ہم نے لَہُور دیکھا ! - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-01-30

ہم نے لَہُور دیکھا !

اوپر : لاہور قلعہ ، نیچے : بادشاہی مسجد
"جس نے لاہور نہیں دیکھا ، وہ سمجھو پیدا ہی نہیں ہوا۔"
لاہور کے بارے میں یہ پنجابی کہاوَت نہ جانے کب سے زباں زد خاص وعام چلی آتی ہے۔ واقعی لاہور دیکھنے کی جگہ ہے۔ جہاں دیر تک ٹھہرنے اور شہر کی رونقوں سے لطف اندوز ہونے کو جی چاہتا ہے۔ لاہور کا یہ سفر جومحض تین دنوں پر محیط تھا، پوری بائیس سال بعد پیش آیا تھا۔ جس زمانے میں ہند۔پاک سرحد پر امن وامان کی حکمرانی تھی تو ہم جیسے نہ جانے کتنے لوگ سال میں ایک دوبار وہاں ہوآتے تھے لیکن جب سے حالات بگڑے ہیں تو سب کچھ بدل گیا ہے۔ ہمارے میزبان جناب عطا الحق قاسمی نے جب فون پر یہ کہا کہ آپ 'آن فٹ'یعنی پیدل لاہور آجائیں تو مجھے دفعتاً ابن بطوطہ کی یاد آئی اور دیر تک پیدل سفر کی صعوبتوں کے بارے میں سوچتا رہاکیونکہ پاکستان کے پیدل سفر کا یہ پہلا تجربہ تھا۔ میری مشکل جناب نارنگ ساقی نے یہ کہہ کر آسان کردی کہ "میں بھی جارہا ہوں۔ آپ کسی طرح امرتسر پہنچ جائیں ۔ لاہور وہیں سامنے تو ہے۔ "22نومبر کی صبح امرتسر سے جناب نارنگ ساقی اور سرینگر کی شاعرہ شبنم عشائی کے ساتھ واگہہ بارڈر کی طرف کوچ کیا اور غالباً آدھے گھنٹے بعد ہم لاہور کے د دروازے پر کھڑے تھے۔ وہ سرحد جس کی دونوں طرف ہندوستان اور پاکستان واقع ہیں اسے عبور کرنا اتنا آسان ہے، یہ کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ ہندوستانی خطے سے جب پاکستانی خطے پر نظرڈالی تو وہاں عطا الحق قاسمی الحمراءآرٹس کونسل کے پورے قافلے کے ساتھ گلدستوں سمیت ہمارے استقبال کے لئے موجود تھے۔ لیجئے ہم لاہور پہنچ گئے۔ دہلی اور لاہور میں صرف ایک ہی فرق نظر آیا کہ ہمارے ہاں دُکانوں اور کاروباری اداروں پر سائن بورڈانگریزی میں نظرآتے ہیں اور وہاں سب کچھ اردو میں لکھا ہوا تھا۔ حتیٰ کہ لاہور ٹرانسپورٹ کی بسوں پر اُن کی منزل کا نام بھی اردو میں درج تھا۔ ہم چوتھی الحمرا عالمی ادبی وثقافتی کانفرنس میں شرکت کے لئے لاہور گئے تھے اور اس کانفرنس کا محور ومرکز ہی اردوزبان و ثقافت
تھی۔ پیچھے پیچھے ممتاز شاعر فرحت احساس اور علینا عترت رضوی بھی لاہور پہنچ گئے۔ ٹائمز آف انڈیا (حیدرآباد) کے ایڈیٹر کنگ سکھ ناگ ہم سے پہلے ہی وہاں پہنچ چکے تھے اور لدھیانہ سے کیول دھیر نے بھی لاہور میں دستک دے دی تھی، جو پاکستانی ناول نگار ابدال بیلا کے ہمزاد نظرآئے۔ اس طرح ہندوستانی وفد کی تکمیل ہوئی اور پورا لاہور تین دن تک علم وادب ، ثقافت اور آرٹ ، صحافت اور موسیقی کے رنگ میں شرابور ہوگیا۔ ابدال بیلا نے ہندوستان پر انگریزی راج اور تقسیم کے تناظر میں 2400 صفحات پر مشتمل جو ضخیم ناول 'دروازہ کھلتا ہے' اُردو میں لکھا ہے، اس کا ہندی ترجمہ کیول دھیر نے کیا ہے اور اس ناول کے ہندی ترجمے کی اشاعت لاہور کے سنگ میل پبلشر نے کی ہے۔ پاکستان میں شائع ہونے والی ہندی کی یہ چوتھی کتاب ہے۔
23تا 25نومبر2013 کو لاہور میں منعقدہ چوتھی الحمرا عالمی ادبی وثقافتی کانفرنس ہراعتبار سے کامیاب رہی ۔ اس سہ روزہ کانفرنس میں جہاں ایک طرف پاکستان کے تمام اہم ادیبوں ، شاعروں ، صحافیوں اور موسیقاروں نے شرکت کی، وہیں امریکہ ، برطانیہ، جرمنی، ایران ، مصر، ہندوستان اور بنگلہ دیش کے مندوبین نے بھی شرکت کی۔ اس کانفرنس کے روح رواں ممتاز مزاح نگار اور شاعر عطا الحق قاسمی تھے، جنہوں نے اپنی شب وروز کی محنت سے اس کانفرنس کو نقش جاوِداں بنادِیا۔ اس کانفرنس کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ تین دن تک سینکڑوں مندوبین اور حاضرین صبح 10بجے سے رات 2بجے تک بڑی تندہی کے ساتھ اس میں شریک رہے۔ حتیٰ کہ رات کو محفل مشاعرہ اور رقص وموسیقی میں حاضرین کی تعداد ہزاروں تک جا پہنچتی تھی ۔پاکستان میں اردو ادب ، زبان اور تہذیب وثقافت کے تئیں عوام وخواص میں بڑی گرم جوشی پائی جاتی ہے۔ نئی نسل کے قلمکاروں اور فنکاروں نے یہ احساس بھی دلایا کہ پاکستان میں اردو زبان وادب اور فنون لطیفہ کی نئی اور دل آویز کونپلیںپھوٹ رہی ہیں۔
کانفرنس کی افتتاحی تقریب کی خصوصیت یہ تھی کہ جہاں ایک طرف اسٹیج پر وزیراعظم نواز شریف موجود تھے تو وہیں ان کے پہلو میں شاعر مشرق علامہ اقبال کے فرزند جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال تشریف فرما تھے، جنہوں نے 'مسلم ثقافت کے روشن چہرے' پر بڑی بھرپور روشنی ڈالی۔ اِسٹیج پر موجود اُردو کے دوعظیم فکشن نگاروں عبداللہ حسین (مصنف :اُداس نسلیں) اور انتظار حسین کی موجودگی قابل رشک تھی تو وہیں ایران اور مصر سے تشریف لانے والے اردو کے دو اساتذہ ڈاکٹر علی بیات اور ڈاکٹر ابراہیم مصری رونق افروز تھے، جن کی تقریر سن کر نواز شریف کو یہ کہنا پڑا کہ " یہ تو ہم سے بھی اچھی اُردو بولتے ہیں۔" ڈاکٹر علی بیات نے اردو زبان وادب میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے اور وہ تہران یونیورسٹی میں شعبہ اردو کے صدر ہیں، جہاں 80طلبا اور طالبات اردوادب کی تعلیم حاصل کررہے ہیں۔
افتتاحی اجلاس کے بعد دوسرا اِجلاس اردو افسانے کے حوالے سے برپا کیاگیااور اس میں اردو افسانے کو انتظار حسین ، عبداللہ حسین ، انور سجاد ، منشا یاداور مسعود مفتی کے تناظر میں پرکھنے کی کوشش کی گئی۔ اس نشست کی صدارت ڈاکٹر سلیم اختر اور ڈاکٹر رضوان الرحمن نے کی اور میزبان کے طورپر ڈاکٹر آصف فرخی شریک رہے۔ اظہار خیال کرنے والوں میں ممتاز افسانہ نگار اور کالم نویس محترمہ زاہدہ حنا کے علاوہ 'سب رنگ 'ڈائجسٹ کے بانی مدیر شکیل عادل زادہ کے علاوہ مسعود اشعر ، نیلم احمد بشیر، ڈاکٹر مبین مرزا اور سعادت سعید نے مایہ ناز افسانہ نگاروں کے فن پاروں کے تناظر میں دلچسپ تجزےے پیش کئے۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ جب مقالے پیش کئے جارہے تھے تو عبداللہ حسین اور انتظار حسین سامعین کی صفوں میں موجود تھے۔مقررین کا خیال تھا کہ اردو میں مکالماتی فکشن کا آغاز انتظار حسین نے کیا اور ان کے افسانے انسانی، اخلاقی اور روحانی زوال کو پیش کرتے ہیں۔ شکیل عادل زادہ نے عبداللہ حسین کے فن پر تبصرہ کرتے ہوئے کہاکہ ان کی تخلیق کے شیش محل میں رنگارنگی ہے اور ان کے فن پاروں میں دیہی ثقافت کی بھرپور ترجمانی ملتی ہے۔ وہیں زاہدہ حنا نے نہایت شستہ زبان میں لکھے ہوئے اپنے مضمون سے حاضرین کا دِل جیت لیا۔
کانفرنس کے دوسرے روز یعنی 24نومبر کا پہلا اجلاس 'طنزومزاح' کے نام تھاجو اس کانفرنس کی کامیاب ترین نشستوں میں سے ایک تھا ۔ اسٹیج پر مہمان خصوصی کے طورپر ڈاکٹر یونس بٹ موجود تھے۔ میزبان عطا الحق قاسمی کے علاوہ مزاحیہ شاعر ڈاکٹرانعام الحق کی موجودگی اس محفل کی رونقوں کو دوبالا کررہی تھی۔ اس نشست میں الحمرا آرٹس کونسل کا سب سے بڑا ہال کھچا کھچ بھراہوا تھا اور طنزیہ اورمزاحیہ مضامین کے درمیان ڈاکٹر انعام الحق کے مزاحیہ اشعار عجیب لطف پیدا کررہے تھے۔ اس نشست میں جہاں ایک طرف اُردو اسکالروں نے پطرس بخاری ، شفیق الرحمن ، مشتاق احمد یوسفی، ابن انشا ، کرنل محمد خاں اور عطا الحق قاسمی کے منتخب فن پاروں کی قرا ت کی، وہیں پاکستان کے معروف مزاح نگار حسین احمد شیرازی نے طنزومزاح کے فن کا نہایت بلیغ اندازمیں تعارف پیش کیا۔ اس نشست میں اداکار شجاعت ہاشمی نے اپنی دلکش آواز سے حاضرین کو متاثر کیا۔
نئے لکھنے والوں میں اشفاق احمد ورک، گل نوخیز اختر، وقار خاں ، حافظ مظفر محسن اور علی رضا احمد نے یہ احساس دِلایا کہ پاکستان میں طنزومزاح کے نئے لکھنے والے پورے اعتماد کے ساتھ اس فن میں شریک ہورہے ہیں۔ اس نشست میں ڈاکٹر انعام الحق کے مزاحیہ اشعار کو خوب داد ملی اور عطا الحق قاسمی کے مضمون پر لوگوں نے خوب قہقہے لگائے۔ اس محفل میں ڈاکٹر یونس بٹ نے جناب عطا الحق قاسمی کا ایک نہایت دلچسپ خاکہ پیش کیا جسے سن کر لوگ لوٹ پوٹ ہوگئے۔ مزاحیہ شاعر ڈاکٹر انعام الحق کے دوشعر ملاحظہ ہوں:
پولیس کرا لیتی ہے ہر چیز برآمد
اس سے بھی جس نے چرائی نہیں ہوتی
۔۔۔۔۔
منزل درست ہے نہ عقیدہ درست ہے
ہردیدہ وَر کا ایک ہی دیدہ درست ہے
دوسرے دن کا چوتھا اجلاس 'ہندوستان میں اردو ۔مسلمانوں کی زبان؟' کے عنوان سے منعقد ہوا جس کی صدارت ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا اور نظامت ممتاز شاعرہ کشور ناہید نے کی۔ دیگر شرکا میں ڈاکٹر تحسین فراقی، عطا الحق قاسمی اور ڈاکٹر عبدالواحد (بنگلہ دیش) شامل تھے۔ ہندوستان کی نمائندگی کیول دھیر اور راقم الحروف نے کی۔ اس موضوع پر ڈاکٹر تحسین فراقی نے ہندوستان کے غیر مسلم اردو ادیبوں اور شاعروں کی اُردو خدمات پر روشنی ڈالی ۔ راقم الحروف نے ہندوستان میں اردو زبان کی صورت ِحال پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ جن علاقوں میں اُردو تعلیم کا بندوبست ہے، وہاں اردو زبان وادب نے ترقی کی ہے اور جہاں اردو تعلیم کے سوتے خشک ہوچکے ہیں، وہاں اردو زبان جاں بلب ہے۔
البتہ مرکزی اور ریاستی حکومتیں اردو زبان وادب کی ترویج واشاعت میں مصروف ہیں۔مرکزی حکومت کی وزارت برائے فروغ انسانی وسائل کے تحت قائم قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کی خدمات لائق تحسین ہیں۔ ملک کی 16ریاستوں میں اردو اکیڈمیاں قائم ہیں اور تمام اہم یونیورسٹیوں میں اردو کے شعبے قائم ہیں۔ دہلی اردو اکیڈمی ملک کی سب سے سرگرم اور نیک نام اکیڈمی ہے۔
دوسرے روز کی نشست کا اختتام کل پاک۔وہند مشاعرے پر ہوا۔ جس کی صدارت ممتاز پاکستانی شاعر ظفراقبال نے کی اور مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے انور شعور شریک ہوئے۔ اس مشاعرے میں جن تین ہندوستانی شعرا کو مدعو کیاگیا تھا ان میں فرحت احساس، شبنم عشائی اور علینا عترت رضوی شامل تھیں۔ ان تینوں مہمان شعرا کو اسٹیج پر بٹھایا گیا اور وہیں میزبان عطا الحق قاسمی بھی موجود تھے۔ مشاعرے کی نظامت غریدہ فاروقی نے کی ۔اس مشاعرے میں 50سے زیادہ مقامی شعرا نے اپنا کلام سنایا اور بیشتر نے سامعین سے داد حاصل کی۔ سب سے زیادہ داد ایک نوجوان نابینا شاعرتیمور حسن کو ملی۔ سامعین میں سے ایک صاحبِ خیر نے اس نابینا شاعر کی مدد کے لئے ایک لاکھ روپے کی رقم پیش کی۔ تیمور کے دوشعر ملاحظہ ہوں:
اے قہقہے بکھیرنے والے! تو خوش بھی ہے
ہنسنے کی بات چھوڑ کہ ہنستا تو مَیں بھی ہوں
ظاہرکی آنکھ سے نظر آتا نہیں مجھے
لیکن حضور ! محوِ تماشا تو مَیں بھی ہوں
قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس مشاعرے میں تمام شعرا نے تحت میں کلام سنایا اور مشاعرے کی اکلوتی ناکام شاعرہ وہ تھیں جنہوں نے نور جہاں کے ترنم میں اپنا کلام سنانے کی ناکام کوشش کی۔ پاکستان میں مشاعروں کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں شعرا حضرات کرسی پر بیٹھ کر کلام سناتے ہیں اور اسی شاعر کو داد ملتی ہے جس کے کلام میں' شاعری' پائی جاتی ہے۔ ترنم میں پڑھنا یہاں معیوب سمجھاجاتا ہے۔ یہ مشاعرہ رات ڈیڑھ بجے تک جاری رہا اور ہر شاعر کو صرف ایک غزل سنانے کی اجازت دی گئی۔ اس مشاعرے میں پاکستان کے نامور شاعر عباس تابش کا یہ شعر خاص طورپر پسند کیاگیا۔
ایک مدت سے میری ماں نہیں سوئی تابش
میں نے ایک روز کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے
آخری روز یعنی 25نومبر کے پہلے اجلاس کا عنوان تھا 'شاعری میں نئی اصناف کا مستقبل'۔ اس اجلاس کی صدارت کشورناہید نے کی اور مہمان خصوصی کے طورپر ڈاکٹر خورشید رضوی اور ڈاکٹر شبنم عشائی (سرینگر) شریک ہوئیں۔ جبکہ پینلسٹ میں مسعود اشعر ڈاکٹر عبدالواحد (بنگلہ دیش) ڈاکٹر علی بیات (ایران) ، پروفیسر نعمان الحق ، اصغر ندیم سید، انعام الحق جاوید اور منصور آفاق نے مباحثے میں حصہ لیا۔ دوسرا اجلاس کلاسیکل اور جدید موسیقی پر مبنی تھا ۔ اس اجلاس کے کوآرڈینیٹر ڈاکٹر عمرعادل تھے اور پینلسٹ میں حامد علی خاں، احمد عقیل روبی، عقیل عباس جعفری اور ڈاکٹر امجدپرویز تھے۔
امن کی آشا اور ہمارا میڈیاکے زیر عنوان کانفرنس کا اختتامی اجلاس خاصی اہمیت کا حامل تھا اور اس اجلاس کو خطاب کرنے کے لئے ہندوستان سے راقم الحروف کے علاوہ ٹائمس آف انڈیا (حیدرآباد) کے ایڈیٹر کنگ سکھ ناگ کو مدعو کیاگیاتھا۔ جبکہ پاکستان کی نمائندگی وہاں کے ممتاز صحافیوں نجم سیٹھی، محمود شام، عارف نظامی، مجیب الرحمن شامی، سہیل وڑائچ، افتخار احمد، سلیم صافی، اوریا مقبول جان اور آفاق خیالی (امریکہ) نے کی۔
سہ روزہ کانفرنس کا اختتام محفل موسیقی پر ہوا ۔ جس میں پاکستانی موسیقاروں حامد علی خاں، عطا اللہ، صنم ماروی ، ترنم راز اور سارہ رضا خاں نے ایسا سماں باندھا کہ لوگ سب کچھ بھول گئے ۔ اس پروگرام کو سننے والوں کی تعداد ہزاروں میں تھی اور الحمرا آرٹس کونسل کے سب سے بڑے آڈیٹوریم کے باہر آویزاں اسکرین پر کھلے آسمان کے نیچے لوگ مسحور ہورہے تھے۔

***
masoom.moradabadi[@]gmail.com
موبائل : 09810780563
معصوم مرادآبادی

A visit to Lahore. - Article: Masoom moradabadi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں