میانمار - مسلمانوں کی نسل کشی اور عالم اسلام کی مجرمانہ خاموشی‎ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-01-30

میانمار - مسلمانوں کی نسل کشی اور عالم اسلام کی مجرمانہ خاموشی‎

myanmar-muslims-genocide
میانمار میں بودھی انتہاپسندوں کے ذریعہ منظم طورپرمسلمانوں کی نسل کشی کا سلسلہ گزشتہ تین برسوں سے جاری ہے۔امریکہ حقوق انسانی تنظیم کی تازہ رپورٹ کے مطابق صرف دوبرسوں میں وہاں ۲۵؍ہزارسے زیادہ مسلمان حکومت کی سرپرستی میں قتل کئے جاچکے ہیں ؛جبکہ ایک لاکھ سے زیادہ افرادہجرت کرنے پر مجبورہونا پڑا؛اور سیکڑوںخواتین کی عصمت لوٹ لی گئی،مسلمانوںکی عبادت گاہوںکوکثیرتعدادمیں نذرآتش کردیاگیاہے ۔بنکاک میں کام کرنے اولی انسانی حقوق کی تنظیم ،فورٹی فائی رائٹس کاکہناہے کہ اس کے ارکان نے عینی شاہدین سے گفتگوجس میں تصدیق کی گئی کہ سیکوریٹی فورسیز کی جانب سے گزشتہ ہفتے۴۰؍سے زیادہ افراد کوہلاک کردیاگیا جن میں کثیرتعدادمیںخواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔اقوامِ متحدہ کےفلاحی کاموں کی سربراہ ویلری ایمس نے برما کی حکومت سے استدعا کی ہے کہ وہ امدادی کارکنوں کو متاثرہ علاقے میں جانے کی اجازت دے تاکہ فوری طور پر اس واقعے کی تحقیق شروع کی جا سکے۔برما کی ریاست رخائن میں جون ۲۰۱۲ میں بودھوں اور مسلمانوں کے درمیان جھڑپوں میں سیکڑوں افراد ہلاک جب کہ ہزاروں بےگھر ہو گئے تھے۔برما میں رہنے والے روہنگیا مسلمان نہایت ناز ک دورسے گزررہے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق روہنگیا دنیا کی سب سے زیادہ ستائی جانے والی قوموں میں سے ایک ہے۔وہاں کےفسادات کا سب سے تشویشناک پہلویہ ہے کہ اسلام دشمن عناصرقتل عام کو بطورپرہتھیاراستعمال کررہے ہیں۔گزشتہ سال ایک ویڈیوعام ہواجس میں دیکھاگیاتھاکہ بوڈھست انتہا پسندنے ایک مدرسہ کوبربادکرنے کے بعدوہاں کےتقریباً دودرجن سے زیادہ حفاظ کے ہاتھ پاؤں باندھ کے آگ کے حوالہ کردیا۔اس دوران جب رسیوںمیں جکڑے ہوئے حفاظ تڑپ کر آگ سے باہر نکلنے کی کوشش کررہے ہیں توپھراسے آگ میں ڈھکیل دیاجارہا ہے۔یہ بھی دلخراش منظرآنکھوںمیں گھوم ہی رہاتھاکہ اسی دوران ایک اورتصویرمیڈیاکے حوالے سے عام ہوئی جس میں مسلمانوںکی لاشوںکوبرہنہ کرکے اجتماعی طورپربجلی کے کرنٹ کی مددسے جلایا جارہا ہے۔ روہنگیامسلمانوں پر بودھ انتہاپسندوں کے ظلم وتشددکی تصویرکشی کرنے والے متعددویڈیوجاری ہوئے ،جس کے بعدوقتی طورپر عالمی اداروں نے اس پر اپنی تشویش کا اظہارکرتے ہوئے اس کے خلاف آواز بلندکی ۔ترکی کے وزیراعظم رجب طیب اردگان نے اپنی اہلیہ کے ساتھ میانمارکا دورہ کرکے وہاں کے حالات کا جب مشاہدہ کیا تو وہ اپنے آنسوئوں کونہیں روک پائے ۔انہوں نے جس طرح سے وہاں کے حالات کی تصویرکشی کی ؛اس سے صاف ظاہرہوگیاتھاکہ وہاں کے مسلمانوں کیلئےمیانمارکی زمین تنگ کرنے کی کارروائی کوحکومت کی مکمل حمایت حاصل ہے۔میانمارحکومت کے خلاف برصغیراوریورپ کے کچھ حصوںمیں مظاہرہ ہونے کے بعدمسلم ممالک کی ایک بین الاقوامی تنظیم نے میانمارکے حالات پر غوروفکرکیلئے ایک میٹنگ طلب کی تھی لیکن اس میٹنگ میں کیاباتیں ہوئیں اورمیانمارمیں نسل کشی کے شکارروہنگیامسلمانوں کی جانوں کی حفاظت کیلئےکیالائحہ عمل تیارکیاگیا ،اسے آج تک ظاہرنہیں کیاگیا۔
مسلم ممالک کی جانب سے وہاں کے مظلومین کی دادرسی کی پہل کرنا تودوروہاں سے ہجرت کرنے والے افرادکواپنےیہاں پناہ تک دینے کو تیارنہیں ہیں۔ میانمارسےملیشیا، ،بنگلہ دیش ،ہندوستان ،تھائی لینڈ اورانڈونیشیاکوہجرت کرنے والے افرادکووہاں سخت قوانین کے مسائل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔۲۰۱۲ء میں کشتی پرسوارہو کربنگلہ دیش میں داخل ہونے کی کوشش کرنے والے ایک ایسے قافلہ کو نہ بنگلہ دیش کی فورسیز نے نہ صرف روک دیا بلکہ انہیں دوبارہ موت کے منہ میں ڈھکیل دیا کیوںکہ ان کی کشتی سمندری لہروںکی نذرہوگئی جس میں ۵۰؍سے زیادہ افرادہلاک ہوگئے۔ پاکستان اوربنگلہ دیش نے پہلے وہاں کے مہاجروںکواپنے یہاں پناہ دینے سے ہاتھ کھڑا کردیاہے۔جب وہاں سے ہجرت کرنے والے مظلوموںکیلئے مسلم ممالک کی زمین بھی تنگ ہوجائے گی تو پھرآخرکہاں پناہ لیںگے ۔یہی وہ نازک موڑہوتاہے جب انسان دووقت کی روٹی اورسرچھپانے کیلئے سایہ کی تلاش میں اپنے ایمان کا سوداکرنے پر مجبورہوجاتاہے۔
میانمارکی صورت حال پرحقوق انسانی کے عالمی اداروں نے ا س کے خلاف متعددبارآواز بلندکی لیکن جمہوریت کے عالمی ٹھیکیداراسے سنجیدگی سے لینے کوابھی بھی آمادہ نظرنہیں آرہے ہیں۔بنکاک میں کام کرنے والی حقوق انسانی کی تنظیم ’فورٹی فائی رائٹس ‘کے اس انکشاف کے بعدکہ میانمارمیں روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام میں وہاں کے انتہاپسندبودھوں کے علاوہ سیکورٹی فورسیز بھی براہ راست ملوث ہیں۔اقوام متحدہ نے میانمارحکومت سے مطالبہ کیاہے کہ وہ مسلمانوں کے قتل عالم کی فوری وغیرجانبدارانہ تفتیش کرائے ۔اقوام متحدہ ماضی میں بھی میانمارمیں جاری نسل کشی پر متعددباراپنی تشویش کا اظہارکرچکا ہے لیکن اس کامیانمارحکومت کچھ نوٹس لینے کی بجائے وہا ں کے صدرتھین سین نے یہ بیان دیاتھاکہ مسلمان میانمارکے شہری نہیں ہیں اس لئے ہم اس کے تحفظ کےپابندنہیں۔حقوق انسانی کے اداروں کو اس وقت بہت زیادہ حیرانی ہوئی تھی جب جمہوریت کی علمبردارہونے کا دعویٰ کرنے والی نوبل انعام یافتہ آنگ سان سوچی نے مسلمانان برما کی نسل کشی کی مذمت کرنے کے بجائے ایک یورپی ملک کے دورے کے دوران کہا تھا کہ’مسلمانوں کو برما سے چلے جانا چاہئے‘ اور یوں اس نے بودھ دہشت گردوں کے ہاتھوں مسلمانوں کے قتل عام کی حمایت کی تھی۔میانمارمیں ابھی مسلمانوں کے قتل عام کا سلسلہ جاری ہی تھاکہ جمہوریہ افریقہ میں بھی عیسائی شدت پسندوں نے وہا ں کے ۴۰؍ سے زیادہ مسلمانوں کوموت کے گھاٹ اتاردیا۔ فلسطین میں یہودیوں کے ہاتھوں آئے دن مسلمانوںکا خون ہوتا رہتا ہے۔
کیااسے محض اتفاق ہی کہاجائے گا کہ ایک طرف بہارعرب کے نام پرمسلم ممالک میں آپسی خون ریزی کا بازارگرم ہے تودوسری جانب غیرمسلم ممالک میں کم تعدادمیں رہنے والے مسلمانوں کیلئے عرصہ حیات تنگ کرنے کاسلسلہ بھی جاری ہے۔یہاں تک کہ انگولا نے تواسلام پر پابندی ہی عائدکردیا۔
دنیامیں امن کا ٹھیکیدارہونے کا دعویٰ کرنے والاامریکہ اوراس کے حلیف آخر عالمی سطح پر مسلمانوں کی جان ومال کی بربادی پرخاموش کیو ں ہے؟ کیا یہ سب کچھ اگر مسلمانوں کی بجائے عیسائیوں یادیگرقوموں کے ساتھ ہوتا توکیا اس وقت بھی اس کارویہ ایساہی ہوتا؟ اورکیا اقوام متحدہ اسی طرح قتل عام کے منہ بولتے ثبوتوں کے باوجودایک عرصہ گزر جانے کے بعدمحض تحقیقات کا مطالبہ کرتایاپھراپنی امن فوج کے ساتھ وہا ں عملی کارروائی کرتا؟اقوام متحدہ کے موجودہ رویے سے توایسا واضح ہورہا ہے کہ وہ اب محض امریکہ اوراس کے حلیفوں کے ناپاک عزائم کوعملی جامہ پہنانے کا کام کررہا ہے۔
بہرحال ہمیں غیرسےمسیحائی کا فریضہ ادانہ کرنے کا شکوہ کرنےسے زیادہ اپنوں کی مجرمانہ بے رخی پر رونا آرہا ہے۔ دنیاکے ۵۶؍ممالک میں مسلمانوں کی حکومت ہے اس کے باوجوداگرغیرمسلم ممالک میں مسلمانوں کی جانیں اورعزت وآبروسے کھیلواڑکیاجانا عام واقعہ تصورکیاجانے لگا تو اسے قیادت کی نااہلی کا عذاب ہی کہا جائےگا۔ آخر سربراہان مسلم ممالک کومیانماراورافریقہ میں مسلمانوں کی نسل کشی کے خلاف مضبوط آواز اٹھانے سے روک رکھاہے ۔میرےکہنے کا مقصدیہ قطعی نہیں ہے کہ اینٹ کا جواب پتھر سےدیاجائے لیکن عالمی سطح پراپنی حیثیت کا احساس کرانے کیلئے جمہوری طرز پرمضبوط پہل توکی ہی جاسکتی ہے ۔اگر مسلم ممالک کے سربراہان خدائی وعدہ اوروعیدسے یوں ہی مجرمانہ غفلت برت رہیں توان کاانجام بھی حسنی مبارک اورمعمرقذافی کا ہوگا۔ اپنے شاہی محلوں میں سخت سیکورٹی کے درمیان خودکومحفوظ تصورکرنا محض شترمرغ کی طرح حقیقت سےآنکھ چرانے کے مترادف ہے۔

***
sabirrahbar10[@]gmail.com
موبائل : 9470738111
صابر رہبر

Myanmar - the genocide of Muslims and the criminal silence of muslim world. Article: Sabir Rahbar

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں