Inauguration of late Aijaz Siddiqui poetry book
"اگر اردو زبان کو فروغ دینا ہے تو ہمیں اپنی اولادوں کو اردو پڑھانا ہوگا ۔ اگر ہم اپنے بچوں کو اردو نہیں پڑھائیں گے تو اہماری آنے والی نسلیں اردو سے مکمل طور پر غافل ہوجائیں گی۔ "ان خیالات کا اظہار معروف فلم اور ڈراما نگار جاوید صدیقی نے اردو کے نامور شاعر اور صحافی مرحوم اعجاز صدیقی کے مجموعہ 'کلام درون سخن' کی رسم اجراء پر اپنے صدراتی خطبے میں کیا ۔ انھوں نے سیما ب اکبر آبادی کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ "اگر سیما ب اکبر آبادی اپنی اولاد کو اردو نہیں پڑھاتے تو آج شاعر جیسا رسالہ نہیں نکل پاتا "۔ رسالہ شاعر کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ "یہ رسالہ گزشتہ 84/سال سے نکل رہا ہے اور اب تک اس کے ایک ہزار سے زائد شمارے منظر عام پر آچکے ہیں یہ ببڑی خوشی کی بات ہے ۔ یہ صرف رسالہ نہیں بلکہ ایک انسٹی ٹیوٹ ہے "۔ مرحوم اعجاز صدیقی کے مجموعہ کلام کی رونمائی کی تقریب سنیچر کو انجمن اسلام کی کریمی لائبر یری میں منعقد کی گئی اس موقع پر علی ایم شمسی نے کہا کہ "میرا اعجاز صدیقی سے قریبی تعلق رہا لیکن میں یہ جانتا ہوں کہ اردو اکیڈمی کے قیام کے لئے انھوں نے کافی جدوجہد کی تھی ۔ یہ الگ بات ہے کہ اکیڈمی کے قیام کے بعد ان کی کوششوں کو یاد نہیں کیا گیا "۔ اعجاز صدیقی کے فرزند حامد اقبال صدیقی جو خود بھی شاعر ہیں نے مرحوم اعجاز صدیقی کی خدمات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ مرحوم نے ارادہ انجمن اسلام کے لئے نے پناہ خدمات انجام دی ہیں ۔ اردو کی بقا،ترقی وترویج کے لئے وہ انجمن کے ہر پروگرام میں شریک رہتے تھے ۔ اردو شاعری میں انہیں بہترین کمال حاصل تھا اور ان کی حیات میں ان کا مجموعہ 'کلام ' کرب خود کلامی ،شائع ہوا ۔ اعجاز صدیقی کی اردو کے تئیں بے لوث خدمات کے بارے میں حامد اقبال صدیقی نے کہا کہ مرحوم نے اردو اکیڈمی کے قیام کے لئے مسلسل جدوجہد کی اور 'شاعر ' میں اس تعلق سے اداریے بھی لکھے ۔ اس کے علاوہ مہاراشٹرا میں اردو کو دوسری سرکاری زبان بنانے کیلئے بھی انہوں نے صدرائے حتجاج بلند کیا تھا ۔ ان کے کچھ خواب تھے جو ابھی تک ادھورے ہیں جیسے جے جے اسپتال سے کرافورڈمارکیٹ تک کے علاقے کو 'اردو بازار' ہم ان کے ان تمام ادھورے خوابوں کو بہت جلد پورا کرینگے ۔ اس کے علاوہ ان کے اداریوں کے مجموعہ کو بھی بہت جلد شائع کیا جائے گا ۔ اس موقع پر یعقوب راہی نے کہا کہ اعجاز صدیقی نہ صرف ایک مشہور شاعر بلکہ صحافی بھی تھے ۔ ایک طرف جہاں انہوں نے مرصع ومسجع نظمیں لکھی ہیں وہیں ان کی نثر نگاری بھی کافی عمدہ تھی ۔ رسالہ شاعر کو 84/سال مکمل ہوگئے اور ان 84/برسوں میں رسالے کے کئی خصوصی نمبربھی نکالے گئے جو اردو والوں کے لئے فخر کی بات ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ اعجاز صدیقی کے دور میں ترقی پسند تحریک زوال پزیر تھی ،لیکن اس کے باوجود ان کی شاعری میں اس تحریک کے اثرات جگہ جگہ دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ ،مشہور سماجی خدمت گزار ریحانہ اندرے نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج 84/سالہ قدیم رسالے کا حق ادا کرنے کا دن ہے اور اس موقع پر ہمیں چاہئے کہ ہم مرحوم کی لکھی ہوئی کتابوں کوخریدکر اردو دوستی کا ثبوت دیں ۔ اس دوران مرحوم کے بھائی افتخار امام صدیقی اپنے خیالات کاظہار کرتے ہوئے انتہائی جذباتی ہوگئے اور دوران تقریر روپڑے ۔ اس کے علاوہ منور پیر بھائی ،اور یونس اگاسکر نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔ اس تقریب میں جاوید صدیقی ،علی ایم شمسی ،یونس اگاسکر ،یعقوب راہی ،افتخار امام صد ،حامد اقبال صدیقی زبیر رضوی ،قاسم امام آفتاب حسنین،عرفان جعفری ،داعظم اعظمی ،منور پیر بھائی ،رفیق جعفر اور ممتاز پیر دیگر اہم شخصیات موجود تھیں ۔نظامت کے فرائض عبدالاحد ساز نے انجام دیئے جبکہ فاروق سید نے حاضرین کا شکریہ ادا کیا ۔ پروگرام کو انعقاد ماہنامہ شاعر کی جانب سے ہواتھا ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں