مسلم ممالک کی جانب سے وہاں کے مظلومین کی دادرسی کی پہل کرنا تودوروہاں سے ہجرت کرنے والے افرادکواپنےیہاں پناہ تک دینے کو تیارنہیں ہیں۔ میانمارسےملیشیا، ،بنگلہ دیش ،ہندوستان ،تھائی لینڈ اورانڈونیشیاکوہجرت کرنے والے افرادکووہاں سخت قوانین کے مسائل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔۲۰۱۲ء میں کشتی پرسوارہو کربنگلہ دیش میں داخل ہونے کی کوشش کرنے والے ایک ایسے قافلہ کو نہ بنگلہ دیش کی فورسیز نے نہ صرف روک دیا بلکہ انہیں دوبارہ موت کے منہ میں ڈھکیل دیا کیوںکہ ان کی کشتی سمندری لہروںکی نذرہوگئی جس میں ۵۰؍سے زیادہ افرادہلاک ہوگئے۔ پاکستان اوربنگلہ دیش نے پہلے وہاں کے مہاجروںکواپنے یہاں پناہ دینے سے ہاتھ کھڑا کردیاہے۔جب وہاں سے ہجرت کرنے والے مظلوموںکیلئے مسلم ممالک کی زمین بھی تنگ ہوجائے گی تو پھرآخرکہاں پناہ لیںگے ۔یہی وہ نازک موڑہوتاہے جب انسان دووقت کی روٹی اورسرچھپانے کیلئے سایہ کی تلاش میں اپنے ایمان کا سوداکرنے پر مجبورہوجاتاہے۔
میانمارکی صورت حال پرحقوق انسانی کے عالمی اداروں نے ا س کے خلاف متعددبارآواز بلندکی لیکن جمہوریت کے عالمی ٹھیکیداراسے سنجیدگی سے لینے کوابھی بھی آمادہ نظرنہیں آرہے ہیں۔بنکاک میں کام کرنے والی حقوق انسانی کی تنظیم ’فورٹی فائی رائٹس ‘کے اس انکشاف کے بعدکہ میانمارمیں روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام میں وہاں کے انتہاپسندبودھوں کے علاوہ سیکورٹی فورسیز بھی براہ راست ملوث ہیں۔اقوام متحدہ نے میانمارحکومت سے مطالبہ کیاہے کہ وہ مسلمانوں کے قتل عالم کی فوری وغیرجانبدارانہ تفتیش کرائے ۔اقوام متحدہ ماضی میں بھی میانمارمیں جاری نسل کشی پر متعددباراپنی تشویش کا اظہارکرچکا ہے لیکن اس کامیانمارحکومت کچھ نوٹس لینے کی بجائے وہا ں کے صدرتھین سین نے یہ بیان دیاتھاکہ مسلمان میانمارکے شہری نہیں ہیں اس لئے ہم اس کے تحفظ کےپابندنہیں۔حقوق انسانی کے اداروں کو اس وقت بہت زیادہ حیرانی ہوئی تھی جب جمہوریت کی علمبردارہونے کا دعویٰ کرنے والی نوبل انعام یافتہ آنگ سان سوچی نے مسلمانان برما کی نسل کشی کی مذمت کرنے کے بجائے ایک یورپی ملک کے دورے کے دوران کہا تھا کہ’مسلمانوں کو برما سے چلے جانا چاہئے‘ اور یوں اس نے بودھ دہشت گردوں کے ہاتھوں مسلمانوں کے قتل عام کی حمایت کی تھی۔میانمارمیں ابھی مسلمانوں کے قتل عام کا سلسلہ جاری ہی تھاکہ جمہوریہ افریقہ میں بھی عیسائی شدت پسندوں نے وہا ں کے ۴۰؍ سے زیادہ مسلمانوں کوموت کے گھاٹ اتاردیا۔ فلسطین میں یہودیوں کے ہاتھوں آئے دن مسلمانوںکا خون ہوتا رہتا ہے۔
کیااسے محض اتفاق ہی کہاجائے گا کہ ایک طرف بہارعرب کے نام پرمسلم ممالک میں آپسی خون ریزی کا بازارگرم ہے تودوسری جانب غیرمسلم ممالک میں کم تعدادمیں رہنے والے مسلمانوں کیلئے عرصہ حیات تنگ کرنے کاسلسلہ بھی جاری ہے۔یہاں تک کہ انگولا نے تواسلام پر پابندی ہی عائدکردیا۔
دنیامیں امن کا ٹھیکیدارہونے کا دعویٰ کرنے والاامریکہ اوراس کے حلیف آخر عالمی سطح پر مسلمانوں کی جان ومال کی بربادی پرخاموش کیو ں ہے؟ کیا یہ سب کچھ اگر مسلمانوں کی بجائے عیسائیوں یادیگرقوموں کے ساتھ ہوتا توکیا اس وقت بھی اس کارویہ ایساہی ہوتا؟ اورکیا اقوام متحدہ اسی طرح قتل عام کے منہ بولتے ثبوتوں کے باوجودایک عرصہ گزر جانے کے بعدمحض تحقیقات کا مطالبہ کرتایاپھراپنی امن فوج کے ساتھ وہا ں عملی کارروائی کرتا؟اقوام متحدہ کے موجودہ رویے سے توایسا واضح ہورہا ہے کہ وہ اب محض امریکہ اوراس کے حلیفوں کے ناپاک عزائم کوعملی جامہ پہنانے کا کام کررہا ہے۔
بہرحال ہمیں غیرسےمسیحائی کا فریضہ ادانہ کرنے کا شکوہ کرنےسے زیادہ اپنوں کی مجرمانہ بے رخی پر رونا آرہا ہے۔ دنیاکے ۵۶؍ممالک میں مسلمانوں کی حکومت ہے اس کے باوجوداگرغیرمسلم ممالک میں مسلمانوں کی جانیں اورعزت وآبروسے کھیلواڑکیاجانا عام واقعہ تصورکیاجانے لگا تو اسے قیادت کی نااہلی کا عذاب ہی کہا جائےگا۔ آخر سربراہان مسلم ممالک کومیانماراورافریقہ میں مسلمانوں کی نسل کشی کے خلاف مضبوط آواز اٹھانے سے روک رکھاہے ۔میرےکہنے کا مقصدیہ قطعی نہیں ہے کہ اینٹ کا جواب پتھر سےدیاجائے لیکن عالمی سطح پراپنی حیثیت کا احساس کرانے کیلئے جمہوری طرز پرمضبوط پہل توکی ہی جاسکتی ہے ۔اگر مسلم ممالک کے سربراہان خدائی وعدہ اوروعیدسے یوں ہی مجرمانہ غفلت برت رہیں توان کاانجام بھی حسنی مبارک اورمعمرقذافی کا ہوگا۔ اپنے شاہی محلوں میں سخت سیکورٹی کے درمیان خودکومحفوظ تصورکرنا محض شترمرغ کی طرح حقیقت سےآنکھ چرانے کے مترادف ہے۔
***
sabirrahbar10[@]gmail.com
موبائل : 9470738111
sabirrahbar10[@]gmail.com
موبائل : 9470738111
صابر رہبر |
Myanmar - the genocide of Muslims and the criminal silence of muslim world. Article: Sabir Rahbar
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں