ناول - ایک بت - سلامت علی مہدی - قسط:19 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-01-05

ناول - ایک بت - سلامت علی مہدی - قسط:19


گذشتہ اقساط کا خلاصہ :
۔۔۔ چند دن بعد ونود ایک پروفیسر کو اپنی حویلی میں لایا اور اسی رات پروفیسر اپنے کمرے میں بت کے جاگنے کے فوراً بعد مر گیا اور پولیس انسپکٹر نے ونود کو پروفیسر کے قتل کے الزام میں گرفتار کر لیا۔ ونود کے دوست کمار نے ڈاکٹر سے پروفیسر کے پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کے متعلق دریافت کیا اور حوالات میں ونود سے بھی ملاقات کی۔ پھر کمار حویلی کو لوٹ آیا، جہاں اچانک اس کی ملاقات شاتو کے بت کے بجائے جیتی جاگتی شاتو سے ہو گئی۔

قسط : 1 --- قسط : 18

اب مجھ پر سکتہ طاری ہوگیا تھا ۔
میں نے اب تک اس وجود کو نہیں دیکھا تھا جس نے مجھ کو بہت مارا پیٹا تھالیکن اب میں بھوت پریت کا قائل ہوچکا تھا ۔ میری ساری ترقی پسندی رخصت ہوچکی تھی ۔ میں دیر تک کمرے کے فرش پر پڑا ہانپتا رہا ۔ آخر میں کراہتا ہوا اٹھا ۔ شانتا اب بھی مسہری پر نیم عریاں حالت میں پڑی تھی ۔
شانتا کو اس عالم میں دیکھ کر ایک مرتبہ پھر میری بہادری واپس آگئی ۔ میں نے چلا کر کمرے میں موجود اَن دیکھے وجود کو مخاطب کرتے ہوئے کہا "میں نہیں جاتنا کہ تم کون ہو لیکن تم جو کوئی بھی ہو میں تم سے کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں ۔۔"
کمرے میں میری آواز گونج کر رہ گئی ۔ میں نے ہمت کرکے دوبارہ اپنا جملہ دہرایا ۔ اب میں نے دیکھا کہ شانتا کے پاس رکھی ہوئی کرسی اپنی جگہ سے کھسکی ۔ کرسی کے کھسکنے کا انداز بالکل ایسا ہی تھا جیسے کوئی اس پر بیٹھ گیا ہو ۔
میں ٹکٹکی باندھ کر کرسی کی طرف یکھنے لگا ۔
چند لمحے بعد کمرے میں ایک ہلکی سی آواز پھیلی ۔۔ ایک ایسی آواز جو سنی نہ جاسکی ہو ، صرف محسوس کی جاسکتی ہو۔ آواز مجھ سے ہی مخاب تھی ۔ اَن دیکھا وجود ۔۔شانتا کا عاشق ، حویلی کی وہ روح جو شانتا پر اپنا منحوس سایہ ڈال چکی تھی ، مجھ سے کہنے لگی "میں یہاں موجود ہوں اور تم سے پوچھ رہا ہوں کہ تم مجھ سے کیا باتیں کرنا چاہتے ہو ۔"
"میں تمہاری مدد چاہتا ہوں " ۔ میں نے کہا "میں تمہارے تعاون سے اس حویلی کی نحوست کا خاتمہ کرنا چاہتا ہوں ۔ میں اپنے ونود کو شاتو کے سحر سے نکالنا چاہتا ہوں اور میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ تم کون ہو۔"
"میں بھی کبھی اس حویلی میں رہتا تھا ۔ لیکن میں اپنے بارے میں تمہیں کچھ بھی نہیں بتاؤں گا ۔ البتہ میں اس شرط پر تمہارے ساتھ ہر قسم کا تعاون کرنے کے لیے تیار ہوں آج کے بعد تم میرے اور شانتا کے معاملات میں کوئی دخل نہیں دوگے۔"
"میں تمہارا مطلب نہیں سمجھا ۔" میں نے بڑی دھیمی آواز میں کہا۔۔۔
"میرا مطلب بالکل صاف ہے ۔ میں ایک پیاسی روح ہوں میں اپنی زندگی میں ہمیشہ عورت کے پیار کے لیے ترستا رہا ہوں ۔
شانتا جب اس حویلی میں داخل ہوئی تھی اسی وقت مجھے اس کے چہرے پر اپنی روح کا سکون نظر آگیا تھا اور میں نے فیصلہ کرلیا تھا کہ میں شانتا کو ہمیشہ کے لیے اپنالوں گا اور جب کہ میں نے شانتا کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے ۔ میں نہیں چاہتا کہ کوئی بھی میرے اور اس کے درمیان دیوار بنے۔۔۔۔"
"تم چاہتے کیا ہو ؟" میں نے بدستور خوف زدہ آواز میں سوال کیا ۔
"میں یہ چاہتا ہوں کہ شانتا اسی طرح ۔ اسی نیم عریاں حالت میں اسی طرح بناؤ سنگھار کیے ہوئے اس مسہری پر لیٹی رہے ، اور میں اس کو دیکھتا رہوں ۔"چند لمحوں کی خاموشی کے بعد آواز دوبارہ پھیلی "میں چاہتا ہوں کوئی انسان اس کمرے میں داخل نہ ہو ۔"
"تو کیا شانتا ہمیشہ اسی طرح سوتی رہے گی ؟"میں نے پوچھا ۔
"ہاں ۔۔۔ یہ میری اپنی مرضی پر منحصر ہے کہ وہ کب تک سوئے اور کب جاگے ، میں اسی شرط پر اس چڑیل کے خلاف تمہارا ساتھ دینے کے لیے تیار ہوں کہ اس وقت کے بعد تم اس کمرے میں نہیں ہوگے۔"
"اور اگر میں تمہاری شرط نہ مانوں ۔۔؟" میں نے ہمت سے کام لیتے ہوئے کہا ۔
"تو تکلیف اٹھاؤگے ۔" روح نے جواب دیا ۔
کمرے کی روح کا یہ جواب سن کر میں نے ایک مرتبہ شانتا کے جسم کی طرف دیکھا ۔ وہ بدستور مسہری پر بے ہوش پڑی تھی اور اس کی ادھ کھلی آنکھیں بدستور چھت کو دیکھے جارہی تھیں ۔
میں عجیب الجھن میں پھنس چکا تھا ۔
شاتو نے ابھی چند منٹ قبل مجھ سے کہا تھا "تم جب ونود کے دوست رہوگے ، تم جب تک ونود کی مدد کرتے رہو گے میں تمہیں کوئی مدد نہیں کرسکتی ، بلکہ تمہیں پریشان کروں گی اور اتنا پریشان کروں گی کہ تم خود ہی اس حویلی سے بھاگ کھڑے ہوگے ۔"
اور اب ۔۔۔
حویلی کی یہ دوسری روح مجھ سے شانتا کو طلب کر رہی تھی ۔ میرے ایک طرف ونود تھا اور دوسری طرف شانتا تھی ، مجھے دونوں سے محبت تھی دونوں سے پیار تھا ۔ ایک میرا بچپن کا دوست تھا اور دوسری میری بچپن کی محبوبہ ۔
میں اگر ونود کوکو شاتو کے سحر سے نجات دلانے کی ٹھانتا تھا تو مجھے شانتا کو قربان کرنا تھا اور اگر شانتا کو اس روح کے شکنجے سے بچانا تھا تو مجھے ونود کو قربان کرنا تھا ۔۔ میں چند منٹ تک اس نئی صورت ِ حال پرغور کرتا رہا اور میری الجھنیں بڑھتی گئیں ۔ میری قوتِ فیصلہ جواب دیتی گئی اور میری آنکھیں بوجھل ہوتی گئیں ۔
اچانک کمرے میں وہی جانی پہچانی آواز گونجی "میں تمہارا فیصلہ سننا چاہتا ہوں ۔" اور جیسے میں چونک گیا۔ میرے حواس واپس آگئے میں نے جواب دیا "اپنا فیصلہ سنانے سے قبل میں تم سے ایک درخواست کرنا چاہتا ہوں ۔"
ایک لمحہ تک خاموش رہنے کے بعد میں نے کہا "میں چاہتا ہوں کہ تم آج رات کے لیے شانتا کو میرے حوالے کردو ۔ میں شانتا سے کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں ۔ شاید تمہیں نہیں معلوم کہ ایک مدت تک وہ میری محبوبہ رہ چکی ہے ۔"
"مجھے معلوم ہے ۔۔" روح نے جواب دیا " اور اسی لیے میں شانتا میں تمہاری دلچسپی برداشت کر رہا تھا ۔ بہرحال ۔۔ میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ اگر آج کی رات کے لیے میں نے شانتا کی نیم بے ہوشی ختم کردی تو کیا تم صبح اپنا فیصلہ مجھے سنادوگے ؟""ہاں ۔ میں نے جواب دیا ۔""میں وعدہ کرتا ہوں ۔"
اور اس کے بعد ۔۔۔
میں نے دوبارہ کرسی کو کھسکتے دیکھا ، دروازے کو کھلتے دیکھا اور پھر اچانک ایسا محسوس کیا کہ اب تک کمرے میں جو خاص قسم کی بو پھیلی ہوئی تھی وہ غائب ہوچکی ہے ٹھیک اسی لمحے میں نے شانتا کو انگڑائی لیتے ہوئے دیکھا اور میرے دیکھتے ہی دیکھتے شانتا بیدار ہوگئی ۔ بیدار ہوتے ہی اس نے ایک نظر اپنے نیم عریاں بدن پر ڈالی اور دوسری نظر مجھ پر ۔۔ اور پھر وہ جیسے زخمی شیرنی بن گئی ۔
وہ مجھ پر جھپٹ پڑی اور چیخ چیخ کر میرے بال نوچنے لگی وہ چلا رہی تھی "بد معاش لفنگے مجھے مجبور پاکر دوست کی عزت پر ڈاکہ ڈالنا چاہتا ہے میں کمزور نہیں ہوں ، میں تجھے زندہ چبا جاؤں گی ، میں تجھے مارڈالوں گی ۔"
اس بدلی ہوئی صورت حال نے مجھے اور بھی حیران کردیا ۔
میں نے تنگ آکر شانتا کے دونوں ہاتھ پکڑ لیے اور اس سے کہا "تم پاگل ہوگئی ہو شانتا۔"
شانتا نے جواب دیا "پاگل میں نہیں تو ہوگیا ہے بدمعاش تو نے میرے کپڑے اتارنے چاہے تھے وہ تو کہو اتفاق سے میری آنکھ کھل گئی ، ورنہ تونے مجھے برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی تھی ۔"
"نہیں شانتا تمہیں غلط فہمی ہوئی ہے ۔۔" میں نے اسے سمجھانا چاہا ۔
"عورت کو کبھی غلط فہمی نہیں ہوتی ۔" شانتا چلائی "اچھا یہ بتا کہ تو میرے تنہا کمرے میں کیا کرنے آیا تھا ۔
"تم بے ہوش تھیں شانتا ۔۔ میں تمہیں ہوش میں لانے آیا تھا اور یہاں آکر مجھ پر جو بیتی یا جو کچھ میں نے دیکھا ہے اگر تم اس کی تفصیل سنو گی تو ابھی اس حویلی سے بھاگ کھڑی ہوگی ۔"
میں نے اس کو سمجھانے کے انداز میں کہا ۔
میں چاہتا تھا کہ شانتا کا غصہ ٹھنڈا ہوجائے لیکن شانتا بدستورغصے میں بھپری رہی ۔۔اس نے کہا "یہ سب تمہاری بکواس ہے۔"
"بکواس نہیں ہے شانتا ۔۔" میں نے جواب دیا ۔ اگر تم ثبوت چاہتی ہوتو کمرے سے باہر نکل کر دیکھ لو تمہارا وفادار ملازم کالکا ابھی تک بے ہوش پڑا ہوا ہے ۔"
"یہ کوئی ثبوت نہیں ہوا ۔۔۔" شانتا نے کہا "تم ڈاکٹر ہو تم نے مجھے بھی بے ہوش کردیا ہوگا اور کالکا کو بھی تاکہ تمہیں اپنی برسوں کی پیاس بجھانے کا موقع مل جائے ؛"
"نہیں شانتا نہیں " اب میں چلایا "میری عزت نفس کی توہین نہ کرو ، میری نیک نیتی پرکیچڑ نہ اچھالو ۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ میں نے تمہیں بد نیتی سے ہاتھ تک نہیں لگایا ہے ۔ میں مانتا ہوں کہ ماضی میں تم میری محبوبہ رہی ہو میرے دل میں موجود رہی ہو ۔ لیکن آج میں تمہیں اپنے دوست کی امانت سمجھتا ہوں ایک مقدس امانت ۔"
میرے یہ جملے سن کر شانتا کا غصہ کچھ ٹھنڈا ہوا ، اور میں نے اس کے دونوں ہاتھ چھوڑ دئیے ۔ اب میں نے اس کو بڑے سکون کے ساتھ ساری داستان سنادی ۔ میں نے جیسے ہی داستان ختم کرکے شانتا کی طرف دیکھا وہ رو رہی تھی اور خوف کی وجہ سے اس کا سارا جسم تھر تھر کانپ رہا تھا ۔۔


Novel "Aik Bot" by: Salamat Ali Mehdi - episode:19

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں