جنسی جرائم کے روز افزوں واقعات - حل کیا ہے ؟ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-01-21

جنسی جرائم کے روز افزوں واقعات - حل کیا ہے ؟

sex-crimes
دہلی میں ایک غیر ملکی خاتون کی اجتماعی آبروریزی نے پھر عورت کی عزت وناموس کے تحفظ پر سوالیہ نشان لگادیئے ہیں ، پھر اس حوالے سے پرانے زخموں کی یاد تازہ ہوگئی ہے ، مذکورہ واقعہ میں کچھ گرفتاریاں عمل میں آئی اور دہلی کے وزیر اعلی اروندکمار کجریوال نے اس سلسلے میں تفصیلی تحقیقات کا حکم دیا ہے ،اس سلسلے میں سخت قوانین بنائے جانے اور مجرمین پر سزا کے نفاذ کے باوجود اس طرح کے جرائم وحادثات ملک میں روز افروں ہیں ، 2012دسمبر میں بھی ایک نوجوان لڑکی کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کا واقعہ پیش آیا تھا، اس نے ساری ملک ہی نہیں ؛ بلکہ ساری دنیا میں ایک ہنگامہ سا کھڑا کردیاتھا ، اس واقعہ کی نوعیت اور سنگینی بھی اس قدر بھیانک تھی اس کا چرچا ہونا کوئی اچھنبے کی بات نہ تھی ، اس وقت اس جنسی درنگی کے واقعہ پر پارلیمنٹ میں بھی اس کا خوب چرچا ہوا ، پھر اس لڑکی کو جسے "نربھئے " کا فرضی نام دیا گیا تھا اسی کے نام پر ایک قانون بنایا گیا جیسے "نربھئے ایکٹ " کا نام دیا گیا ، یہ تو دلی ہے ، ملک کی راجدھانی ہے جہاں اس قسم کے واقعات آئے دن سننے میں آتے ہیں ؛ بلکہ ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ جو کہ ساری دنیا کو قانون کا سبق دیتا ہے وہاں جنسی جرائم کے واقعات سب سے زیادہ پیش آتے ہیں ، دوسرے نمبر پر ہندوستان کا شمار ہوتا ہے جہاں ہر 20منٹ میں میں ایک عورت آبرو ریزی کی شکار ہوتی ہے ، ملک کے گوشہ گوشہ اور چپے چپے میں اس طرح کے واقعات روزانہ کا معمول ہیں ، ہمارے ملک میں خواتین قانون ساز ادارے بڑی تعداد میں موجو د ہیں اور یہاں کا قانون بھی سخت ہے ، زنا بالجبر میں ملوث شخص کو کم سے کم دس سال کی قید کی سزا دی جاتی ہے ، زیادہ سے زیادہ اس کو عمر قید میں بھی تبدیل کیا جاسکتا ہے ،ہمارے ملک میں اس قدر سخت قانون کے موجو د ہوتے ہوئے اس طرح کے جنسی جرائم کے واقعات روز افزوں کیوں ہیں ؟ ایک روزنامہ میں ترتیب وار ہندوستان کی راجدھانی دہلی میں پانچ سالوں کے درمیان عصمت دری کے پیش آنے والے واقعات کے اعداد وشمار ذکر کئے گئے ہیں جس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے ہمار ا ملک جس کی اخلاقی کتھائیں ساری دنیا میں عام ہیں ، اس کو مغربیت کس طرح دیمک کے مانند کھارہی ہے ،2009 میں469،2010میں507،2011 میں572، 2012میں 706،3102میں1,330عورتیں عصمت دری کی شکار ہوئیں ، اسی طرح دست درازی کے واقعات 2009میں552،2010 میں601،2011 میں 657،2012میں 727،2013 میں2,884، ان اعداد وشمار سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارا ہندوستانی مشرقی معاشرہ کس قدر مغرب پرست اور جنسیت اور حیوانیت ودرندگیت کا شکار ہوتا جارہا ہے ،قوانین کے نفاذ کے جہاں تک بات ہے اس سلسلے میں بھی تساہل اور لا پرواہی سے کام لیا جاتا ہے ، ویسے رشوت ستانی کے ذریعے بڑے بڑے معاملات حل ہوجاتے ہیں یہ واقعات پیسوں کے بل بوتے پر پس پردہ کیوں نہ چلے جائیں گے ، اس کے علاوہ بڑے خاندان اور با اثر لوگ غریب خاندان کی لڑکیوں کو ڈرا دھمکا کر بھی خاموش کردیتے ہیں ،ویسے ہمارے ملک میں اس حوالے سے جو قوانین ہیں اس کا نفاذ کے حوالے سے ہمارا ذمہ دار طبقہ امانت دار ہوتا تو بھی اس قسم کے جرائم پر قدغن لگایا جاسکتا ، جتنی امانت داری کے ساتھ دیگر ترقی یافتہ ممالک میں قوانین پر عمل در آمد کیا جاتا ہے ، ہمارے ملک میں نہیں ، صرف زنا بالجبر کے معاملوں میں شرح سزا کا تجزیہ کریں تو پتہ چلے گا کہ زانیوں میں سے مشکل سے چوتھائی افراد کو ہی سزا مل پاتی ہے، وہ بھی سالوں عدالتوں کے دروازوں پر ٹھوکریں کھانے کے بعد ، ورنہ تو اکثر مجرم سینہ تان کر "چور مچائے شور" یا"چوری اور سینہ زوری " کے مصداق دنداناتے پھر ہیں ، ہمارے ملک میں اس وقت جرائم کا گراف جس قدر بڑھتا جارہا ہے سزا یابی کی شرح بھی اس قدر گھٹتی جارہی ہے ،ان معاملات میں1973 میں سزایابی کی شرح 44.3فیصد تھی اور 2011میں یہ شرح گھٹ کر 26.4 فیصد رہ گئی ،موجودہ صورتحال بھی کچھ ایسی ہی ہے ،ہمارے قوانین کی ایک کمی یہ بھی ہے کہ صرف زنا بالجبر ہی کو جرم مانا جاتا ہے ، دو بالغ مرد وعورت کا اپنی مرضی سے جنسی تعلق قائم کرنا جرم شمار نہیں ، حالانکہ ہمارا یہی نظریہ جنسی جرائم کو بڑھاوا دیتا ہے اور مردوں کو جنسی جرائم پر اکستاتا ہے اور ان جنسی جرائم کے کرتا دھرتا ہمارے قانون کی اسی کمزوری کا سہارا لے کر بسااوقات انتہائی چابک دستی اور مہارت کے ساتھ زنا بالجبر کو زنا بالرضا ثابت کردیتے ہیں ، اس لئے بھی یہ ہمارے قوانین ان جرئم کی روک تھام میں ناکام ثابت ہورہے ہیں ، اس کے علاوہ بھی ہندوستان جس کی حسن معاشرت اور اخلاق کی داستانیں ابھی تک پرانی نہیں ہوئیں، جہاں عورت کو ماں ، بہن ، بیوی وغیرہ کی شکل میں ماتا دیوتا کا درجہ دیا جاتا ہے ، کم ازکم ہم ہندوستانی اپنی مشرقی معاشرت کاپاس ولحاظ رکھتے تو اس قدر جنسی جرائم کا گراف نہ بڑھتا ، آج ہندوستا ن میں رائج بے پردگی ، عریانیت اور بے حیائی اور عورتوں کی بد چلنی اور بد کرداری نے بھی ہمارے ملک میں اس قسم کے جرائم کو بڑھاوا دیا ہے ، جس میں عورت جس قدر مجرم ہے ، مرد حضرات بھی کم مجرم نہیں ، اگر ہم اپنے بچوں کو شروع ہی سے پردہ اور حیاء کا سبق کا دیتے اور عورت کو بے لباس یا چست لباس نہ کرتے تو آج یہ برے دن ہمیں نہ دیکھنے پڑتے ، فلموں اور سیریلیوں اور اس کے عشق ومعاشقہ کی داستانیں اور اس کی ہیجان انگیز اور بے محابا عورتوں نے بھی نوجوانوں کو شہوانی اور حیوانی جذبات کو مہمیز کیا ہے ، ہماری سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ جب کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو اس پر بڑا ہڑبونگ مچایا جاتاہے ، واویلا کیا جاتا ہے ، لیکن عورت کو حیاء اور عزت کا سبق دیا جائے ، اس کو پاپردہ بنایا جائے اس قسم کی بات کی جاتی ہے تو اسی دقیانوسیت اور پرانے خیالات تصور کیا جاتا ہے ، حقیقت تو یہ ہے کہ قوانین کے بنانے سے کچھ حد تک ان واقعات کی روک تھام ضرور کی جاسکتی ہے ، لیکن جب تک ہمارے معاشرے سے بے حیائی اور بے پردگی کے مناظر اور شہوت انگیز فلموں اور سیریلوں کا خاتمہ نہیں ہوتا ، عورت کو حیاء کا سبق نہیں دیا جاتا ، اس وقت تک اس قسم کی برائیوں پر بند لگانا ممکن ہی نہیں ،اسی لئے اسلام نے قوانین کے ساتھ ساتھ اخلاقی تربیت کا سہارا لیا ، آج اس وقت اس طرح کے جرائم میں ملوث افراد کے حوالے سے حبس دوام اور پھانسی وغیرہ کی سزا کا مطالبہ کیا جاتا ہے ، اس قدر سنگین سزا کا مطالبہ اسی لئے نہ کیا جاتا ہے واقعہ کی سنگینی ہمارے نگاہوں کے سامنے ہوتی ہے ، اسلام نے اگر غیر شادی شدہ زانی کے لئے سوکوڑے اور شادی شدہ کے لئے سنگسار کرنے کا جو حکم دیا ہے وہ جرم کی اسی سنگینی کی وجہ سے تو ،کہ اگر اس قدر سنگین سزا دی جاتی ہے تو اس گناہ اور جرم کے ارتکاب کے قبل ہی مجرم اقدام گناہ سے باز آجائے گا ، اسلام کے ان جنسی جرائم پر قدغن لگانے سے متعلق جواحکامات ہیں اگر اس کو ساری دنیا اپنالے تو اس قسم کے جرائم معاشرے میں پنپنے ہی نہیں پائیں گے ، اسی لئے اللہ عزوجل نے مردوں اور عورتوں کو نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم کیا ہے کہ کیوں کہ بے راہ روی کے دروازے یہیں سے کھلتے ہیں (النور : 30)بالغ لڑکیوں کو کشادہ اور طویل لباس پہننے کا حکم دیا کہ ان جسم جھلکنے نہ بائے ، اعضائے جسمانی نمایاں نہ ہوں (ابوداؤد )یہ فرمایا کہ پنی زیب وزینت اور پازیب وغیرہ کی جھنکار کا اظہار کرتی ہوئی نہ پھری، جس سے سوئے جذبات ابھر جائیں (النور : 31)عورتوں کو نرم لب ولہجہ کے اختیارکرنے لوچ ولچک کے ساتھ بات کرنے سے بھی منع کیاکہ اس روحانی امراض میں مبتلادل لالچ کرنے لگیں گے، اس کے علاوہ نکاح کا حکم بھی انہیں شہوانی جذبات پر بند لگانے کے لئے ہے ۔

***
مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی ، وادی مصطفی شاہین نگر ، حیدرآباد۔
rafihaneef90[@]gmail.com
رفیع الدین حنیف قاسمی

solution to increasing incidence of sex crimes. Article: Rafi Haneef

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں