنی ضخیم خودنوشت \"رقص شرر\" میں جو کچھ لکھا ہے،غلام مرتضی راہی اور فیاض رفعت نے اپنی خودنوشتوں "راہی کی سرگزشت" اور "زندگی ہے تو کہانی بھی ہوگی" میں جو کچھ ہمارے ممدوح کے بارے میں فرمایا ہے، مشفق خواجہ نے اپنے پرلطف کالموں میں جو کچھ بیان کیا ہے، وہ تمام کا تمام یہاں خوف طوالت و علالت، درج نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ہاں البتہ مشفق خواجہ کا تحریر کردہ ایک واقعہ بیان کرنے میں کوئی حرج بھی نہیں ہے۔لکھتے ہیں:
"بشیر بدر کی عظمت و مقبولیت کا ایک واقعہ بیگم بشیر بدر نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے: 'دور سے آواز آئی، بدر صاحب رکیے اور ان سے ملیے، یہ آپ کی شاعری کی بارہ سال سے عاشق ہیں۔ یہ چندی گڑھ میں پہلی مرتبہ آپ کی گرفتار ہوئیں۔ آپ نے شادی میں ذرا جلدی کی۔وہ تیکھے تیور، کتابی شکل والی ایک خوبصورت سکھ لڑکی تھی ۔ بشیر بدر نے میرا تعارف کرایا، محبت سے گلے ملیں۔مجھے فیض کی نظم رقیب یاد آئی'۔۔۔ مشفق خواجہ مزید لکھتے ہیں " ہم نے تو یہی سنا تھا کہ بشیر بدر نے شاعری میں جلدی کی تھی، اب معلوم ہوا کہ شادی میں بھی جلد بازی سے کام لیا ہے۔ہم نے سکھوں کے بے شمار لطیفے سنے ہیں، لیکن وہ سب مردوں سے متعلق ہیں۔ کسی سکھ عورت سے متعلق لطیفہ پہلی بار سننے میں آیا ہے"۔
ایک ایسا واقعہ بھی پیش خدمت ہے جو تادم تحریر 'غیر مطبوعہ' ہی رہا تھا۔اس کے چشم دید گواہ ہیں پاکستا ن کے معروف محقق عقیل عباس جعفری ۔ انہی کی زبانی سنیے:
" یہ سن 2003 کی بات ہے جب میں عالمی مشاعروں کے ایک سلسلے میں امریکا گیا ہوا تھا۔ ہیوسٹن میں میرا قیام برادرم پرویز جعفری اور عشرت آفریں کے راحت خانے میں تھا۔ بشیر بدر بھی انھی کے گھر ٹھہرے ہوئے تھے۔ پرویز میرے کزن ہیں جبکہ بشیر بدر ان کے استاد ہیں اس لیے ہم دونوں سے ان کے تعلق اور بے تکلفی کی صورت بھی ویسی ہی تھی۔مشاعرے کی صبح میں اور بشیر بدر پرویز جعفری کی اسٹڈی میں چلے گئے اور کتابیں دیکھنے لگے۔ پرویز جعفری کی کتابوں میں بشیر بدر کو اچانک اپنا ایک مجموعہ نظر آیا جسے انھوں نے ایک نعرہ مستانہ کے ساتھ اٹھالیا اور پرویز سے بولے 'ارے بھئی یہ کتاب تو اب میرے پاس بھی نہیں ہے۔ میں کب سے اس کی تلاش میں تھا۔ اب میں تمھیں یہ کتاب واپس نہیں کروں گا'۔ پرویز بہت زور سے ہنسے اور بولے استاد یہ استادی ہم سے نہیں چلے گی۔ یہ کتاب جہاں سے اٹھائی ہے فوراً وہاں واپس رکھ دیجیے۔ بشیر بدر تھوڑے سے شرمندہ ہوئے اور انہوں نے گھبراکر وہ کتاب اپنی جگہ واپس رکھ دی۔۔۔۔۔بعد میں، میں نے پرویز جعفری سے پوچھا کہ کیا ہوا۔ انھیں کتاب دے دیتے تو کیا ہرج تھا ، خوش ہوجاتے، کہنے لگے تم نہیں جانتے، یہ موصوف بہت بڑے ڈرامے ہیں، رات کو مشاعرے میں اس کتاب کو سو دو سو ڈالر میں نیلام کردیتے۔ اور میں اس کتاب سے محروم ہوجاتا۔۔۔یہ پہلے بھی امریکا میں اپنے کئی میزبانوں کے ساتھ اسی نوعیت کی واردات کرچکے ہیں ۔"
ذکر ہے "کتھا چار جنموں کی " کا جسے مصنف نے چار حصوں یعنی چار جنموں میں تقسیم کیا ہے۔ ان کی یہ کہانی 1936 میں بچپن کی یادوں سے شروع ہوتی ہے۔خودنوشت کے پہلے ہی صفحے پر مصنف نے 1936 لکھ کر اپنی عمر پانچ برس بیان کی ہے۔ تاریخ پیدائش کہیں درج نہیں ہے۔ مصنف کی تاریخ پیدائش راقم کو وکی پیڈیا انسائیکلو پیڈیا سے ملی ۔۔۔۔۔ 24 اپریل 1931 ۔۔۔۔۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ مصنف اسے خود درج کردیتے۔انسان عموماً اپنی خودنوشت عمر کے جس حصے میں لکھتا ہے، اس میں تاریخ پیدائش بیان کرنے میں کیسی جھجھک ؟۔
کوٹ سارنگ میں مصنف نے بے فکری کے دن گزارے۔ ہندو مسلم بھائی چارے کا سبق تو گھر ہی سے مل گیا تھا۔ ان کے والد نے ایک مسلمان خاتون بخت بی کو اپنی منہ بولی بہن بنایا ہوا تھا۔ ایک روز وہ اپنی والدہ سے پوچھ بیٹھے تھے کہ 'ماں، یہ قرآن کیا ہے' ؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ماں کی جانب سے تسلی بخش جواب ملنے پر انہیں خیال آیا کہ "قرآن جس میں اتنی اچھی باتیں لکھی ہیں، دیکھنا، پڑھنا بے حد ضروری ہے۔ اور وہ تو اردو بخوبی پڑھ لیتے ہیں۔ قرآن پڑھنا کون سا مشکل ہے " ؟
شاید اسی سوچ، اسی تعلیم نے آگے چل کر ستیہ پال آنند سے مدح رسول میں نعتیں کہلوائیں۔

خودنوشت کا پہلا حصہ"کتھا پہلے جنم کی" ہے۔اس میں مصنف نے منشی تلوک چند محرو م سے اپنی نیاز مندی کا دلچسپ احوال لکھا ہے۔ ایک لحاظ سے منشی جی مصنف کے 'گاڈ فادر' تھے جن کی ایک نصیحت کا انہوں نے ایسا اثر لیا کہ غزل کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خیر باد کہہ کر تمام عمر نظم ہی میں طبع آزمائی کرتے رہے۔ منشی جی نے مصنف کو زبان و بیان کی نزاکتوں سے آگاہ کیا، ان کی حوصلہ افزائی کی ۔ایک موقع پر منشی جی نے مصنف کی زبانی ایک نظم سننے کے بعد انہیں غزل سے یہ کہہ کر متنفر کیا کہ:
" میں نے تمہاری غزلیں بھی تم سے سنی ہیں اور آج یہ نظم بھی۔ تم غزل شزل مت لکھا کرو، اس صنف کو تلانجی دے دو۔۔۔۔۔۔میں نے جگن [پسر منشی تلوک چند محروم ]کو بھی یہی رائے دی ہے لیکن وہ اب بھی کبھی کبھار غزل لکھ لیتا ہے۔"
دوسرے لفظوں میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ منشی تلوک چند نے مصنف کو غزل سے تمام عمر کے لیے 'محروم' کردیا۔
منشی تلوک چند محرو م سے مصنف کی تقسیم کے بہت برسوں بعد کیمپ کالج دہلی میں سے صرف ایک مرتبہ ملاقات ہوئی۔پہلی نظر میں منشی جی نے مصنف کو نہیں پہچانا اور وہ مایوس ہو کر لوٹ رہے تھے کہ منشی جی نے آواز دے کر انہیں واپس بلا لیا۔ مصنف لکھتے ہیں :
"مجھے یہ بھی علم نہیں کہ کہ وہ کب ملازمت سے سبکدوش ہوئے اور کب ان کا انتقال ہوا"۔
واضح رہے کہ منشی تلوک چند محروم اسی کیمپ کالج دہلی سے ،جہاں مصنف کی آخری ملاقات ان سے ہوئی تھی، دسمبر 1957 میں سبکدوش ہوئے تھے۔ یکم جولائی 1887 کو عیسی خیل میں پیدا ہونے والے منشی تلوک چند محروم کا دیہانت 6 جنوری 1966 کو دہلی میں ہوا تھا۔
ستیہ پال آنند نے ہجرت کا کرب سہا تو ایسا کہ اپنے والد کو ہی گنوا بیٹھے۔ "کتھا دوسرے جنم کی" میں لکھتے ہیں "بابو جی کا راستے میں انتقال ہوگیا تھا۔ یہ ایک بہت تلخ یاد ہے۔ اسی لیے نہیں لکھوں گا کہ کیسے ہوا۔" ۔
خودنوشت میں اس کے مصنف کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ ماضی سے وابستہ تلخ و شیریں یادوں کو اپنے قاری کے لیے محفوظ کردیا جائے۔ آزادی کے چراغ میں مشکور حسین یاد جو کچھ تقسیم کی بھیانک یادوں کے بارے میں لکھ گئے ہیں ، وہ اس کی ایک واضح مثال ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ مصنف بھی اس واقعے کو اپنے قاری کے لیے خودنوشت میں محفوظ کردیتے۔
ستیہ پال آنند اپنی بیوہ ماں اور چھوٹے بہن بھائیوں کو لے کر کوٹ سارنگ، راولپنڈی سے ہوتے ہوئے منزلیں طے کرتے لدھیانہ پہنچے۔ یہ ان کے لڑکپن کا زمانہ تھا۔ سترہ برس کی عمر تھی۔ملک ٹوٹ چکے تھے اور ساتھ ہی ساتھ دل بھی۔ لدھیانہ کے ریفیوجی کیمپ میں گھر والوں کو چھوڑ کر نکلے تو چوڑا بازار کے ایک سردار جی سے ملاقات ہوگئی۔ سردار ان کی باتوں سے متاثر ہوگئے۔ ایسے مہربان ہوئے کہ ان کی قابلیت کو بھانپتے ہوئے اپنے اخبار ہفتہ وار صداقت میں نوکری دے دی۔ زندگی کی گاڑی چل پڑی۔ اگلے پانچ برسوں میں ستیہ پال آنندنے اخبار کے علاوہ لاہور بک شاپ پر کام کیا۔تراجم کیے۔جاسوسی ناول لکھے ۔ہندی میں کہانیاں لکھیں۔بچوں کے لیے بارہ ناول لکھے۔فلمی رسالوں کے لیے فرضی ناموں سے لکھا۔افسانے اور فحش کالم بھی لکھے۔
1948 کا ذکر ہے۔ وہ صداقت ہی میں کام کرتے تھے کہ ایک روز ریلوے اسٹیشن پر معروف افسانہ نگار رام لال سے ان کی مڈ بھیڑ ہوگئی۔وہ دیگر تین لوگوں کے ہمراہ گفتگو میں مصروف تھے۔ ستیہ پال آنند نے رام لال کو پہچان لیا۔ آگے بڑھے اور اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا " آپ تو رام لال ہیں ، میں جانتا ہوں لیکن میں چاہوں گا کہ آپ تینوں کا بھی تعارف ہوجائے"۔ ستیہ پال لکھتے ہیں کہ " رام لال نے ریش خند کے سے شعار کی سی ہنسی کے ساتھ کہا "صاحبزادے ! آپ تو ابھی اسکول میں پڑھتے ہوں گے۔ یہ شاعری کا روگ کیسے لگ گیا۔" ۔۔۔۔اور ہمارے ممدوح نے ترکی بہ ترکی جواب دیا " رام لال صاحب! اچھا جملہ آپ نے کسا ہے مجھ پر ۔آپ نے افسانہ نگاری کب شروع کی تھی ؟ اس عمر میں جس میں آپ بنفس نفیس کھڑے ہیں؟"۔ اس جواب پر رام لال کے تینوں دوست بے ساختہ ہنس پڑے۔ یہ تینوں تھے ہیرا نند سوز، ہرچرن چاولہ اور جگدیش چندر کوکب۔
"کتھا دوسرے جنم کی" درحقیقت خودنوشت کا سب سے دلچسپ حصہ ہے۔ کل تیرہ برسوں کی اس کتھا میں مصنف کی عملی جدو جہد کے ساتھ ساتھ ہمیں اس میں ان کی ادبی زندگی کی واضح تصویر نظر آتی ہے۔ اس زمانے کے مشاہیر ادب زندہ ہوکر آنکھوں کے سامنے آجاتے ہیں۔شوکت صدیقی، راجندرسنگھ بیدی،کرشن چندر،سریندر پرکاش،دیوندر ستھیارتھی،اوپندر ناتھ اشک، رام لال، ہیرا نند سوز، ہرچرن چاولہ ،کرشن ادیب، پریم وار برٹنی، جوہر ادیب،رویندر کالیہ، مخمور جالندھری، ساحر لدھیانوی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ! مصنف نے ایک علاحدہ باب داغ کے شاگرد جوش ملیسانی پر بھی باندھا ہے۔ مصنف اپنے دوست پریم وار برٹنی کے ہمراہ جوش کے پاس شاعری پر اصلاح لینے جایا کرتے تھے ۔ کرشن چندر کے بارے میں لکھتے ہیں:
" اور پھر جب دوسری عورت آگئی تو افواہیں اڑیں کہ کرشن نے اسلام قبول کرنے کے بعد رشید احمد صدیقی کی بیٹی سے شادی کی ہے۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اس کے بعد ان سے خطوں کے جواب ملنے بند ہوگئے۔ مجھے بھی جب تین چار خطوط کا جواب نہ ملا تو میں نے انہیں خط لکھنا بند کردیا۔ یہ پتہ چلا کہ ان کے خطوط سنسر کیے جاتے ہیں اور محترمہ جن لوگوں کو پسند نہیں کرتیں یا کرشن کے ادبی رتبے سے کمتر سمجھتی ہیں، ان کے خطوط ضائع کردیے جاتے ہیں۔"
ایک جگہ مصنف شوکت صدیقی مرحوم کے بیان میں لکھتے ہیں " مجھے تو علم نہیں کہ جانگلوس اور پی ٹی وی کے مابین کیا جھگڑا ہوا لیکن اسے شروع کرکے چند اقساط کے بعد بالائے طاق رکھ دیا گیا۔"
جانگلوس کہ اردو ادب کا ایک سفاک ناو ل ہے، اپنے اندر کئی ایسی تلخ سچائیاں سموئے ہوئے ہے جن کو بے نقاب کرنے سے طبقہ اشرافیہ کے براہ راست اس کی زد میں آنے کا احتمال پیدا ہوتا ہے۔ جانگلوس کے بند ہونے کی وجہ بھی یہی تھی۔ شوکت صدیقی نے جو کچھ لکھا ، گویا ایک تیزابی قلم سے لکھا۔ قارئین کے ذہنوں پر نقش ہو کر رہ گیا۔ بھلا پی ٹی وی پر "پولی نیسین قبائل "کے مشاغل کی طرز پرمنائی جانے والی سسپنس نائٹ کے معاملات کیونکر دکھائے جاسکتے تھے ؟۔۔ہاری رپورٹ کی تفصیلات کیسے پیش کی جاسکتی تھیں۔ریل گاڑی میں سفر کرنے والے کردار مرزا اسرار بیگ کا احوال کیسے اسکرین پر پیش کیا جاسکتا تھا جو غیر منقسم ہندوستان میں ایک معمولی عرضی نویس تھا اور مرزا سنگھاڑیا کہلاتا تھا اور جو قیام پاکستان کے بعد متروکہ اراضی کی الاٹمنٹ کے ہیر پھیر میں زمین سے آسمان پر پہنچ گیا تھا۔ اسی مرزا اسرار کا پردہ فاش کرنے والے کردار صغیر احمد کے مکالموں کو پیش کرنا آسان نہیں تھا ۔ جانگلوس کی جتنی اقساط "اس دور" میں دکھا دی گئی تھیں، وہ بھی ایک بڑی بات تھی، بڑا واقعہ تھا۔ 1989 میں کہنے کو پاکستان میں نووارد جمہوریت تھی لیکن جانگلوس کو اس کی مکمل شکل میں من و عن پیش کرنا شاید اس جمہوریت ہی کو خطرے میں ڈال دیتا۔
"کتھا تیسرے جنم کی" میں مصنف نے اس دور کی یاداشتیں قلم بند کی ہیں جب وہ درس و تدریس کے پیشے سے وابستہ تھے۔ساتھ ہی ساتھ ادبی محفلوں میں شرکت جاری تھی۔سارتر ان کے پسندیدہ تخلیق کار تھے جسے انہوں نے گھول کر پی لیا تھا۔ کالج میں رفقاء ان کو مشورہ دیتے تھے کہ "اپنی قابلیت مت جھاڑا کرو"۔ اردو کی شاخ پر یورپی شاعری کا پیوند لگانے کا الزام اکثر مصنف پر لگتا رہا تھا لیکن انجمن ترقی اردو دہلی کی ایک نشست میں ڈاکٹر خلیق انجم نے مصنف کو ان کے اظہار خیال کے بعد آڑے ہاتھوں لیا ۔ بقول مصنف، خلیق انجم کے اس تبصرے سے زیادہ غیر ذمہ دارانہ تبصرہ انہوں نے پہلے کبھی نہ سنا تھا۔ خلیق انجم نے کہا تھا :
" ڈاکٹر آنند کا بس چلے تو یہ اردو شاعری کو ایک سی ڈی میں بند کرکے کمپیوٹر میں ڈال دیں، کچھ بٹن دبائیں اور جب کمپیوٹر سے یہ طلسمی سی ڈی واپس نکلے تو میر اور غالب کی شاعری کو مسخ کرنے کے بعد یہ یورپی شاعری بن چکی ہوگی۔"
خودنوشت کے اس حصے میں جن اہم شخصیات سے قاری کی ملاقات ہوتی ہے ان میں شامل ہیں قر ۃ العین حیدر(جو بقول مصنف کے ان کو بہت حسین اور sexy لگیں اور ان کی گستاخ نظروں نے مس حیدر کے متناسب جسم کو ایک مرد کی نگاہ سے دیکھا )، سروجنی نائیڈو، پدماجا نائیڈو، فراق گورکھپوری، بلراج کومل، دیوندر اسر،وزیر آغا،اختر الایمان ، باقر مہدی وغیرہ۔ اس دورمیں شاذ تمکنت، وحید اختر، مغنی تبسم، واجدہ تبسم جیسے لکھنے والے مصنف کے حلقہ احباب میں شامل تھے۔ مصنف نے اختر الایمان کے بارے میں ایک اہم واقعہ بیان کیا ہے۔نومبر 1967 میں بمبئی میں ہوئی ایک ملاقات میں مصنف نے اختر الایمان سے فیض احمد فیض کی شاعری پر ان کی رائے جاننا چاہی۔ اختر الایمان جھجھک رہے تھے اور مصنف جو ان سے اگلوانے کی کوشش میں غلطاں تھے، ایک مرحلے پر کہہ اٹھے کہ فیض نے اپنے غنائی نغمے انقلاب کو رومان کی آنکھ سے دیکھنے کے لیے ہی لکھے ہیں، لیکن ان سے عوام کی کیا خدمت ہوسکتی ہے "۔۔۔اس فقرے نے اختر الایمان کے ضبط کو پاش پاش کردیا، دل کی بات زبان پر آگئی، وہ کہہ گئے جو اس سے قبل کبھی نہ کہا تھا۔ وہ فیض احمد فیض کی مخالفت میں یہ کہتے ہوئے پھٹ پڑے:
" میں بزدل تو نہیں لیکن سب کے سامنے یہ بات کہنے سے پہلو تہی کرتا ہوں کہ فیض صاحب کو تاریخ نے ایک سنہری موقع عطا کیا تھا اور وہ ایک جست میں اردو شاعری کو پچاس برس آگے لے جاسکتے تھے۔ ان میں شاعرانہ خلاقیت کا تو کوئی اندازہ ہی نہیں ہے لیکن بجائے اس کے کہ وہ اس کو بروئے کار لاتے ، انہوں نے حسن و عشق کے کھڈرات میں بسی ہوئی ایک دنیا کی پرانی فصیلوں کے اندر ہی ایک دیوار کھڑی کرنی شروع کردی۔ ضرورت تھی کہ کلچر، سماجیت ، مارکسزم اور برصغیر کے حالات کو اس پیمانے سے ماپا جاتا جسے ہم عقلی استدراک کہتے ہیں۔لیکن انہوں نے جذبات کا دامن کبھی ترک نہیں کیا۔ اگر فیض اپنی انقلابی شاعری اسی دقیانوسی زبان کے پیش پا افتادہ استعاروں کی مدد سے ان محفلوں میں پڑھیں جن میں صرف کیمبرج اور آکسفورڈ سے پڑھ کر لوٹے ہوئے، گوری میموں کے خاوند ہوں یا ان کے جنے ہوئے شریک ہوں۔ کسی عوامی جلسے کا بھی ذکر کریں جس میں فیض نے اپنی نظمیں اس انداز سے پڑھی ہوں جیسے جلیانوالہ باغ کے خونی سانحے کے زمانے میں عوامی شاعر پڑھتے تھے؟ ۔۔۔فیض تو ہونٹوں کے پھولوں کی چاہت کے بغیر دار کی خشک ٹہنی پر وارا جانا بھی پسند نہیں کرتے"
یہ الگ المیہ ہے کہ دل کا غبار نکالنے کے بعد اختر الایمان نے مصنف کے سامنے اپنی ایک نظم سنائی اور اس کی شان نزول کے بارے میں ان الفاظ میں اعتراف و انکشاف کیا کہ" اسے لکھتے وقت میرے سامنے فیض ہی تھے۔لیکن اس میں فیض صاحب کا نام کہیں نہیں آیا اور نہ ہی میں چاہتا ہوں کہ آئے ۔"
16 جون 1994 کو مشفق خواجہ نے ایک کالم "ادب اور فضائی آلودگی " میں اس دور کے اردو کے بڑے شاعر ہونے کا دعوی کرنے والوں کا ذکر کیا تھا ۔کالم نگار نے دعوی کرنے وا لے شعراء کے انٹرویو ز سے مختلف اقتباسات پیش کیے تھے ۔ان میں منیر نیازی، ساقی فاروقی کے علاوہ سب سے بڑے شاعر ہونے کے دعوے دار اختر الایمان بھی تھے۔دہلی کے پرچے آج کل کے 'اختر الایمان نمبر' میں فیض سے متنفر اختر الایمان نے دوران انٹرویو ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ " میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت مجھ سے بہتر شاعری کوئی نہیں کرتا۔"ساتھ ہی اختر الایمان غالب کے بارے میں فرماتے ہیں کہ " اگر غزل کے بجائے وہ نظم لکھتا تو کہیں بڑا شاعر ہوتا۔" اقبال کے بارے میں بیان دیا کہ " ان کا انداز بیان اپنا ہے۔ بھاری بھرکم، مذہب سے جڑا ہے تو لوگ ان کی عزت کرتے ہیں ،شاعری ڈھونڈیں گے تو واجبی واجبی نکلے گی۔" ۔۔۔۔آئیے اسی انٹرویو سے ڈاکٹر محمد حسن کا اختر الایمان کی شاعری کے بارے میں بیان دیکھیے: " جتنا آپ کی شاعری کو پڑھتا ہوں ، یہ احساس بڑھتا جاتا ہے کہ آپ کی آواز ایسی منفرد ہے کہ عہد جدید میں نہ ایسا کوئی شاعر ہوا نہ ہوگا۔یہ تہ داری، یہ تنوع ، یہ فکری آہنگ اردو کے لیے نیا ہے۔" ۔
ذرا ملاحظہ ہو کہ مشفق خواجہ اس کے بعد کیا تبصرہ کرتے ہیں :
" ڈاکٹر محمد حسن کے اس نثری قصیدے کا اختتام اس عبارت پر ہوتا ہے ' عصری ادب کے لیے اپنی نئی فلم کا اشتہار تو کم از کم بھجوا ہی دیجیے۔ ٹائٹل کے ہم صرف پانچ سو روپے لیتے ہیں۔ '۔۔۔۔اتنی زیادہ تعریف کا معاوضہ صرف پانچ سو روپے۔نرخ بالا کن کہ ارزانی ہنود۔" ۔ (ادب اور فضائی آلودگی)
"کتھا چوتھے جنم کی" مصنف کے بیرون ممالک اور خصوصاً امریکہ میں قیام کے واقعات پر مبنی ہے۔ مذکورہ حصہ ہمیں احوال الرجال سے پرُ ملتا ہے، خصوصاً وہ تمام لوگ جو بیرون ممالک میں قیام پذیر ہیں اور جو مصنف کو کسی نہ کسی پہلو سے عزیز رہے ہیں۔ تیسرے جنم کے قصے میں فیض احمد فیض تھے تو یہاں ہمیں اردو شاعری کے ایک اور قد آور نام کے بارے میں پڑھنے کو ملتا ہے۔یہ ہیں ن م راشد جن کا کا ذکر کرتے ہوئے مصنف نے بیان کیا ہے کہ ان کی ملاقا ت نواب خاندان سے تعلق رکھنے والی ایک نک چڑھی انگریز خاتون سے ہوئی ۔ انہوں نے ن م ر اشد کو جدید اردو شاعری کا باوا آدم کہا تو وہ خاتون ناک بھوں چڑھا کر بولی :
" ہاں شیلا [ن م راشد کی اہلیہ] کو بھی اس بات کا احساس ہے لیکن اس کا کیا علاج کیا جائے کہ وہ کم بخت عمر میں شیلا سے بہت بڑا ہے۔ جانوروں کی طرح کھانا کھاتا ہے اور اس کے ملنے جلنے والوں میں کوئی بھی تو ایسا نہیں ہے جسے برٹش سوسائٹی میں بطور خاص پہچانا جاسکے۔ "
موت کے بعد ن م راشد کو نذر آتش کیے جانے کے واقعے کا ذکر کرتے ہوئے ایک جگہ مصنف لکھتے ہیں:
" دہلی میں کچھ لوگوں نے اس بارے میں مجھ سے استفسار بھی کیا لیکن میرے پاس تو کوئی مصدقہ اطلاع نہیں تھی۔ صرف سنی سنائی باتیں تھیں جن پر بھروسہ کرنا حماقت تھی۔"
اردو ادب دہلی کے اکتوبر تا دسمبر 2010 کے شمارے میں فرزند و دختر ن م راشد شہریار (مرحوم) اور یاسمین راشد حسن کے مضامین شائع کیے گئے تھے۔ یہ مضامین لاہور کے جریدے "بنیاد" سے لیے گئے تھے۔ یاسمین راشد حسن نے سختی سے اس بات کی تردید کی تھی کہ ان کے والد کو ان کی اپنی مرضی سے نذر آتش کیا گیا تھا۔ واقعہ یہ تھا کہ شیلا کے والد کے انتقال پر ان کی میت کو نذر آتش کیا گیا تھا اور ن م راشد جو اس تمام منظر کو بغور دیکھ رہے تھے، اپنی بیوی سے یہ کہہ بیٹھے تھے کہ what a nice, quiet way to go۔ یہ کہنا غضب ہوگیا ۔شیلا نے یاسمین راشد حسن کے فون پر اسے اس حرکت سے باز رہنے کا کہنے کے باوجود بھی وہی کیا جو اس نے پہلے ہی سے طے کررکھا تھا۔ واضح رہے کہ ساقی فاروقی نے اپنی خودنوشت "آپ بیتی پاپ بیتی" میں اس قصے کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ساقی کی بیان کردہ تفصیلات کی پرزور تردید شہریار نے اپنے مضمون کی آخری سطور میں یہ کہہ کر کی ہے کہ :
" راشد صاحب نے اپنی لاش کو جلانے کی جو وصیت کی تھی اس پر عمل درآمد کے فیصلے میں ساقی فاروقی صاحب پوری طرح شامل تھے ۔ہر مرحلے میں وہ ہمارے ساتھ تھے بلکہ وہ تو آگے بڑھ کر ہماری حوصلہ افزائی کررہے تھے۔ بعد میں جو انہوں نے اپنے آپ کو بری الذمہ ثابت کرنے کی کوشش کی تو شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ ہمارے اس اقدام کے خلاف کچھ رد عمل ہوا اور ساقی فارو قی صاحب نے سوچا کہ اس سے اپنا دامن بچا لینے ہی میں عافیت ہے۔ "
خودنوشت کے اس چوتھے حصے میں ہمیں مصنف کے اندازِ تحریر میں ایک بے فکری کی جھلک نظر آتی ہے۔ گرچہ قیام امریکہ کے دوران بھی کڑا وقت دیکھنا پڑا لیکن وہ ان تمام تکالیف کا حوصلہ مندی سے سامنا کرتے رہے۔چوتھے حصے میں ڈاکٹر وزیر آغا کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ان کو ادب کا نوبل پرائز ملنے کی قوی امید تھی۔شارٹ لسٹ میں ان کا نام تیسرے نمبر پر آچکا تھا کہ یکایک مصنف کو اکاڈمی کے دفتر کے ایک گہرے اندرونی گوشے سے خبر ملی کہ ڈاکٹر وزیر آغا کا نام تیسرے سے گر کر بیسویں نمبر پر آگیا ہے۔ مصنف اس کی وجہ اکاڈمی کو پاکستان سے لکھے گئے وہ سینکڑوں خطوط قرار دیتے ہیں جن کا لب لباب یہ تھا کہ وزیر آغاتیسرے درجے کے مصنف ہیں اور اردو میں ان کا کوئی اہم رتبہ نہیں ہے۔ ستیہ پال آنند نے اس موقع پر احمد ندیم قاسمی کا ذکر بھی تفصیلاً کیا ہے ۔ڈاکٹر وزیر آغا سے ملاقات کے فوری بعد وہ ندیم قاسمی کے پاس چلے جاتے ہیں اور قاسمی مرحو م کہتے ہیں کہ " میں تو وزیر آغا صاحب کے گھر بھی آجاتا، مجھے کوئی تردد نہیں ہے،لیکن یہی خوف آتا ہے کہ وہاں کہیں وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔موجود نہ ہوں۔"
دبستان لاہور اور دبستان سرگودھا کے معاملات کے بیان کے ساتھ ساتھ مصنف نے شمس الرحمان فاروقی اور گوپی چند نارنگ کا ذکر بھی کیا ہے۔ ایک جگہ گلہ کرتے ہیں کہ :
"فاروقی صاحب ہر لکھنے والے کو اس کے ادبی قد سے نہیں ماپتے ۔صرف یہ دیکھتے ہیں کہ ہ انڈیا کی ادبی سیاست میں ان کے ساتھ ہے یا نہیں اور اگر انہیں ڈاکٹر گوپی چند نارنگ سے اس شخص کے تعلقات کا شک ہوجائے تو پھر جو چور کی سزا وہ اس کی سزا۔ میرے ساتھ بھی کچھ برسوں تک یہی ہوتا رہا اور محترم فاروقی صاحب اور ان کے حواریوں نے مجھے لعن طعن کا نشانہ بنایا۔"
مصنف نے کراچی میں مشفق خواجہ سے ملاقات کا دلچسپ احوال بھی بیان کیا ہے۔ مشفق خواجہ سے ملنے کا انہیں بیحد اشتیاق تھا۔ سوال و جواب شروع ہوئے تو وقت گزرنے کا احساس ہی نہ ہوا۔ مصنف نے ایک سوال کیا ، سوال بھلا کیا تھا، گویا یہ پوچھنا چاہ رہے تھے کہ " آخر آپ ایسے کیوں ہیں ؟ " ۔۔۔جواب میں 'خامہ بگوش 'مسکرائے اور بولے :
" میں لکھنے والوں کے ایک خاص طبقے سے ان اصحاب کو چن لیتا ہوں جو بزعم خود تیس مار خان ہوتے ہیں لیکن اصل میں چھٹ بھئیوں کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ان میں میرے دوست بھی ہیں، جاننے والے بھی ہیں، وہ بھی ہیں جنہیں میں ذاتی طور پر بالکل نہیں جانتا لیکن اس کے باوجود ان کی نگارشات، فی البدیہات یا سنی سنائی باتیں مجھ تک پہنچتی رہتی ہیں اور ان سے یہ ان کی ایک شناخت سی میرے دل میں قائم ہوجاتی ہے۔ اصل میں آنند جی، یہ چھٹ بھئیوں کا دور ہے ۔بلند قامتی کے دن ختم ہوگئے۔"
ایک موقع پر مشفق خواجہ نے مصنف کے 'گلوبل شاعری ' کے تصور کے بارے میں ان الفاظ میں انکشاف کیا " وہ جو خامہ بگوش ہے نا مجھ میں، اسے ایک بار خیال آیا تھا کہ ایک کالم میں آپ کی گلوبل شاعری کے خواب کو ملیا میٹ کر کے رکھ دے۔"
ڈاکٹر ستیہ پال آنند نے اپنی اس خودنوشت " کتھا چار جنموں کی" کے آخر میں ایک لطیفہ درج کیا ہے۔ سکھوں کی ایک سمادھ پر ایک سینئر چیلے نے گرو سے کہا "گرو مہاراج، چیلوں کی تعداد بہت بڑھ گئی ہے"۔۔۔گرو نے جواب دیا "چنتا نہ کرو۔بھوکے مر یں گے تو خود ہی چلے جائیں گے، تم کڑاہ پرشاد کی مقدار کم کردو۔"
راشد اشرف ، ڈاکٹر فاطمہ حسن ، ستیہ پال آنند ، معراج جامی اور صدف مرزا
کتاب سے خوفناک حد تک دوری کے اس دور پر آشوب میں ، راقم " کتھا چار جنموں کی" کے ناشر سید معراج جامی سے کہتا ہے کہ کتاب سے متنفر لوگوں کی تعداد بہت بڑھ گئی ہے ۔۔۔ سو آپ " کتھا چار جنموں کی" جیسی کتابوں کی اشاعت کی مقدار بڑھا دیجیے۔ ۔۔۔۔ ان کی خوشبو پھیلے گی تو 'بھوکے' خود ہی اس جانب چلے آئیں گے۔
خودنوشت کی اشاعتی تفصیل یہ ہے۔

ناشر: بزم تخلیق ادب، کراچی۔
کل 552 صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت 600 روپے مقرر کی گئی ہے۔
حصول کے لیے اس ای میل پر رابطہ کیا جاسکتا ہے:
maerajjami@gmail.com
فون نمبر: 00923218291908

***
Rashid Ashraf
ای-میل : zest70pk[@]gmail.com
ویب سائٹ : وادئ اردو
راشد اشرف

A Review on "Katha Char Janmo Ki (Memoirs)" by Dr. Satyapal Anand. Reviewer: Rashid Ashraf

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں